فرحت عباس شاه
انگلی کوئی کس طرح اٹھاتا کبھی تم پر
انگلی کوئی کس طرح اٹھاتا کبھی تم پر ہم سینہ سپر منتظرِ وقتِ جدل تھے کہنے کو تو اک عالمِ احساس ہے اندر ممکن ہے…
آنکھ کی بھول بھلیوں میں کہیں
آنکھ کی بھول بھلیوں میں کہیں جس قدر رنگ تھے محصور ہوئے فرحت عباس شاہ (کتاب – جدائی راستہ روکے کھڑی ہے)
اندھے کالے سورج کی پیشانی پر
اندھے کالے سورج کی پیشانی پر تیرا ماتھا جا چمکا ویرانی پر فرحت عباس شاہ (کتاب – اک بار کہو تم میرے ہو)
امریکہ مائی فرینڈ
امریکہ مائی فرینڈ امریکہ! میرے دوست تمہیں معلوم ہے زندگی دن بدن بیک وقت آگ اور برف کی طرف بڑھ رہی ہے آگ سے بنے…
اگرچہ لاکھ جتن سے نکال لایا تھا
اگرچہ لاکھ جتن سے نکال لایا تھا میں اپنا آپ تھکن سے نکال لایا تھا اسے خبر تھی کہ کس طرح روح کھینچتے ہیں وہ…
آکسیجن ہو گھر میں کم شاید
آکسیجن ہو گھر میں کم شاید ڈوب جائے ہمارا دَم شاید اس لیے اس کو کچھ بتاتا نہیں آنکھ ہو جائے اس کی نم شاید…
اک دیوانہ آتے جاتے لوگوں میں
اک دیوانہ آتے جاتے لوگوں میں مدت سے بس اپنے آپ کو ڈھونڈ رہا ہے تمہیں ملوں تو دیر گئے تک تم سے تیری بات…
اک اعتراض ہے مجھ پر زمانے والوں کا
اک اعتراض ہے مجھ پر زمانے والوں کا میں اپنا آپ انہیں سونپ کیوں نہیں دیتا فرحت عباس شاہ (کتاب – محبت گمشدہ میری)
اسے میں نے بھلا ڈالا
اسے میں نے بھلا ڈالا اسے میں نے بھلا ڈالا نئے دن کی توجہ میں نئی ٹھوکر کے صدمے سے نئی خواہش کی چوکھٹ پر…
آسماں جھیل کے پیالے سے مجھے دیکھتا ہے
آسماں جھیل کے پیالے سے مجھے دیکھتا ہے اور کبھی چاند کے ہالے سے مجھے دیکھتا ہے ہر کوئی اپنے طریقے سے مجھے سوچتا ہے…
اس نے پوچھا تم مجھے کتنا یاد کرتے ہو
اس نے پوچھا تم مجھے کتنا یاد کرتے ہو اس نے ایک بار مجھ سے پوچھا کہ بتاؤ مجھے کتنا یاد کرتے ہو میں نے…
اس کی آنکھوں میں کوئی آنسو ہنسا
اس کی آنکھوں میں کوئی آنسو ہنسا رات کے دامن میں اک جگنو ہنسا تیرے رونے سے زمانے رو پڑے ہنس پڑا سارا جہاں جب…
اس سے پہلے کہ اثر ہی جائے
اس سے پہلے کہ اثر ہی جائے رات سے کہہ دو گزر ہی جائے یہ بھی ممکن ہے کہ اس بار مرا تیری امید میں…
آزمائش کے نہاں خانوں میں
آزمائش کے نہاں خانوں میں اپنے اعزاز کی تسکین بھی پوشیدہ ہے فطرت کون و مکاں سود و زیاں کی پابند آزمائش کی حدیں ختم…
آدھی خوشیاں
آدھی خوشیاں تم نے مجھے کہا تھا تم میرے دوست ہو پکے اور مخلص دوست لیکن تم اور بھی بہت سارے لوگوں کے دوست تھے…
اداس شامیں، اُجاڑ رستے کبھی بلائیں تو لوٹ آنا
اداس شامیں، اُجاڑ رستے کبھی بلائیں تو لوٹ آنا کسی کی آنکھوں میں رتجگوں کے عذاب آئیں تو لوٹ آنا ابھی نئی وادیوں، نئے منظروں…
اختلال
اختلال ہم گئے سال عجب ڈھنگ کے لمحوں میں رہے ہم نے دیکھا کہ خوشی روتی ہے اور اس آبِ چمکدار کے پاس دکھ ہنسے…
آج کل اپنی زندگانی کا
آج کل اپنی زندگانی کا حال بھی سرد رات جیسا ہے ایک چپ ہے پڑوس میں رہتی ایک ویرانہ گھر کے اندر ہے دوسروں سے…
اُترا ہے قحط روح پہ یوں بھی کبھی کبھی
اُترا ہے قحط روح پہ یوں بھی کبھی کبھی اک عالمِ خیال کہ ویران ہو گیا کنجِ قفس میں جسموں کے لاشے لیے ہوئے خوش ہیں…
اپنی خاطر ہی بنے ہیں تالے
اپنی خاطر ہی بنے ہیں تالے عمر بھر ساتھ چلے ہیں تالے ہم عجب قیدی ہیں فرحت جن کے آنسوؤں پر بھی لگے ہیں تالے…
اپنا اپنا وقت
اپنا اپنا وقت شیلف میں رکھی ہوئی کتابوں کی طرح ٹرالی پر سجے ہوئے ٹی وی کی طرح اور دیوار پر ٹنگی ہوئی تصویروں کی…
ابھی مجھے چلنا ہے
ابھی مجھے چلنا ہے کپکپاتی ہوئی آنکھوں اور لرزتے ہوئے ہونٹوں کی قسم کبھی کبھی آنسو بھی کتنے عام، کتنے سطحی اور کتنے سرسری ہو…
اب مرا کوئی نہیں حبس کے اس موسم میں
اب مرا کوئی نہیں حبس کے اس موسم میں اب مجھے درد ہی دامن سے ہوا دیتا ہے پوچھتا ہوں میں ترے بارے میں صحرا…
یوں سجے تیرے خواب چہرے پر
یوں سجے تیرے خواب چہرے پر آ گیا انقلاب چہرے پر آنکھ میں شام سی کوئی چمکی اور اک ماہتاب چہرے پر روح میں اک…
یہاں
یہاں اکثر کسی چولہے کے ساحل پر بھوک سے نڈھال پھرتے ہو یہاں روٹیاں صرف تالی بجانے کے لئے پکائی جاتی ہیں البتہ آگ سے…
یہ کوئی بات نہیں زندگی سے ڈر جانا
یہ کوئی بات نہیں زندگی سے ڈر جانا یہ کوئی کام نہیں خامشی سے مر جانا تو میرے ساتھ اگر اڑتے اڑتے تھک جائے تو…
یہ دل اداس رتوں سے ملا ہوا تو نہیں
یہ دل اداس رتوں سے ملا ہوا تو نہیں فضا میں دور کہیں کچھ جلا ہوا تو نہیں قدم قدم پہ لرزتے ہو پیاس کے…
یہ تو جھوٹ ہے
یہ تو جھوٹ ہے مری بات سن! مرے ساتھ چل یہ جو شوخ رنگ ہیں ارد گرد فضاؤں میں یہ ہیں عارضی یہ جو سُر…
یاد پیا کی
یاد پیا کی ایک عجیب سہانا خواب اور یاد پیا کی موسم پیلا زرد، خراب اور یاد پیا کی رات نے ایک عجیب اداسی کے…
وہاں اتنے جبر میں تھے خدا کہ نہ پوچھیے
وہاں اتنے جبر میں تھے خدا کہ نہ پوچھیے چلا آیا بوسہِ ہجر خاک لپیٹ کر وہاں مندروں میں جگہ نہ تھی وہاں پوجا پاٹ…
وہ شکوک بھی تو عجب تھے لاحق جان و دل
وہ شکوک بھی تو عجب تھے لاحق جان و دل جو خدا کی ہستی و نیستی کا مدار تھے کہیں بچپنے کے کسی سبق کا…
وہ اگر دل میں سمانے لگ جائیں
وہ اگر دل میں سمانے لگ جائیں راستے صاف نظر آنے لگ جائیں پھر عبادات کے میلے ہر سو ایک سے ایک سہانے لگ جائیں…
وفا کو مات بھی ہو گی، خیال میں بھی نہ تھا
وفا کو مات بھی ہو گی، خیال میں بھی نہ تھا کچھ ایسی بات بھی ہو گی، خیال میں بھی نہ تھا میں دشمنوں میں…
ورنہ کیا کچھ ہو نہیں سکتا
ورنہ کیا کچھ ہو نہیں سکتا ہم دانستہ اپنے اپنے جھوٹ کے آگے جھُکے ہوئے ہیں ہم دانستہ بے بس ہیں فرحت عباس شاہ (کتاب…
ہے عجیب شکل کی کیفیت مرے کیف کی
ہے عجیب شکل کی کیفیت مرے کیف کی مجھے بارشوں سی دکھائی دیتی ہیں خوشبوئیں تجھے کتنی بار کہا ہے یوں نہ پھرا کرو یہ…
ہوا میں آگ لگے اور سبھی کے پر جل جائیں
ہوا میں آگ لگے اور سبھی کے پر جل جائیں بچے نہ راکھ بھی یہ لوگ اس قدر جل جائیں یہ کیسے لوگ ہیں زیرِ…
ہو انجان گئے
ہو انجان گئے سب پیمان گئے آپ زمانے کا کہنا مان گئے درد مرے بارے سب کچھ جان گئے اس کے ساتھ مرے سات جہان…
ہمارے ساتھ قسمت کی اداؤں کا تقاضا تھا
ہمارے ساتھ قسمت کی اداؤں کا تقاضا تھا ہم اپنے بادباں کھولیں ہواؤں کا تقاضا تھا تمہارے نام پر جیون بِتائیں اور چپ کر کے…
ہم نے دل کی مثال یوں دی تھی
ہم نے دل کی مثال یوں دی تھی پتھروں کا تھا ذکر عام وہاں فرحت عباس شاہ (کتاب – محبت گمشدہ میری)
ہم کھڑے رہتے اگر ہوتی شجر کی زندگی
ہم کھڑے رہتے اگر ہوتی شجر کی زندگی تو نے غم دے کر ہمیں دے دی سفر کی زندگی چار دن بھی بس تسلی کے…
ہم خون کے دریا سے تو آئے ہیں گزر کر
ہم خون کے دریا سے تو آئے ہیں گزر کر پھر آنکھ میں یہ کیا ہے جو رستہ نہیں دیتا فرحت عباس شاہ (کتاب –…
ہم ترے سوگ میں چپ بیٹھے تھے
ہم ترے سوگ میں چپ بیٹھے تھے آنکھ کے پار کسی روئی ہوئی یاد کی خاموش زدہ تصویریں پھڑ پھڑاتی ہیں بہت بے آواز شہر…
ہم اربوں ہم کھربوں
ہم اربوں ہم کھربوں ہم اربوں ہم کھربوں سارے ہم اربوں ہم کھربوں اِک دوجے کا سینہ کھود کے ڈھونڈ رہے ہیں پر خون اُنڈیل…
ہر طرف موت کا سامان تو ہے آخر کار
ہر طرف موت کا سامان تو ہے آخر کار پاس میرے کوئی امکان تو ہے آخر کار یہ کہ مجھ سا کوئی معمولی اسے جھیل…
ہجر کے عادی لوگوں کو
ہجر کے عادی لوگوں کو ہجر کے عادی لوگوں کو وصل پسند تو آجاتا ہے لیکن راس نہیں آتا فرحت عباس شاہ (کتاب – آنکھوں…
ہاں یہی بات ہے حقیقت میں
ہاں یہی بات ہے حقیقت میں جھوٹ ہے جھوٹ کی حمایت میں مجھ سے دولت پرست پو چھتے ہیں کیا ملا آپ کو محبت میں…
نیا سکھ
نیا سکھ اچھا ہے تم مجھ سے ملنے نہیں آتے ٹھہرے ہوئے پانی میں کنکر نسبتاً کم ارتعاش پیدا کرتا ہے لیکن اس کی کاٹ…
نفرت اور غصے سے بھری ہوئی نظمیں
نفرت اور غصے سے بھری ہوئی نظمیں ٹریڈ سینٹر میں ویں منزل سے کودنے والے اس بے گناہ انسان کی گھبراہٹ کی قسم جس نے…
ناسمجھ
ناسمجھ کبھی سنا نہیں کہ کسی گرم میدانی علاقے کی سڑک پر کوئی بادل اتر آیا ہو یا برفانی علاقوں میں برف باری کے موسم…
میں ہوں غصے میں ڈر رہی ہے رات
میں ہوں غصے میں ڈر رہی ہے رات جانے کس کس کے گھر رہی ہے رات ایک تو میں تھا اور مرے ہمراہ عمر بھر…