یعقوب عثمانی
قدم قدم پہ حوادث نے رہنمائی کی
قدم قدم پہ حوادث نے رہنمائی کی رواں ہے جادۂ منزل پہ کاروان خیال یعقوب عثمانی
خوش فہمیوں کو غور کا یارا نہیں رہا
خوش فہمیوں کو غور کا یارا نہیں رہا طوفاں کی زد سے دور کنارا نہیں رہا بڑھ بڑھ کے ڈھونڈھتے ہیں پناہیں نئی نئی فتنوں…
صبر خود اکتا گیا اچھا ہوا
صبر خود اکتا گیا اچھا ہوا کچھ تو بوجھ احساس کا ہلکا ہوا وہ غرور ہوشمندی کیا ہوا جو قدم پڑتا ہے وہ بہکا ہوا…
امنگوں میں وہی جوش تمنا زاد باقی ہے
امنگوں میں وہی جوش تمنا زاد باقی ہے ابھی دل میں خدا رکھے کسی کی یاد باقی ہے سر منزل فریب رہنما کا توڑ مشکل…
چاہتی ہے آخر کیا آگہی خدا معلوم
چاہتی ہے آخر کیا آگہی خدا معلوم کتنے رنگ بدلے گی زندگی خدا معلوم کل تو خیر اے رہبر تیرے ساتھ رہرو تھے آج کس…
تضاد اچھا نہیں طرز بیاں کا ہم زبانوں میں
تضاد اچھا نہیں طرز بیاں کا ہم زبانوں میں حقیقت کو چھپاتا جا رہا ہوں داستانوں میں سبھی تو آج برگشتہ ہیں عظمت سوز پستی…
کرم کے اس دور امتحاں سے وہ دور مشق ستم ہی
کرم کے اس دور امتحاں سے وہ دور مشق ستم ہی اچھا نہ زندگی کی خوشی ہی اچھی نہ بے ثباتی کا غم ہی اچھا…
میں چاہوں بھی تو ضبط گفتگو میں لا نہیں سکتا
میں چاہوں بھی تو ضبط گفتگو میں لا نہیں سکتا سمجھنے پر بھی دل کا مدعا سمجھا نہیں سکتا بھلا ایسی تہی داماں تمناؤں سے…
مذاق کاوش پنہاں اب اتنا عام کیا ہوگا
مذاق کاوش پنہاں اب اتنا عام کیا ہوگا زباں پر ہم صفیروں کی مرا پیغام کیا ہوگا کہے دیتا ہے خود آغاز ہی انجام کیا…