یاسمین حمید
ایک اک حرف سمیٹو مجھے تحریر کرو
ایک اک حرف سمیٹو مجھے تحریر کرو مری یکسوئی کو آمدۂ زنجیر کرو سب خد و خال مرے دھند ہوئے جاتے ہیں صبح کے رنگ…
افق تک میرا صحرا کھل رہا ہے
افق تک میرا صحرا کھل رہا ہے کہیں دریا سے دریا مل رہا ہے لباس ابر نے بھی رنگ بدلا زمیں کا پیرہن بھی سل…
ایک دیوار اٹھائی تھی بڑی عجلت میں
ایک دیوار اٹھائی تھی بڑی عجلت میں وہی دیوار گرانے میں بہت دیر لگی یاسمین حمید
دولت درد سمیٹو کہ بکھرنے کو ہے
دولت درد سمیٹو کہ بکھرنے کو ہے رات کا آخری لمحہ بھی گزرنے کو ہے خشت در خشت عقیدت نے بنایا جس کو ابر آزار…
جس سمت کی ہوا ہے اسی سمت چل پڑیں
جس سمت کی ہوا ہے اسی سمت چل پڑیں جب کچھ نہ ہو سکا تو یہی فیصلہ کیا یاسمین حمید
پردہ آنکھوں سے ہٹانے میں بہت دیر لگی
پردہ آنکھوں سے ہٹانے میں بہت دیر لگی ہمیں دنیا نظر آنے میں بہت دیر لگی نظر آتا ہے جو ویسا نہیں ہوتا کوئی شخص…
کوئی پوچھے مرے مہتاب سے میرے ستاروں سے
کوئی پوچھے مرے مہتاب سے میرے ستاروں سے چھلکتا کیوں نہیں سیلاب میں پانی کناروں سے مکمل ہو تو سچائی کہاں تقسیم ہوتی ہے یہ…
خوشی کے دور تو مہماں تھے آتے جاتے رہے
خوشی کے دور تو مہماں تھے آتے جاتے رہے اداسی تھی کہ ہمیشہ ہمارے گھر میں رہی یاسمین حمید
مسلسل ایک ہی تصویر چشم تر میں رہی
مسلسل ایک ہی تصویر چشم تر میں رہی چراغ بجھ بھی گیا روشنی سفر میں رہی رہ حیات کی ہر کشمکش پہ بھاری ہے وہ…
ہمیں خبر تھی بچانے کا اس میں یارا نہیں
ہمیں خبر تھی بچانے کا اس میں یارا نہیں سو ہم بھی ڈوب گئے اور اسے پکارا نہیں خود آفتاب مری راہ کا چراغ بنے…
اپنی نگاہ پر بھی کروں اعتبار کیا
اپنی نگاہ پر بھی کروں اعتبار کیا کس مان پر کہوں وہ مرا انتخاب تھا یاسمین حمید
اک بے پناہ رات کا تنہا جواب تھا
اک بے پناہ رات کا تنہا جواب تھا چھوٹا سا اک دیا جو سر احتساب تھا رستہ مرا تضاد کی تصویر ہو گیا دریا بھی…
اتنے آسودہ کنارے نہیں اچھے لگتے
اتنے آسودہ کنارے نہیں اچھے لگتے ایک ہی جیسے نظارے نہیں اچھے لگتے اتنی بے ربط کہانی نہیں اچھی لگتی اور واضح بھی اشارے نہیں…