کیفی وجدانی
خود سے ملنے کے لیے خود سے گزر کر آیا
خود سے ملنے کے لیے خود سے گزر کر آیا کس قدر سخت مہم تھی کہ جو سر کر آیا لاش ہوتا تو ابھر آتا…
تو اک قدم بھی جو میری طرف بڑھا دیتا
تو اک قدم بھی جو میری طرف بڑھا دیتا میں منزلیں تری دہلیز سے ملا دیتا خبر تو دیتا مجھے مجھ کو چھوڑ جانے کی…
بستی میں غریبوں کی جہاں آگ لگی تھی
بستی میں غریبوں کی جہاں آگ لگی تھی سنتے ہیں وہاں ایک نیا شہر بسے گا کیفی وجدانی
وہ آج لوٹ بھی آئے تو اس سے کیا ہوگا
وہ آج لوٹ بھی آئے تو اس سے کیا ہوگا اب اس نگاہ کا پتھر سے سامنا ہوگا زمیں کے زخم سمندر تو بھر نہ…
صرف دروازے تلک جا کے ہی لوٹ آیا ہوں
صرف دروازے تلک جا کے ہی لوٹ آیا ہوں ایسا لگتا ہے کہ صدیوں کا سفر کر آیا کیفی وجدانی
زمیں کے زخم سمندر تو بھر نہ پائے گا
زمیں کے زخم سمندر تو بھر نہ پائے گا یہ کام دیدۂ تر تجھ کو سونپنا ہوگا کیفی وجدانی
وہ سرد فاصلہ بس آج کٹنے والا تھا
وہ سرد فاصلہ بس آج کٹنے والا تھا میں اک چراغ کی لو سے لپٹنے والا تھا بہت بکھیرا مجھے مرے مہربانوں نے مرا وجود…
اطلاعیه برای شاعران و نویسندگان
پایگاه اینترنتی شعرستان از همکاری همه شاعران و نویسندگان آماتور و حرفه ای از سراسر جهان استقبال میکند و مشارکت فعال آنها را خیر مقدم میگوید. شما میتوانید اشعار، مطالب معلوماتی و مقالات خویش را از طریق ایمیل و یا فرم تماس ارسال نماید. مطالب ارسالی در اولین فرصت مناسب منتشر خواهند شد