سنا کرو مری جاں ان سے ان سے افسانے

سنا کرو مری جاں ان سے ان سے افسانے سب اجنبی ہیں یہاں کون کس کو پہچانے یہاں سے جلد گزر جاؤ قافلے والو ہیں…

ادامه مطلب

اب جس طرف سے چاہے گزر جائے کارواں

اب جس طرف سے چاہے گزر جائے کارواں ویرانیاں تو سب مرے دل میں اتر گئیں کیفی اعظمی

ادامه مطلب

گر ڈوبنا ہی اپنا مقدر ہے تو سنو

گر ڈوبنا ہی اپنا مقدر ہے تو سنو ڈوبیں گے ہم ضرور مگر ناخدا کے ساتھ کیفی اعظمی

ادامه مطلب

پتھر کے خدا وہاں بھی پائے

پتھر کے خدا وہاں بھی پائے ہم چاند سے آج لوٹ آئے دیواریں تو ہر طرف کھڑی ہیں کیا ہو گئے مہربان سائے جنگل کی…

ادامه مطلب

کیا جانے کس کی پیاس بجھانے کدھر گئیں

کیا جانے کس کی پیاس بجھانے کدھر گئیں اس سر پہ جھوم کے جو گھٹائیں گزر گئیں دیوانہ پوچھتا ہے یہ لہروں سے بار بار…

ادامه مطلب

پیڑ کے کاٹنے والوں کو یہ معلوم تو تھا

پیڑ کے کاٹنے والوں کو یہ معلوم تو تھا جسم جل جائیں گے جب سر پہ نہ سایہ ہوگا کیفی اعظمی

ادامه مطلب

گزرنے کو تو ہزاروں ہی قافلے گزرے

گزرنے کو تو ہزاروں ہی قافلے گزرے زمیں پہ نقش قدم بس کسی کسی کا رہا کیفی اعظمی

ادامه مطلب

تم اتنا جو مسکرا رہے ہو – 1

تم اتنا جو مسکرا رہے ہو کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو آنکھوں میں نمی ہنسی لبوں پر کیا حال ہے کیا دکھا…

ادامه مطلب

لائی پھر اک لغزش مستانہ تیرے شہر میں

لائی پھر اک لغزش مستانہ تیرے شہر میں پھر بنیں گی مسجدیں مے خانہ تیرے شہر میں آج پھر ٹوٹیں گی تیرے گھر کی نازک…

ادامه مطلب

تم اتنا جو مسکرا رہے ہو

تم اتنا جو مسکرا رہے ہو کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو کیفی اعظمی

ادامه مطلب

جنگل کی ہوائیں آ رہی ہیں

جنگل کی ہوائیں آ رہی ہیں کاغذ کا یہ شہر اڑ نہ جائے کیفی اعظمی

ادامه مطلب

لگ گیا اک مشین میں میں بھی

لگ گیا اک مشین میں میں بھی شہر میں لے کے آ گیا کوئی کیفی اعظمی

ادامه مطلب

جب اس نے ہار کے خنجر زمیں پہ پھینک دیا

جب اس نے ہار کے خنجر زمیں پہ پھینک دیا تمام زخم جگر مسکرائے ہیں کیا کیا کیفی اعظمی

ادامه مطلب

خار و خس تو اٹھیں راستہ تو چلے

خار و خس تو اٹھیں راستہ تو چلے میں اگر تھک گیا قافلہ تو چلے چاند سورج بزرگوں کے نقش قدم خیر بجھنے دو ان…

ادامه مطلب

مدت کے بعد اس نے جو کی لطف کی نگاہ

مدت کے بعد اس نے جو کی لطف کی نگاہ جی خوش تو ہو گیا مگر آنسو نکل پڑے کیفی اعظمی

ادامه مطلب

جرم ہے تیری گلی سے سر جھکا کر لوٹنا

جرم ہے تیری گلی سے سر جھکا کر لوٹنا کفر ہے پتھراؤ سے گھبرانا تیرے شہر میں کیفی اعظمی

ادامه مطلب

جو وہ مرے نہ رہے میں بھی کب کسی کا رہا

جو وہ مرے نہ رہے میں بھی کب کسی کا رہا بچھڑ کے ان سے سلیقہ نہ زندگی کا رہا لبوں سے اڑ گیا جگنو…

ادامه مطلب

میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا

میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا نئی زمین نیا آسماں نہیں ملتا نئی زمین نیا آسماں بھی مل جائے نئے بشر کا کہیں…

ادامه مطلب

جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں – 1

جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں دبا دبا سا سہی دل میں پیار ہے کہ نہیں تو اپنے دل کی جواں دھڑکنوں…

ادامه مطلب

ہاتھ آ کر لگا گیا کوئی

ہاتھ آ کر لگا گیا کوئی میرا چھپر اٹھا گیا کوئی لگ گیا اک مشین میں میں بھی شہر میں لے کے آ گیا کوئی…

ادامه مطلب

جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں

جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں دبا دبا سا سہی دل میں پیار ہے کہ نہیں کیفی اعظمی

ادامه مطلب

ہونٹوں کو سی کے دیکھیے پچھتائیے گا آپ

ہونٹوں کو سی کے دیکھیے پچھتائیے گا آپ ہنگامے جاگ اٹھتے ہیں اکثر گھٹن کے بعد کیفی اعظمی

ادامه مطلب

دل کی نازک رگیں ٹوٹتی ہیں

دل کی نازک رگیں ٹوٹتی ہیں یاد اتنا بھی کوئی نہ آئے کیفی اعظمی

ادامه مطلب

وہ بھی سراہنے لگے ارباب فن کے بعد

وہ بھی سراہنے لگے ارباب فن کے بعد داد سخن ملی مجھے ترک سخن کے بعد دیوانہ وار چاند سے آگے نکل گئے ٹھہرا نہ…

ادامه مطلب

شور یوں ہی نہ پرندوں نے مچایا ہوگا

شور یوں ہی نہ پرندوں نے مچایا ہوگا کوئی جنگل کی طرف شہر سے آیا ہوگا پیڑ کے کاٹنے والوں کو یہ معلوم تو تھا…

ادامه مطلب

اتنا تو زندگی میں کسی کے خلل پڑے

اتنا تو زندگی میں کسی کے خلل پڑے ہنسنے سے ہو سکون نہ رونے سے کل پڑے جس طرح ہنس رہا ہوں میں پی پی…

ادامه مطلب

کھڑا ہوں کب سے میں چہروں کے ایک جنگل میں

کھڑا ہوں کب سے میں چہروں کے ایک جنگل میں تمہارے چہرے کا کچھ بھی یہاں نہیں ملتا کیفی اعظمی

ادامه مطلب

آج سوچا تو آنسو بھر آئے

آج سوچا تو آنسو بھر آئے مدتیں ہو گئیں مسکرائے ہر قدم پر ادھر مڑ کے دیکھا ان کی محفل سے ہم اٹھ تو آئے…

ادامه مطلب

دیوانہ پوچھتا ہے یہ لہروں سے بار بار

دیوانہ پوچھتا ہے یہ لہروں سے بار بار کچھ بستیاں یہاں تھیں بتاؤ کدھر گئیں کیفی اعظمی

ادامه مطلب

بہار آئے تو میرا سلام کہہ دینا

بہار آئے تو میرا سلام کہہ دینا مجھے تو آج طلب کر لیا ہے صحرا نے کیفی اعظمی

ادامه مطلب

کہیں سے لوٹ کے ہم لڑکھڑائے ہیں کیا کیا

کہیں سے لوٹ کے ہم لڑکھڑائے ہیں کیا کیا ستارے زیر قدم رات آئے ہیں کیا کیا نشیب ہستی سے افسوس ہم ابھر نہ سکے…

ادامه مطلب

بیلچے لاؤ کھولو زمیں کی تہیں

بیلچے لاؤ کھولو زمیں کی تہیں میں کہاں دفن ہوں کچھ پتا تو چلے کیفی اعظمی

ادامه مطلب

کی ہے کوئی حسین خطا ہر خطا کے ساتھ

کی ہے کوئی حسین خطا ہر خطا کے ساتھ تھوڑا سا پیار بھی مجھے دے دو سزا کے ساتھ گر ڈوبنا ہی اپنا مقدر ہے…

ادامه مطلب

بجلی کے تار پہ بیٹھا ہوا ہنستا پنچھی

بجلی کے تار پہ بیٹھا ہوا ہنستا پنچھی سوچتا ہے کہ وہ جنگل تو پرایا ہوگا کیفی اعظمی

ادامه مطلب