کلیم عاجز
یہی بیکسی تھی تمام شب اسی بیکسی میں سحر ہوئی
یہی بیکسی تھی تمام شب اسی بیکسی میں سحر ہوئی نہ کبھی چمن میں گزر ہوا نہ کبھی گلوں میں بسر ہوئی یہ پکار سارے…
چمن میں کیوں چلوں کانٹوں سے بچ کر
چمن میں کیوں چلوں کانٹوں سے بچ کر یہ آئین وفاداری نہیں ہے کلیم عاجز
کون عاجز صلۂ تشنہ دہانی مانگے
کون عاجز صلۂ تشنہ دہانی مانگے یہ جہاں آگ اسے دیتا ہے جو پانی مانگے دل بھی گردن بھی ہتھیلی پہ لئے پھرتا ہوں جانے…
نہ جانے روٹھ کے بیٹھا ہے دل کا چین کہاں_
نہ جانے روٹھ کے بیٹھا ہے دل کا چین کہاں ملے تو اس کو ہمارا کوئی سلام کہے کلیم عاجز
ادا ہمیں نے سکھائی نظر ہمیں نے دی
ادا ہمیں نے سکھائی نظر ہمیں نے دی ہمیں سے آنکھ چراؤ ہو یار دیکھو تو کلیم عاجز
جو اکڑ کے شان سے جائے ہے پیار سے یہ بتائے جا
جو اکڑ کے شان سے جائے ہے پیار سے یہ بتائے جا کہ بلندیوں کی ہے آرزو تو دلوں میں پہلے سمائے جا کلیم عاجز
کوئی بزم ہو کوئی انجمن یہ شعار اپنا قدیم ہے
کوئی بزم ہو کوئی انجمن یہ شعار اپنا قدیم ہے جہاں روشنی کی کمی ملی وہیں اک چراغ جلا دیا کلیم عاجز
میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو
میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو دن ایک ستم ایک ستم رات کرو ہو…
بھلا آدمی تھا پہ نادان نکلا_
بھلا آدمی تھا پہ نادان نکلا سنا ہے کسی سے محبت کرے ہے کلیم عاجز
تمہیں یاد ہی نہ آؤں یہ ہے اور بات ورنہ
تمہیں یاد ہی نہ آؤں یہ ہے اور بات ورنہ میں نہیں ہوں دور اتنا کہ سلام تک نہ پہنچے کلیم عاجز
کوئے قاتل ہے مگر جانے کو جی چاہے ہے
کوئے قاتل ہے مگر جانے کو جی چاہے ہے اب تو کچھ فیصلہ کر جانے کو جی چاہے ہے لوگ اپنے در و دیوار سے…
میرے وہ دوست مجھے داد سخن کیا دیں گے
میرے وہ دوست مجھے داد سخن کیا دیں گے جن کے دل کا کوئی حصہ ذرا ٹوٹا بھی نہیں کلیم عاجز
اٹھتے ہوؤں کو سب نے سہارا دیا کلیم_
اٹھتے ہوؤں کو سب نے سہارا دیا کلیم گرتے ہوئے غریب سنبھالے کہاں گئے کلیم عاجز
چھاؤں وعدوں کی ہے بس دھوکا ہی دھوکا اے دل
چھاؤں وعدوں کی ہے بس دھوکا ہی دھوکا اے دل مت ٹھہر گرچہ ٹھہر جانے کو جی چاہے ہے کلیم عاجز
غم ہے تو کوئی لطف نہیں بستر گل پر
غم ہے تو کوئی لطف نہیں بستر گل پر جی خوش ہے تو کانٹوں پہ بھی آرام بہت ہے کلیم عاجز