پروین شاکر
جلا دیا شجر جاں کہ سبز بخت نہ تھا
جلا دیا شجر جاں کہ سبز بخت نہ تھا کسی بھی رت میں ہرا ہو یہ وہ درخت نہ تھا وہ خواب دیکھا تھا شہزادیوں…
دکھ نوشتہ ہے تو آندھی کو لکھا آہستہ
دکھ نوشتہ ہے تو آندھی کو لکھا آہستہ اے خدا اب کے چلے زرد ہوا آہستہ آہستہ خواب جل جائیں مری چشم تمنا بجھ جائے…
آواز کے ہم راہ سراپا بھی تو دیکھوں
آواز کے ہم راہ سراپا بھی تو دیکھوں اے جان سخن میں تیرا چہرہ بھی تو دیکھوں دستک تو کچھ ایسی ہے کہ دل چھونے…
حرف تازہ نئی خوشبو میں لکھا چاہتا ہے
حرف تازہ نئی خوشبو میں لکھا چاہتا ہے باب اک اور محبت کا کھلاچاہتا ہے ایک لمحے کی توجہ نہیں حاصل اس کی اور یہ…
گلاب ہاتھ میں ہو آنکھ میں ستارہ ہو
گلاب ہاتھ میں ہو آنکھ میں ستارہ ہو کوئی وجود محبت کا استعارہ ہو کبھی کبھار اسے دیکھ لیں کہیں مل لیں یہ کب کہا…
کھلے گی اس نظر پہ چشم تر آہستہ آہستہ
کھلے گی اس نظر پہ چشم تر آہستہ آہستہ کیا جاتا ہے پانی میں سفر آہستہ آہستہ کوئی زنجیر پھر واپس وہیں پر لے کے…
دوست
دوست اس اکیلی چٹان نے سمندر کے ہمراہ تنہائی کا زہر اتنا پیا ہے کہ اس کا سنہری بدن نیلا پڑنے لگا ہے !
تشکر
تشکر دشتِ غربت میں جس پیڑ نے میرے تنہا مسافر کی خاطر گھنی چھاؤں پھیلائی ہے اُس کی شادابیوں کے لیے میری سب انگلیاں ۔۔۔…
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی، کچھ تھا تیرا خیال بھی
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی، کچھ تھا تیرا خیال بھی دل میں خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی بات وہ آدھی رات…
چپ رہتا ہے وہ اور آنکھیں بولتی رہتی ہیں
چپ رہتا ہے وہ اور آنکھیں بولتی رہتی ہیں اور کیا کیا بھید نظر کے کھولتی رہتی ہیں وہ ہاتھ میرے اندر کیا موسم ڈھونڈتا…
بھولا نہیں دل عتاب اس کے
بھولا نہیں دل عتاب اس کے احسان ہیں بے حساب اس کے آنکھوں کی ہے ایک ہی تمنا دیکھا کریں روز خواب اس کے ایسا…
فاصلے
فاصلے پہلے خط روز لکھا کرتے تھے دوسرے تیسرے ، تم فون بھی کر لیتے تھے اور اب یہ ، کہ تمھاری خبریں صرف اخبار…
پسِ جاں
پسِ جاں چاند کیا چھپ گیا ہے گھنے بادلوں کے کنارے روپہلے ہوئے جا رہے ہیں ! پروین شاکر
قریہء جاں میں کوئی پُھول کِھلانے آئے
قریہء جاں میں کوئی پُھول کِھلانے آئے وہ مرے دل پہ نیا زخم لگانے آئے میرے ویران دریچوں میں بھی خوشبو جاگے وہ مرے گھر…
جیسے مشام جاں میں سمائی ہوئی ہے رات
جیسے مشام جاں میں سمائی ہوئی ہے رات خوشبو میں آج کس کی نہائی ہوئی ہے رات سرگوشیوں میں بات کریں ابر و باد و…
بہت رویا وہ ہم کو یاد کرکے
بہت رویا وہ ہم کو یاد کرکے ہماری زندگی برباد کرکے پلٹ کر پھر یہیں آجایئں گے ہم وہ دیکھے تو ہمیں آزاد کرکے رہائی…
میں اس سے کہاں ملی تھی
میں اس سے کہاں ملی تھی بس خواب ہی خواب دیکھتی تھی سایہ تھا کوئی کنار دریا اور شام کی ڈوبتی گھڑی تھی کہرے میں…
ظلم کی طرح اذیت میں ہے جس طرح حیات
ظلم کی طرح اذیت میں ہے جس طرح حیات ایسا لگتا ہے کہ اب حشر ہے کچھ دیر کی بات روز اک دوست کے مرنے…
جز طلب اس سے کیا نہیں ملتا
جز طلب اس سے کیا نہیں ملتا وہ جو مجھ سے ذرا نہیں ملتا جان لینا تھا اس سے مل کے ہمیں بخت سے تو…
بس اتنا یاد ہے
بس اتنا یاد ہے دعا تو جانے کون سی تھی ذہن میں نہیں بس اتنا یاد ہے کہ دو ہتھیلیاں ملی ہوئی تھیں جن میں…
واہمہ
واہمہ تمھارا کہنا ہے تم مجھے بے پناہ شدت سے چاہتے ہو تمھاری چاہت وصال کی آخری حدوں تک مرے فقط میرے نام ہوگی مجھے…
سلا رہا تھا نہ بیدار کر سکا تھا مجھے
سلا رہا تھا نہ بیدار کر سکا تھا مجھے وہ جیسے خواب میں محسوس کر رہا تھا مجھے یہی تھا چاند اور اس کو گواہ…
جب ساز کی لے بدل گئی تھی
جب ساز کی لے بدل گئی تھی وہ رقص کی کون سی گھڑی تھی اب یاد نہیں کہ زندگی میں میں آخری بار کب ہنسی…
ایک ہی ہاتھ میں سب کچھ سمٹ آیا شاید
ایک ہی ہاتھ میں سب کچھ سمٹ آیا شاید بادشاہٹ کا زمانہ پلٹ آیا شاید دل کو دنیا کی ضرورت ہی نہیں پڑنے دی تیرے…
میرے ویران دریچوں میں بھی خوشبو جاگے
میرے ویران دریچوں میں بھی خوشبو جاگے وہ مرے گھر کے در و بام سجانے آئے اسی کُوچے میں کئی اس کے شناسا بھی تو…
صحرا کی طرح تپی ہوئی برف
صحرا کی طرح تپی ہوئی برف کیا آگ سے ہے بنی ہوئی برف پتھر کی سیاہ رو سڑک پر شیشے کی طرح بچھی ہوئی برف…
جان پہچان
جان پہچان شور مچاتی موجِ آب ساحل سے ٹکرا کے جب واپس لوٹی تو پاؤں کے نیچے جمی ہوئی چمکیلی سنہری ریت اچانک سرک گئی…
آنکھوں نے کیسے خواب تراشے ہیں ان دنوں
آنکھوں نے کیسے خواب تراشے ہیں ان دنوں دل پر عجیب رنگ اترتے ہیں ان دنوں رکھ اپنے پاس اپنے مہ و مہر اے فلک…
وقت رخصت آگیا ، دل پھر بھی گھبرایا نہیں
وقت رخصت آگیا ، دل پھر بھی گھبرایا نہیں اس کو ہم کیا کھویئں گے جس کو کبھی پایا نہیں زندگی جتنی بھی ہے اب…
سلگ رہا ہے میرا شہر ، جل رہی ہے ہوا
سلگ رہا ہے میرا شہر ، جل رہی ہے ہوا یہ کیسی آگ ہے جس میں پگھل رہی ہے ہوا یہ کون باغ میں خنجر…
توقع
توقع جب ہوا دھیمے لہجوں میں کچھ گنگناتی ہوئی خواب آسا ، سماعت کو چھو جائے ، تو کیا تمھیں کوئی گزری ہوئی بات یاد…
اعتراف
اعتراف جانے کب تک تری تصویر نگاہوں میں رہی ہو گئی رات ترے عکس کو تکتے تکتے میں نے پھر تیرے تصور کے کسی لمحے…
رکی ہوئی ہے ابھی تک بہار آنکھوں میں
رکی ہوئی ہے ابھی تک بہار آنکھوں میں شبِ وصال کا جیسے خمار آنکھوں میں منا سکے گی اسے گرد ماہ و سال کہاں کھینچی…
تیری ہم رقص کے نام
تیری ہم رقص کے نام رقص کرتے ہوئے جس کے شانوں پہ تُو نے ابھی سَر رکھا ہے کبھی میں بھی اُس کی پناہوں میں…
اک عجب رو تھی خیال میںمیرے آگئی
اک عجب رو تھی خیال میںمیرے آگئی کسی اور قرن سے حال میںمیرے آگئی یہ تیری نگاہ ستارہ ساز کا ہے اثر یہ جو روشنی…
میں ہجر کے عذاب سے انجان بھی نہ تھی
میں ہجر کے عذاب سے انجان بھی نہ تھی پر کیا ہوا صبح تلک جان بھی نہ تھی آنے میں گھر مرے تجھے جتنی جھجک…
رخصت کی کسک رہی ہے اب تک
رخصت کی کسک رہی ہے اب تک اک شام سلگ رہی ہے اب تک شب کس نے یہاں قدم رکھا تھا دہلیز چمک رہی ہے…
تھک گیا ہے دل وحشی میرا فریاد سے بھی
تھک گیا ہے دل وحشی میرا فریاد سے بھی جی بہلتا نہیں اے دوست تیری یاد سے بھی اے ہوا کیا ہے جو اب نظم…
آج ملبوس میں ہے کیسی تھکن کی خوشبو
آج ملبوس میں ہے کیسی تھکن کی خوشبو رات بھر جاگی ہوئی جیسے دُلہن کی خوشبو پیرہن میرا مگر اُس کے بدن کی خوشبو اُس…
کفِ آئینہ سے انتخاب
کفِ آئینہ سے انتخاب پت جھڑ سے گلہ ہے نہ شکایت ہوا سے ہے پھولوں کو کچھ عجیب محبت ہوا سے ہے سرشارئ شگفتگی گل…
دل میں آئی رات
دل میں آئی رات چھوٹی سی اک بات اب کے پروائی لائی کیا سوغات پھولوں بھرا رستہ اور کسی کا ساتھ اس نے تھام لیا…
تمھاری سالگرہ پر
تمھاری سالگرہ پر یہ چاند اور یہ ابر رواں گزرتا رہے جمال شام تہہ آسماں گزرتا رہے بھرا رہے تیری خوشبو سے تیرا صحن چمن…
اپنی رسوائی، تیرے نام کا چرچا دیکھوں
اپنی رسوائی، تیرے نام کا چرچا دیکھوں اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں نیند آ جائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں آنکھ…
مقدّر
مقدّر میں وہ لڑکی ہوں جس کو پہلی رات کوئی گھونگھٹ اُٹھا کے یہ کہہ دے ۔۔ میرا سب کچھ ترا ہے ، دل کے…
خوشبو بتا رہی ہے کہ وہ راستے میں ہے
خوشبو بتا رہی ہے کہ وہ راستے میں ہے موجِ ہوا کے ہاتھ میں اس کا سراغ ہے
تخت ہے اور کہانی ہے وہی
تخت ہے اور کہانی ہے وہی اور سازش بھی پرانی ہے وہی قاضی شہر نے قبلہ بدلہ لیکن خطبے میں روانی ہے وہی خیمہ کش…
ایک شعر
ایک شعر ہمیں خبر ہے ، ہوا کا مزاج رکھتے ہو مگر یہ کیا ، کہ ذرا دیر کو رُکے بھی نہیں