وقار خان
میں سُنتا رہوں بس یار کی
میں سُنتا رہوں بس یار کی اور میری سنے مرا یار یہ دنیا لاکھ نہ مانے پر مجھ میں رہے مرا یار میں نوکر اپنے…
آسودگانِ خاک ہیں‘ اپنا
آسودگانِ خاک ہیں‘ اپنا جہان خاک اپنا وجود خاک ہے، اپنا نشان خاک شعلہ بدن بھی خاک سے پیدا کئے گئے ان مہ رخوں کی…
جو باتیں ہیں مرے اندر
جو باتیں ہیں مرے اندر بیان کر جاؤں کوئی بھی خوف نہیں چاہے پھر میں مر جاؤں مجھے تو اپنے ہی لہجے سے خوف آتا…
ستم پسند بھی کوئی کسی
ستم پسند بھی کوئی کسی ستم میں مَرا یا کوئی ڈھیٹ بھلا ایسے ایک دم میں مَرا یہ کُڑھتے رہنا کچھ آسان تو نہیں صاحب…
گرچہ لہو، لہو ہوئے‘ پھر
گرچہ لہو، لہو ہوئے‘ پھر بھی تو سرخرو ہوئے ہم مر کے پھر سے جی اُٹھے‘ مقتل کی آبرو ہوئے ہم دشتِ بے پناہ کی‘…
نذرِ غالب
نذرِ غالب ہم ترے ہوتے تو اپنوں کی طرح پیش آتا بس ترے ہونے کا احسان اُٹھا رکھتے تھے وہ بھی کیا یاد کرے گا…
اَسرارِ کائنات ہیں میرے
اَسرارِ کائنات ہیں میرے بیان میں کتنے ہی آسمان ہیں‘ اِس آسمان میں اے بزدلانِ جنگ! کرو اب تو کوئی وار اک تیر بھی نہیں…
چھوڑ کر جب سے وہ چلی گئی
چھوڑ کر جب سے وہ چلی گئی ہے زندگی مجھ سے روٹھ سی گئی ہے پیار بھی تو خدا کی صورت ہے صورتِ رب پہ…
شوقِ حُسن و ادا، دل لگی
شوقِ حُسن و ادا، دل لگی معذرت ساقیا! معذرت‘ مے کشی معذرت میرا احساس عاری ہے جذبات سے چشمِ نَم، سوزِ دل، بے بسی‘ معذرت…
گواہی
گواہی میں محبت کے ستاروں سے نکلتا ہوا نور حق و نا حق کے لبادوں میں چھپا ایک شعور میرے ہی دم سے ہوا مسجد…
ہم جی رہے ہیں عالمِ صد
ہم جی رہے ہیں عالمِ صد خوفناک میں رُسوا کیا گیا ہمیں بزمِ تپاک میں ہائے فریبِ وصل ترے انتظار میں گزری حیاتِ خضر دما…
یہاں پہ کون کبھی مفت
یہاں پہ کون کبھی مفت تیری تھاں پہ گیا جو تیرے پاس گیا کھیل کر وہ جاں پہ گیا تری زمین نے تجھ کو نہ…
جی جلاتے گزر جائیں گے
جی جلاتے گزر جائیں گے روز و شب ایک دن خود بھی مر جائیں گے روز و شب روز و شب زندگی کی ہوس اور…
ضائع ہونے کے مراحل سے
ضائع ہونے کے مراحل سے گزارا بھی گیا مار کر زندہ کیا‘ زندہ کو مارا بھی گیا پیار پر فخر کیا، فخر پہ مِلنی تھی…
مَاسِوا خاک‘ کچھ نہیں
مَاسِوا خاک‘ کچھ نہیں ملتا پوری دنیا کی خاک چھانی ہے دیکھ شیطانِ وصل دور ہی رہ نیتِ ہجر میں نے باندھی ہے خوف کیوں…
ہم نے فراقِ یار میں اک
ہم نے فراقِ یار میں اک عمر کاٹ دی یہ کیسی رہگزار میں اک عمر کاٹ دی اتنا تھا اختیار کہ ہم سانس لے سکیں…
اشک آنکھوں میں چھپائے
اشک آنکھوں میں چھپائے تو نہیں جاتے ہیں اپنی مرضی سے بہائے تو نہیں جاتے ہیں ہائے وہ لوگ جو راہوں میں بچھڑ جاتے ہیں…
چھوڑ کر جب وہ بے وفا گیا
چھوڑ کر جب وہ بے وفا گیا تھا دل مرا ڈوبتا چلا گیا تھا میں کنارے تلک پہنچ جاتا مجھ کو واپس بُلا لیا گیا…
صرف اپنی ہی کیوں سناتا
صرف اپنی ہی کیوں سناتا ہے میرا دکھ کیوں نہیں بتاتا ہے وہ خدا جو کہ خود ہے لامحدود مجھ پہ پابندیاں لگاتا ہے اے…
مانتا ہوں کہ رہگزر میں
مانتا ہوں کہ رہگزر میں ہوں تیری جانب مگر سفر میں ہوں ہر طرف بے بسی نمایاں ہے ایسا لگتا ہے اپنے گھر میں ہوں…
ہاتھ سے چھوٹ میرے پیالے
ہاتھ سے چھوٹ میرے پیالے گئے لب لبوں میں جبھی تھے ڈالے گئے اس زمیں کی طرف ہی کیوں بھیجا؟ آسمانوں سے جب نکالے گئے…
اک وہ ہیں کہ جو خوابِ
اک وہ ہیں کہ جو خوابِ سفر دیکھ رہے ہیں اک ہم ہیں کہ بس ٹوٹتے پَر دیکھ رہے ہیں اَفلاک نشینوں سے کہو جتنا…
جو تجھے اور مجھے‘ ایک کر
جو تجھے اور مجھے‘ ایک کر سکا نہیں وہ تِرا خدا نہیں‘ وہ مِرا خدا نہیں زندگی ملی کبھی‘ تو گِلہ کریں گے‘ پر زندگی…
عاشقی کا حصول ہے تری یاد
عاشقی کا حصول ہے تری یاد ہجر کا عرض و طول ہے تری یاد مجھ سے دو چار ہی خطائیں ہوئیں اُن میںسے ایک بھول…
محبتیں ہیں کسی قِسم کی
محبتیں ہیں کسی قِسم کی نہ چاہتیں ہیں مرے نصیب میں لکھی ہوئی اذیّتیں ہیں وہ گاؤں والے تو آئے تھے شہر میں جینے یہاں…
ہم انہیں اپنا بنانے کے
ہم انہیں اپنا بنانے کے جتن کرتے رہے جب کہ وہ ہاتھ چھڑانے کے جتن کرتے رہے اپنی مستی میں ہمیں مست سمجھتے رہے لوگ…
اگر یقین نہیں کربلا کے
اگر یقین نہیں کربلا کے ہونے پر تو پھر یقین ہی کیوں ہے خدا کے ہونے پر مِرے اِمام کے درپَے تھے سارے ’’کاف‘‘ صفت…
چوٹ دشمن پہ بھی پڑتی ہے
چوٹ دشمن پہ بھی پڑتی ہے تو رو پڑتے ہیں خاک لڑ پائیں گے احساس کے مارے ہوئے لوگ کسی گمنام سے دربار پہ جا…
عجیب شے ہے یہ دنیا و دین
عجیب شے ہے یہ دنیا و دین داری بھی خدا کو یاد کیا جاتا ہے مفاد کے وقت یہ میرے شعر ہمیشہ ہوئے نظرانداز بس…
مانا کہ مرے اب وہ طرفدار
مانا کہ مرے اب وہ طرفدار نہیں ہیں یوں بھی تو نہیں ہے کہ وفادار نہیں ہیں اب میں بھی محبت میں گرفتار نہیں ہوں…