میر تقی میر
اک شور ہو رہا ہے خوں ریزی میں ہمارے
اک شور ہو رہا ہے خوں ریزی میں ہمارے حیرت سے ہم تو چپ ہیں کچھ تم بھی بولو پیارے زخم اس کے ہاتھ کے…
اس کے ہوتے بزم میں فانوس میں آتی ہے شمع
اس کے ہوتے بزم میں فانوس میں آتی ہے شمع یعنی اس آتش کے پرکالے سے شرماتی ہے شمع ہر زماں جاتی ہے گھٹتی سامنے…
اس قدر آنکھیں چھپاتا ہے تو اے مغرور کیا
اس قدر آنکھیں چھپاتا ہے تو اے مغرور کیا ٹک نظر ایدھر نہیں کہہ اس سے ہے منظور کیا وصل و ہجراں سے نہیں ہے…
اس آستان داغ سے میں زر لیا کیا
اس آستان داغ سے میں زر لیا کیا گل دستہ دستہ جس کو چراغی دیا کیا کیا بعد مرگ یاد کروں گا وفا تجھے سہتا…
ادھر مت کر نگاہ تیز جا بیٹھ
ادھر مت کر نگاہ تیز جا بیٹھ نہ تیر روئے ترکش یوں چلا بیٹھ اثر ہوتا تو کب کا ہو بھی چکتا دعائے صبح سے…
آج کل بے قرار ہیں ہم بھی
آج کل بے قرار ہیں ہم بھی بیٹھ جا چلنے ہار ہیں ہم بھی آن میں کچھ ہیں آن میں کچھ ہیں تحفۂ روزگار ہیں…
اپنے ہوتے تو با عتاب رہا
اپنے ہوتے تو با عتاب رہا بے دماغی سے با خطاب رہا ہو کے بے پردہ ملتفت بھی ہوا ناکسی سے ہمیں حجاب رہا نہ…
اب میرؔ جی تو اچھے زندیق ہی بن بیٹھے
اب میرؔ جی تو اچھے زندیق ہی بن بیٹھے پیشانی پہ دے قشقہ زنار پہن بیٹھے آزردہ دل الفت ہم چپکے ہی بہتر ہیں سب…
اب سمجھ آئی مرتبہ سمجھے
اب سمجھ آئی مرتبہ سمجھے گم کیا خود کے تیں خدا سمجھے اس قدر جی میں ہے دغا اس کے کہ دعا کریے تو دغا…
یوں کب ہوا ہے پیارے پاس اپنے تم بلا لو
یوں کب ہوا ہے پیارے پاس اپنے تم بلا لو دو باتیں گر لکھوں میں دل کو ٹک اک لگا لو اب جو نصیب میں…
یہ ترک ہوکے خشن کج اگر کلاہ کریں
یہ ترک ہوکے خشن کج اگر کلاہ کریں تو بوالہوس نہ کبھو چشم کو سیاہ کریں تمھیں بھی چاہیے ہے کچھ تو پاس چاہت کا…
یاروں کو کدورتیں ہیں اب تو ہم سے
یاروں کو کدورتیں ہیں اب تو ہم سے جس روز کہ ہم جائیں گے اس عالم سے اس روز کھلے گی صاف سب پر یہ…
یاد خط میں اس کے جی بھر آ کے گھبراتا رہا
یاد خط میں اس کے جی بھر آ کے گھبراتا رہا رات کا بھی کیا ہی مینھ آیا تھا پر جاتا رہا کیا قیامت ہوتی…
وہی جانے جو حیا کشتہ وفا رکھتا ہو
وہی جانے جو حیا کشتہ وفا رکھتا ہو اور رسوائی کا اندیشہ جدا رکھتا ہو کام لے یار سے جو جذب رسا رکھتا ہو یا…
وہ اک روش سے کھولے ہوئے بال ہو گیا میر تقی میر
وہ اک روش سے کھولے ہوئے بال ہو گیا سنبل چمن کا مفت میں پامال ہو گیا الجھاؤ پڑ گیا جو ہمیں اس کے عشق…
ہیں گوکہ سبھی تمھاری پیاری باتیں
ہیں گوکہ سبھی تمھاری پیاری باتیں پر جی سے نہ جائیں گی تمھاری باتیں آنکھیں ہیں ادھر روے سخن اور طرف یاروں کی نظر میں…
ہے خاک جیسے ریگ رواں سب نہ آب ہے
ہے خاک جیسے ریگ رواں سب نہ آب ہے دریائے موج خیز جہاں کا سراب ہے روز شمار میں بھی محاسب ہے گر کوئی تو…
ہوتی نہیں تسلی دل گلستاں سے بھی
ہوتی نہیں تسلی دل گلستاں سے بھی تسکیں نہیں ہے جان کو آب رواں سے بھی تا یہ گرفتہ وا ہو کہاں لے کے جائیے…
ہنستے ہو روتے دیکھ کر غم سے
ہنستے ہو روتے دیکھ کر غم سے چھیڑ رکھی ہے تم نے کیا ہم سے مند گئی آنکھ ہے اندھیرا پاک روشنی ہے سو یاں…
ہم میرؔ برے اتنے ہیں وہ اتنا خوب
ہم میرؔ برے اتنے ہیں وہ اتنا خوب متروک جہاں ہم ہیں وہ سب کا محبوب ہم ممکن اسے وجوب کا ہے رتبہ ہے کچھ…
ہم سے اسے نفاق ہوا ہے وفاق میں
ہم سے اسے نفاق ہوا ہے وفاق میں کم اتفاق پڑتے ہیں یہ اتفاق میں شاید کہ جان و تن کی جدائی بھی ہے قریب…
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
ہستی اپنی حباب کی سی ہے یہ نمائش سراب کی سی ہے نازکی اس کے لب کی کیا کہیے پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے…
ہر شب جہاں میں جلتے گذرتی ہے اے نسیم
ہر شب جہاں میں جلتے گذرتی ہے اے نسیم گویا چراغ وقف ہوں میں اس دیار کا
نئے طور سیکھے نکالے ڈھب اور
نئے طور سیکھے نکالے ڈھب اور مگر اور تھے تب ہوئے ہو اب اور ادا کچھ ہے انداز کچھ ناز کچھ تہ دل ہے کچھ…
نہ گلشن میں چمن پر ان نے بلبل تجھ کو جا دی ہے
نہ گلشن میں چمن پر ان نے بلبل تجھ کو جا دی ہے سپاس ایزد کے کر جن نے کہ یہ ڈالی نوادی ہے نہیں…
نہ اک یعقوبؑ رویا اس الم میں
نہ اک یعقوبؑ رویا اس الم میں کنواں اندھا ہوا یوسفؑ کے غم میں کہوں کب تک دم آنکھوں میں ہے میری نظر آوے ہی…
نظر کیا کروں اس کے گھر کی طرف
نظر کیا کروں اس کے گھر کی طرف نگاہیں ہیں میری نظر کی طرف چھپاتے ہیں منھ اپنا کامل سے سب نہیں کوئی کرتا ہنر…
نازچمن وہی ہے بلبل سے گو خزاں ہے
نازچمن وہی ہے بلبل سے گو خزاں ہے ٹہنی جو زرد بھی ہے سو شاخ زعفراں ہے گر اس چمن میں وہ بھی اک ہی…
میں جوانی میں مے پرست رہا
میں جوانی میں مے پرست رہا گردن شیشہ ہی میں دست رہا در میخانہ میں مرے سر پر ظل ممدود دار بست رہا سر پہ…
میرؔ ایک دم نہ اس بن تو تو جیا پیارے
میرؔ ایک دم نہ اس بن تو تو جیا پیارے کیا کہہ کے تجھ کو روویں یہ کیا کیا پیارے رنگین ہم تو تجھ کو…
مہوشاں پوچھیں نہ ٹک ہجراں میں گر مر جایئے
مہوشاں پوچھیں نہ ٹک ہجراں میں گر مر جایئے اب کہو اس شہر نا پرساں سے کیدھر جایئے کام دل کا کچھ ٹھکانا ہی نہیں…
مل اہل بصیرت سے کچھ وے ہی دکھا دیں گے
مل اہل بصیرت سے کچھ وے ہی دکھا دیں گے لے خاک کی کوئی چٹکی اکسیر بنا دیں گے پانی کی سی بوندیں تھیں سب…
مستی نہ کر اے میرؔ اگر ہے ادراک
مستی نہ کر اے میرؔ اگر ہے ادراک دامان بلند ابر نمط رکھ تو پاک ہے عاریتی جامۂ ہستی تیرا ہشیار کہ اس پر نہ…
مر گیا میں پہ مرے باقی ہیں آثار ہنوز
مر گیا میں پہ مرے باقی ہیں آثار ہنوز تر ہیں سب سرکے لہو سے در و دیوار ہنوز دل بھی پر داغ چمن ہے…
محشر میں اگر یہ آتشیں دم ہوگا
محشر میں اگر یہ آتشیں دم ہوگا ہنگامہ سب اک لپٹ میں برہم ہوگا تکلیف بہشت کاش مجھ کو نہ کریں ورنہ وہ باغ بھی…
مجنوں و کوہکن کو آزار ایسے ہی تھے
مجنوں و کوہکن کو آزار ایسے ہی تھے یہ جان سے گئے سب بیمار ایسے ہی تھے شمس و قمر کے دیکھے جی اس میں…
مانند شمع مجلس شب اشکبار پایا میر تقی میر
مانند شمع مجلس شب اشکبار پایا القصہ میرؔ کو ہم بے اختیار پایا احوال خوش انھوں کا ہم بزم ہیں جو تیرے افسوس ہے کہ…
لڑ کے پھر آئے ڈر گئے شاید
لڑ کے پھر آئے ڈر گئے شاید بگڑے تھے کچھ سنور گئے شاید سب پریشاں دلی میں شب گذری بال اس کے بکھر گئے شاید…
لائق نہیں تمھارے مژگان خوش نگاہاں
لائق نہیں تمھارے مژگان خوش نگاہاں مجروح دل کو میرے کانٹوں میں مت گھسیٹو
گلیوں میں اب تلک تو مذکور ہے ہمارا
گلیوں میں اب تلک تو مذکور ہے ہمارا افسانۂ محبت مشہور ہے ہمارا مقصود کو تو دیکھیں کب تک پہنچتے ہیں ہم بالفعل اب ارادہ…
گل قفس تک نسیم لائی ہے
گل قفس تک نسیم لائی ہے بو کہ پھر کر بہار آئی ہے عشق دریا ہے ایک لنگر دار تہ کسو نے بھی اس کی…
گرچہ کب دیکھتے ہو پر دیکھو
گرچہ کب دیکھتے ہو پر دیکھو آرزو ہے کہ تم ادھر دیکھو عشق کیا کیا ہمیں دکھاتا ہے آہ تم بھی تو اک نظر دیکھو…
کئی دن سلوک وداع کا مرے در پئے دل زار تھا
کئی دن سلوک وداع کا مرے در پئے دل زار تھا کبھو درد تھا کبھو داغ تھا کبھو زخم تھا کبھو وار تھا دم صبح…
کیجیے کیا میرؔ صاحب بندگی بے چارگی
کیجیے کیا میرؔ صاحب بندگی بے چارگی کیسی کیسی صحبتیں آنکھوں کے آگے سے گئیں دیکھتے ہی دیکھتے کیا ہو گیا یکبارگی روئے گل پر…
کیا مرے سرورواں کا کوئی مائل ایک ہے
کیا مرے سرورواں کا کوئی مائل ایک ہے ّسینکڑوں ہم خوں گرفتہ ہیں وہ قاتل ایک ہے راہ سب کو ہے خدا سے جان اگر…
کیا کہیے ویسی صورت گاہے نظر نہ آئی
کیا کہیے ویسی صورت گاہے نظر نہ آئی ایسے گئے کہ ان کی پھر کچھ خبر نہ آئی روٹھے جو تھے سو ہم سے روٹھے…
کیا کہیں ہے حال دل درہم بہت
کیا کہیں ہے حال دل درہم بہت کڑھتے ہیں دن رات اس پر ہم بہت رہتا ہے ہجراں میں غم غصے سے کام اور وے…
کیا کام کیا ہم نے دل یوں نہ لگانا تھا
کیا کام کیا ہم نے دل یوں نہ لگانا تھا اس جان کی جوکھوں کو اس وقت نہ جانا تھا تھا جسم کا ترک اولیٰ…
کیا خط لکھوں میں رونے سے فرصت نہیں رہی
کیا خط لکھوں میں رونے سے فرصت نہیں رہی لکھتا ہوں تو پھرے ہے کتابت بہی بہی میدان غم میں قتل ہوئی آرزوئے وصل تھی…
کیا پوچھتے ہو آہ مرے جنگجو کی بات
کیا پوچھتے ہو آہ مرے جنگجو کی بات گویا وفا ہے عہد میں اس کے کبھو کی بات اس باغ میں نہ آئی نظر خرمی…