میر تقی میر
دل نے کام کیے ہیں ضائع دلبر ہے دل خواہ بہت
دل نے کام کیے ہیں ضائع دلبر ہے دل خواہ بہت قدر بہت ہی کم ہے دل کی پر دل میں ہے چاہ بہت راہ…
دل کی طرف کچھ آہ سے دل کا لگاؤ ہے
دل کی طرف کچھ آہ سے دل کا لگاؤ ہے ٹک آپ بھی تو آیئے یاں زور باؤ ہے اٹھتا نہیں ہے ہاتھ ترا تیغ…
دل کا لگانا جی کھوتا ہے اس کو جگر ہے پیارے شرط
دل کا لگانا جی کھوتا ہے اس کو جگر ہے پیارے شرط سو تو بہا تھا خوں ہو آگے پہلے داؤ ہی ہارے شرط
دل رفتۂ جمال ہے اس ذوالجلال کا
دل رفتۂ جمال ہے اس ذوالجلال کا مستجمع جمیع صفات و کمال کا ادراک کو ہے ذات مقدس میں دخل کیا اودھر نہیں گذار گمان…
دل تو افگار ہے جگر ہے ریش
دل تو افگار ہے جگر ہے ریش اک مصیبت ہے میرے تیں درپیش پان تو لیتا جا فقیروں کے برگ سبز است تحفۂ درویش ایک…
دکھ اب فراق کا ہم سے سہا نہیں جاتا
دکھ اب فراق کا ہم سے سہا نہیں جاتا پھر اس پہ ظلم یہ ہے کچھ کہا نہیں جاتا ہوئی ہے اتنی ترے عکس زلف…
در پر سے ترے اب کے جاؤں گا تو جاؤں گا
در پر سے ترے اب کے جاؤں گا تو جاؤں گا یاں پھر اگر آؤں گا سید نہ کہاؤں گا یہ نذر بدی ہے میں…
خوبی کی اپنی جنت کیسی ہی ڈینگیں ہانکے
خوبی کی اپنی جنت کیسی ہی ڈینگیں ہانکے اس کی گلی کا ساکن ہرگز ادھر نہ جھانکے ایک ایک بات اوپر ہیں پیچ و تاب…
اب دشت عشق میں ہیں بتنگ آئے جان سے
اب دشت عشق میں ہیں بتنگ آئے جان سے آنکھیں ہماری لگ رہی ہیں آسمان سے پڑتا ہے پھول برق سے گلزار کی طرف دھڑکے…
حصول کام کا دلخواہ یاں ہوا بھی ہے
حصول کام کا دلخواہ یاں ہوا بھی ہے سماجت اتنی بھی سب سے کوئی خدا بھی ہے موئے ہی جاتے ہیں ہم درد عشق سے…
حاصل نہیں دنیا سے بجز دل ریشی
حاصل نہیں دنیا سے بجز دل ریشی رکھتی نہیں اعتبار یاری خویشی توفیق رفیق ہو تو سب کرکے ترک ہے جی میں کہ یک چند…
چاہ میں دل پر ظلم و ستم ہے جور و جفا ہے کیا کیا کچھ
چاہ میں دل پر ظلم و ستم ہے جور و جفا ہے کیا کیا کچھ درد و الم ہے کلفت و غم ہے رنج و…
جی رکا رکنے سے پرے کچھ تو
جی رکا رکنے سے پرے کچھ تو آسماں آ گیا ورے کچھ تو جو نہ ہووے نماز کریے نیاز آدمی چاہیے کرے کچھ تو طالع…
جو وہ ہے تو ہے زندگانی سے حظ
جو وہ ہے تو ہے زندگانی سے حظ مزہ عمر کا ہے جوانی سے حظ نہیں وہ تو سب کچھ یہ بے لطف ہے نہ…
جو بحث جی سے وفا میں ہے سو تو حاضر ہے
جو بحث جی سے وفا میں ہے سو تو حاضر ہے پہ فرط شوق سے مجھ کو ملال خاطر ہے وصال ہووے تو قدرت نما…
جمع ہوتے نہیں حواس کہیں
جمع ہوتے نہیں حواس کہیں جائیں یاں سے جو ہم اداس کہیں دل کی دو اشک سے نہ نکلی بھڑاس اوسوں بجھتی نہیں ہے پیاس…
جس خشم سے وہ شوخ چلا آج شب آیا
جس خشم سے وہ شوخ چلا آج شب آیا آیا کبھو یاں دن کو بھی یوں تو غضب آیا اس نرگس مستانہ کو کر یاد…