میر تقی میر
شاد افیونیوں کا دل غمناک
شاد افیونیوں کا دل غمناک دشت دشت اب کے ہے گل تریاک تین دن گور میں بھی بھاری ہیں یعنی آسودگی نہیں تہ خاک ہاتھ…
سو ظلم کے رہتے ہیں سزاوار ہمیشہ
سو ظلم کے رہتے ہیں سزاوار ہمیشہ ہم بے گنہ اس کے ہیں گنہگار ہمیشہ ایک آن گذر جائے تو کہنے میں کچھ آوے درپیش…
سعی سے اس کی ہوا مائل گریباں چاک پر
سعی سے اس کی ہوا مائل گریباں چاک پر آفریں کر اے جنوں میرے کف چالاک پر کیوں نہ ہوں طرفہ گلیں خوش طرح بعضی…
سحرگہ عید میں دور سبو تھا
سحرگہ عید میں دور سبو تھا پر اپنے جام میں تجھ بن لہو تھا غلط تھا آپ سے غافل گذرنا نہ سمجھے ہم کہ اس…
ساقی کی باغ پر جو کچھ کم نگاہیاں ہیں
ساقی کی باغ پر جو کچھ کم نگاہیاں ہیں مانند جام خالی گل سب جماہیاں ہیں تیغ جفائے خوباں بے آب تھی کہ ہمدم زخم…
زانو پہ قد خم شدہ سر کو لایا
زانو پہ قد خم شدہ سر کو لایا جاے دنداں کو ہم نے خالی پایا آنکھوں کی بصارت میں تفاوت آیا پیری نے عجب سماں…
رہی نگفتہ مرے دل میں داستاں میری
رہی نگفتہ مرے دل میں داستاں میری نہ اس دیار میں سمجھا کوئی زباں میری برنگ صوت جرس تجھ سے دور ہوں تنہا خبر نہیں…
رنجش کی کوئی اس کی روایت نہ سنی
رنجش کی کوئی اس کی روایت نہ سنی بے صرفہ کسو وقت حکایت نہ سنی تھا میرؔ عجب فقیر صابر شاکر ہم نے اس سے…
رکھا کر اشک افشاں چشم فرصت غیر فرصت میں
رکھا کر اشک افشاں چشم فرصت غیر فرصت میں کہ مل جاتا ہے ان جوؤں کا پانی بحر رحمت میں سنبھالے سدھ کہاں سر ہی…
راضی ٹک آپ کو رضا پر رکھیے
راضی ٹک آپ کو رضا پر رکھیے مائل دل کو تنک قضا پر رکھیے بندوں سے تو کچھ کام نہ نکلا اے میرؔ سب کچھ…
دیکھیں تو تیری کب تک یہ کج ادائیاں ہیں
دیکھیں تو تیری کب تک یہ کج ادائیاں ہیں اب ہم نے بھی کسو سے آنکھیں لڑائیاں ہیں ٹک سن کہ سو برس کی ناموس…
دیر کب رہنا ملے ہے یاں نہیں مہلت بہت
دیر کب رہنا ملے ہے یاں نہیں مہلت بہت دے کسے فرصت سپہر دوں ہے کم فرصت بہت کم نہیں دیوانہ ہونا بھی ہمارا دفعتہً…
دہر بھی میر طرفہ مقتل ہے
دہر بھی میر طرفہ مقتل ہے جو ہے سو کوئی دم کو فیصل ہے کثرت غم سے دل لگا رکنے حضرت دل میں آج دنگل…
دل مرا مضطرب نہایت ہے
دل مرا مضطرب نہایت ہے رنج و حرماں کی یہ بدایت ہے منھ ادھر کر کبھو نہ وہ سویا کیا دعا شب کی بے سرایت…
دل کی تہ کی کہی نہیں جاتی کہیے تو جی ماریں ہیں
دل کی تہ کی کہی نہیں جاتی کہیے تو جی ماریں ہیں رک کر پھوٹ بہیں جو آنکھیں رود کی سی دو دھاریں ہیں حرف…
دل عشق کا ہمیشہ حریف نبرد تھا
دل عشق کا ہمیشہ حریف نبرد تھا اب جس جگہ کہ داغ ہے یاں آگے درد تھا اک گرد راہ تھا پئے محمل تمام راہ…
دل دماغ و جگر یہ سب اک بار
دل دماغ و جگر یہ سب اک بار کام آئے فراق میں اے یار کیوں نہ ہو ضعف غالب اعضا پر مر گئے ہیں قشون…
دل جگر دونوں پر جلائے داغ
دل جگر دونوں پر جلائے داغ عشق نے کیا ہمیں دکھائے داغ دل جلے ہم نہیں رہے بیکار زخم کاری اٹھائے کھائے داغ جل گئے…
دشمن ہو جی کا گاہک ہوتا ہے جس کو چاہا
دشمن ہو جی کا گاہک ہوتا ہے جس کو چاہا کی دوستی کہ یارو اک روگ میں بساہا جی ہے جہاں قیامت درد و الم…
داغ ہوں جلتا ہے دل بے طور اب
داغ ہوں جلتا ہے دل بے طور اب دیکھیے کیا گل کھلے ہے اور اب زخم دل غائر ہو پہنچا تا جگر تم لگے کرنے…
خورشید تیرے چہرے کے آگو نہ آسکے
خورشید تیرے چہرے کے آگو نہ آسکے اس کو جگر بھی شرط ہے جو تاب لا سکے ہم گرم رو ہیں راہ فنا کے شرر…
اب تنگ ہوں بہت میں مت اور دشمنی کر
اب تنگ ہوں بہت میں مت اور دشمنی کر لاگو ہو میرے جی کا اتنی ہی دوستی کر جب تک شگاف تھے کچھ اتنا نہ…
خدا جانیے ہووے گی کیا نہایت
خدا جانیے ہووے گی کیا نہایت اجل تو ہے دل کے مرض کی بدایت سخن غم سے آغشتہ خوں ہے ولیکن نہیں لب مرے آشنائے…
حالانکہ کام پہنچ گیا کب کا جاں تلک
حالانکہ کام پہنچ گیا کب کا جاں تلک آتی نہیں ہے تو بھی شکایت زباں تلک اس رشک مہ کے دل میں نہ مطلق کیا…
چھٹتا ہی نہیں ہو جسے آزار محبت
چھٹتا ہی نہیں ہو جسے آزار محبت مایوس ہوں میں بھی کہ ہوں بیمار محبت امکاں نہیں جیتے جی ہو اس قید سے آزاد مر…
چشم سے خوں ہزار نکلے گا
چشم سے خوں ہزار نکلے گا کوئی دل کا بخار نکلے گا اس کی نخچیر گہ سے روح الامیں ہو کے آخر شکار نکلے گا…
چال یہ کیا تھی کہ ایدھر کو گذارا نہ کیا
چال یہ کیا تھی کہ ایدھر کو گذارا نہ کیا دور ہی دور پھرے پاس ہمارا نہ کیا اس کو منظور نہ تھی ہم سے…
جی رشک سے گئے جو ادھر کو صبا چلی
جی رشک سے گئے جو ادھر کو صبا چلی کیا کہیے آج صبح عجب کچھ ہوا چلی کیا رنگ و بو و بادسحر سب ہیں…
جو میں نہ ہوں تو کرو ترک ناز کرنے کو
جو میں نہ ہوں تو کرو ترک ناز کرنے کو کوئی تو چاہیے جی بھی نیاز کرنے کو نہ دیکھو غنچۂ نرگس کی اور کھلتے…
جھوٹ ہر چند نہیں یار کی گفتار کے بیچ
جھوٹ ہر چند نہیں یار کی گفتار کے بیچ دیر لیکن ہے قیامت ابھی دیدار کے بیچ کس کی خوبی کے طلبگار ہیں عزت طلباں…
جمع اس کے نکلے عالم ہو گیا
جمع اس کے نکلے عالم ہو گیا جب تلک ہم جائیں اودھم ہو گیا گو پریشاں ہو گئے گیسوئے یار حال ہی اپنا تو درہم…
جز جرم عشق کوئی بھی ثابت کیا گناہ
جز جرم عشق کوئی بھی ثابت کیا گناہ ناحق ہماری جان لی اچھے ہو واہ واہ اب کیسا چاک چاک ہو دل اس کے ہجر…
جب سے آنکھیں کھلی ہیں اپنی درد و رنج و غم دیکھے
جب سے آنکھیں کھلی ہیں اپنی درد و رنج و غم دیکھے ان ہی دیدۂ نم دیدوں سے کیا کیا ہم نے ستم دیکھے سر…
جانا نہ دل کو تھا تری زلف رسا کے بیچ
جانا نہ دل کو تھا تری زلف رسا کے بیچ دانستہ جا پڑے ہے کوئی بھی بلا کے بیچ فرہاد و قیس جس سے مجھے…
ٹک ٹھہرنے دے تجھے شوخی تو کچھ ٹھہرایئے
ٹک ٹھہرنے دے تجھے شوخی تو کچھ ٹھہرایئے پیکر نازک کو تیرے کیونکے بر میں لایئے ساکن دیر و حرم دونوں تلاشی ہیں ترے تو…
تو وہ نہیں کسو کا تہ دل سے یار ہو
تو وہ نہیں کسو کا تہ دل سے یار ہو یا تجھ کو دل شکستوں سے اخلاص پیار ہو کیا فکر میں ہو اپنی طرحداری…
تم بن چمن کے گل نہیں چڑھتے نظر کبھو
تم بن چمن کے گل نہیں چڑھتے نظر کبھو یہ کیا روش ہے آؤ چلے ٹک ادھر کبھو دریا سی آنکھیں بہتی ہی رہتی تھیں…
تری جستجو یار کی ہے عبث
تری جستجو یار کی ہے عبث یہ کوشش گنہگار کی ہے عبث تو پیدا ہے لیکن ہویدا نہیں یہ تصدیع ہموار کی ہے عبث نہ…
تجھ بن چمن میں جو تھا دل کو ٹٹولتا تھا
تجھ بن چمن میں جو تھا دل کو ٹٹولتا تھا گل منھ نہ کھولتا تھا بلبل نہ بولتا تھا
تاب دل صرف جدائی ہو چکی
تاب دل صرف جدائی ہو چکی یعنی طاقت آزمائی ہو چکی چھوٹتا کب ہے اسیر خوش زباں جیتے جی اپنی رہائی ہو چکی آگے ہو…
پھرتی ہیں اس کی آنکھیں آنکھوں تلے ہمیشہ
پھرتی ہیں اس کی آنکھیں آنکھوں تلے ہمیشہ رہتا ہے آب دیدہ یاں تا گلے ہمیشہ تصدیع ایک دو دن ہووے تو کوئی کھینچے تڑپے…
پڑا تھا شور جیسا ہر طرف اس لا ابالی کا
پڑا تھا شور جیسا ہر طرف اس لا ابالی کا رہا ویسا ہی ہنگامہ مری بھی زار نالی کا رہے بدحال صوفی حال کرتے دیر…
بیتاب ہے دل غم سے نپٹ زار ہے عاشق
بیتاب ہے دل غم سے نپٹ زار ہے عاشق کیا جا کے دو چار اس سے ہو ناچار ہے عاشق وہ دیکھنے کو جاوے تو…
بو کیے کمھلائے جاتے ہو نزاکت ہائے رے
بو کیے کمھلائے جاتے ہو نزاکت ہائے رے ہاتھ لگتے میلے ہوتے ہو لطافت ہائے رے یار بے پروا و مفتر اور میں بے اختیار…
بہار آئی چلو چمن میں ہوا کے اوپر بھی رنگ آیا
بہار آئی چلو چمن میں ہوا کے اوپر بھی رنگ آیا کہاں تلک گل نہ ہووے غنچہ رہا مندے منھ سو تنگ آیا چلے ہیں…
بس اب بن چکے رو و موئے سمن بو
بس اب بن چکے رو و موئے سمن بو گری ہو کے بے ہوش مشاطہ یک سو نہ سمجھا گیا کھیل قدرت کا ہم سے…
بدزباں ہو جیسے خوش اسلوب ہو
بدزباں ہو جیسے خوش اسلوب ہو کیا کہیں جو کچھ کہ ہو تم خوب ہو بے نقابی اس کی ہے ہم پر ستم لایئے منھ…
بات کیا آدمی کی بن آئی
بات کیا آدمی کی بن آئی آسماں سے زمین نپوائی چرخ زن اس کے واسطے ہے مدام ہو گیا دن تمام رات آئی ماہ و…
ایک دل کو ہزار داغ لگا
ایک دل کو ہزار داغ لگا اندرونے میں جیسے باغ لگا اس سے یوں گل نے رنگ پکڑا ہے شمع سے جیسے لیں چراغ لگا…
آیا جو اپنے گھر سے وہ شوخ پان کھا کر
آیا جو اپنے گھر سے وہ شوخ پان کھا کر کی بات ان نے کوئی سو کیا چبا چبا کر شاید کہ منھ پھرا ہے…