میر تقی میر
کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق
کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق جان کا روگ ہے بلا ہے عشق عشق ہی عشق ہے جہاں دیکھو سارے عالم میں…
کیا عشق بے محابا ستھراؤ کر رہا ہے
کیا عشق بے محابا ستھراؤ کر رہا ہے میداں بزن گہوں کے کشتوں سے بھر رہا ہے غیرت سے دلبری کی ڈر چاندنی نہ دیکھی…
کیا چہرے خدا نے دیے ان خوش پسروں کو
کیا چہرے خدا نے دیے ان خوش پسروں کو دینا تھا تنک رحم بھی بیداد گروں کو آنکھوں سے ہوئی خانہ خرابی دل اے کاش…
کوئی دن کریے معیشت جاکسو کامل کے پاس
کوئی دن کریے معیشت جاکسو کامل کے پاس ناقصوں میں رہیے کیا رہیے تو صاحب دل کے پاس بوئے خوں بھک بھک دماغوں میں چلی…
کہیو قاصد جو وہ پوچھے ہمیں کیا کرتے ہیں
کہیو قاصد جو وہ پوچھے ہمیں کیا کرتے ہیں جان و ایمان و محبت کو دعا کرتے ہیں عشق آتش بھی جو دیوے تو نہ…
کہتے ہیں اڑ بھی گئے جل کے پر پروانہ
کہتے ہیں اڑ بھی گئے جل کے پر پروانہ کچھ سنی سوختگاں تم خبر پروانہ سعی اتنی یہ ضروری ہے اٹھے بزم سلگ اے جگر…
کہا سنتے تو کاہے کو کسو سے دل لگاتے تم
کہا سنتے تو کاہے کو کسو سے دل لگاتے تم نہ جاتے اس طرف تو ہاتھ سے اپنے نہ جاتے تم شکیبائی کہاں جو اب…
خندہ بجائے گریہ و اندوہ و آہ کر
خندہ بجائے گریہ و اندوہ و آہ کر ماتم کدے کو دہر کے تو عیش گاہ کر کیا دیکھتا ہے ہر گھڑی اپنی ہی سج…
کس کی مسجد کیسے میخانے کہاں کے شیخ و شاب
کس کی مسجد کیسے میخانے کہاں کے شیخ و شاب ایک گردش میں تری چشم سیہ کے سب خراب تو کہاں اس کی کمر کیدھر…
کرو تم یاد گر ہم کو رہے تم میں بھی اکثر دل
کرو تم یاد گر ہم کو رہے تم میں بھی اکثر دل مثل مشہور ہے یہ تو کہ ہے دنیا میں دلبر دل بھلا تم…
کر نہ تاخیر تو اک شب کی ملاقات کے بیچ
کر نہ تاخیر تو اک شب کی ملاقات کے بیچ دن نہ پھر جائیں گے عشاق کے اک رات کے بیچ حرف زن مت ہو…
کچھ اندیشہ ہم کو نہیں ہے اپنے حال درہم کا
کچھ اندیشہ ہم کو نہیں ہے اپنے حال درہم کا آٹھ پہر رہتا ہے رونا اس کی دوری کے غم کا روتے کڑھتے خاک میں…
کب تلک یہ ستم اٹھائیے گا
کب تلک یہ ستم اٹھائیے گا ایک دن یوں ہی جی سے جایئے گا شکل تصویر بے خودی کب تک کسو دن آپ میں بھی…
کاشکے دل دو تو ہوتے عشق میں
کاشکے دل دو تو ہوتے عشق میں ایک رہتا ایک کھوتے عشق میں پاس ظاہر ٹک نہ کرتے شب تو ہم بھر رہے تھے خوب…
فلک کرنے کے قابل آسماں ہے
فلک کرنے کے قابل آسماں ہے کہ یہ پیرانہ سر جاہل جواں ہے گئے ان قافلوں سے بھی اٹھی گرد ہماری خاک کیا جانیں کہاں…
غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا
غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا دل کے جانے کا نہایت غم رہا حسن تھا تیرا بہت عالم فریب خط کے آنے…
عمر گذری کہ ترے کوچے کے آنے سے گئے
عمر گذری کہ ترے کوچے کے آنے سے گئے دور سے ایک نظر دیکھ کے جانے سے گئے
عشق میں ذلت ہوئی خفت ہوئی تہمت ہوئی
عشق میں ذلت ہوئی خفت ہوئی تہمت ہوئی آخر آخر جان دی یاروں نے یہ صحبت ہوئی عکس اس بے دید کا تو متصل پڑتا…
عشق میں کچھ نہیں دوا سے نفع
عشق میں کچھ نہیں دوا سے نفع کڑھیے کب تک نہ ہو بلا سے نفع کب تلک ان بتوں سے چشم رہے ہو رہے گا…
عزت اپنی اب نہیں ہے یار کو منظور ٹک
عزت اپنی اب نہیں ہے یار کو منظور ٹک پاس جاتا ہوں تو کہتا ہے کہ بیٹھو دور ٹک حال میرا شہر میں کہتے رہیں…
ظلم ہوئے ہیں کیا کیا ہم پر صبر کیا ہے کیا کیا ہم
ظلم ہوئے ہیں کیا کیا ہم پر صبر کیا ہے کیا کیا ہم آن لگے ہیں گور کنارے اس کی گلی میں جا جا ہم…
طائر فریب کتنا ہے وہ شکار پیشہ
طائر فریب کتنا ہے وہ شکار پیشہ مرغان باغ سارے گویا ہیں اس کے مارے
صحبت کسو سے رکھنے کا اس کو نہ تھا دماغ
صحبت کسو سے رکھنے کا اس کو نہ تھا دماغ تھا میرؔ بے دماغ کو بھی کیا بلا دماغ باتیں کرے برشتگی دل کی پر…
شیخی کا اب کمال ہے کچھ اور
شیخی کا اب کمال ہے کچھ اور حال ہے اور قال ہے کچھ اور وعدے برسوں کے کن نے دیکھے ہیں دم میں عاشق کا…
شش جہت سے اس میں ظالم بوئے خوں کی راہ ہے
شش جہت سے اس میں ظالم بوئے خوں کی راہ ہے تیرا کوچہ ہم سے تو کہہ کس کی بسمل گاہ ہے ایک نبھنے کا…
شاید جگر حرارت عشقی سے جل گیا
شاید جگر حرارت عشقی سے جل گیا کل درد دل کہا سو مرا منھ ابل گیا بے یار حیف باغ میں دل ٹک بہل گیا…
سوزش دل سے مفت گلتے ہیں
سوزش دل سے مفت گلتے ہیں داغ جیسے چراغ جلتے ہیں اس طرح دل گیا کہ اب تک ہم بیٹھے روتے ہیں ہاتھ ملتے ہیں…
سن گوش دل سے اب تو سمجھ بے خبر کہیں
سن گوش دل سے اب تو سمجھ بے خبر کہیں مذکور ہو چکا ہے مرا حال ہر کہیں اب فائدہ سراغ سے بلبل کے باغباں…
سر تو بہت بکھیرا پر فائدہ کیا نہ
سر تو بہت بکھیرا پر فائدہ کیا نہ الجھاؤ تھا جو اس کی زلفوں سے سو گیا نہ وے زلفیں عقدہ عقدہ ہیں آفت زمانہ…
سب آتش سو زندۂ دل سے ہے جگر آب
سب آتش سو زندۂ دل سے ہے جگر آب بے صرفہ کرے صرف نہ کیوں دیدۂ تر آب پھرتی ہے اڑی خاک بھی مشتاق کسو…
زرد ہیں چہرے سوکھ گئے ہیں یعنی ہیں بیمار بہت
زرد ہیں چہرے سوکھ گئے ہیں یعنی ہیں بیمار بہت عشق کی گرمی دل کو پہنچی کہتے ہی آزار بہت نالہ و زاری سے عاشق…
رو چکا خون جگر سب اب جگر میں خوں کہاں
رو چکا خون جگر سب اب جگر میں خوں کہاں غم سے پانی ہوکے کب کا بہہ گیا میں ہوں کہاں دست و دامن جیب…
رہ جاؤں چپ نہ کیونکے برا جی میں مان کر
رہ جاؤں چپ نہ کیونکے برا جی میں مان کر آؤ بھلا کبھو تو سو جاؤ زبان کر کہتے ہیں چلتے وقت ملاقات ہے ضرور…
رکھتا ہے میرے دل سے تمھارا غم اختلاط
رکھتا ہے میرے دل سے تمھارا غم اختلاط ہر لمحہ لحظہ آن و زماں ہر دم اختلاط ہم وے ملے ہی رہتے ہیں مردم کی…
ربط دل کو اس بت بے مہر کینہ ور سے ہے
ربط دل کو اس بت بے مہر کینہ ور سے ہے کیا کہوں میں آہ مجھ کو کام کس پتھر سے ہے کس کو کہتے…
دیوانگی میں گاہ ہنسے گاہ رو چکے
دیوانگی میں گاہ ہنسے گاہ رو چکے وحشت بہت تھی طاقت دل ہائے کھو چکے افراط اشتیاق میں سمجھے نہ اپنا حال دیکھے ہیں سوچ…
دیکھ آرسی کو یار ہوا محو ناز کا
دیکھ آرسی کو یار ہوا محو ناز کا خانہ خراب ہو جیو آئینہ ساز کا ہوتا ہے کون دست بسر واں غرور سے گالی ہے…
دور اس سے جی چکے ہیں ہم اس روزگار میں
دور اس سے جی چکے ہیں ہم اس روزگار میں دن آج کا بھی سانجھ ہوا انتظار میں داغوں سے بھر گیا ہے مرا سینۂ…
دل ہے میری بغل میں صد پارہ
دل ہے میری بغل میں صد پارہ اور ہر پارہ اس کا آوارہ عرق شرم رو سے دلبر کے رفتہ ثابت گذشتہ سیارہ خواری عشق…
دل کے خوں ہونے کا غم کیا اب سے تھا
دل کے خوں ہونے کا غم کیا اب سے تھا سینہ کوبی سخت ماتم کب سے تھا اس کی مقتولی کا ہم کو رشک ہے…
دل کھو گیا ہوں میں یہیں دیوانہ پن کے بیچ
دل کھو گیا ہوں میں یہیں دیوانہ پن کے بیچ تم بھی تو دیکھو زلف شکن در شکن کے بیچ کیا جانے دل میں چاؤ…
دل سمجھا نہ محبت کو کچھ ان نے کیا یہ خیال کیا
دل سمجھا نہ محبت کو کچھ ان نے کیا یہ خیال کیا خون ہو بہ سب آپھی گیا عشق حسن و جمال کیا آنکھیں کفک…
دل جلتے کچھ بن نہیں آتی حال بگڑتے جاتے ہیں
دل جلتے کچھ بن نہیں آتی حال بگڑتے جاتے ہیں جیسے چراغ آخری شب ہم لوگ نبڑتے جاتے ہیں رنگ ثبات چمن کا اڑایا باد…
دل اگر کہتا ہوں تو کہتا ہے وہ یہ دل ہے کیا
دل اگر کہتا ہوں تو کہتا ہے وہ یہ دل ہے کیا ایسے ناداں دلربا کے ملنے کا حاصل ہے کیا جاننا باطل کسو کو…
درپیش ہے میرؔ راہ تجھ کو پیارے
درپیش ہے میرؔ راہ تجھ کو پیارے غفلت سے نہیں نگاہ تجھ کو پیارے آتے ہیں نظر جاتے یہ سارے اسباب سوجھے گی کبھو بھی…
خوبی یہی نہیں ہے کہ انداز و ناز ہو
خوبی یہی نہیں ہے کہ انداز و ناز ہو معشوق کا ہے حسن اگر دل نواز ہو سجدے کا کیا مضائقہ محراب تیغ میں پر…
آب حیواں نہیں گوارا ہم کو
آب حیواں نہیں گوارا ہم کو کس گھاٹ محبت نے اتارا ہم کو دریا دریا تھا شوق بوسہ لیکن جاں بخش لب یار نے مارا…
آ جائیں ہم نظر جو کوئی دم بہت ہے یاں
آ جائیں ہم نظر جو کوئی دم بہت ہے یاں مہلت ہمیں بسان شرر کم بہت ہے یاں یک لحظہ سینہ کوبی سے فرصت ہمیں…
حسن کیا جنس ہے جی اس پہ لگا بیٹھے ہیں
حسن کیا جنس ہے جی اس پہ لگا بیٹھے ہیں عزلتی شہر کے بازار میں آ بیٹھے ہیں ہم وے ہر چند کہ ہم خانہ…