میر تقی میر
پوچھو نہ کچھ اس بے سر و پا کی خواہش
پوچھو نہ کچھ اس بے سر و پا کی خواہش رکھتی نہیں حد اہل وفا کی خواہش جاتے ہیں چلے جی ہی بتوں کی خاطر…
پشت پا ماری بسکہ دنیا پر
پشت پا ماری بسکہ دنیا پر زخم پڑ پڑ گیا مرے پا پر ڈوبے اچھلے ہے آفتاب ہنوز کہیں دیکھا تھا تجھ کو دریا پر…
بیتابیوں میں تنگ ہم آئے ہیں جان سے
بیتابیوں میں تنگ ہم آئے ہیں جان سے وقت شکیب خوش کہ گیا درمیان سے داغ فراق و حسرت وصل آرزوئے دید کیا کیا لیے…
بے خودی جو یہ ہے تو ہم آپ میں اب آ چکے
بے خودی جو یہ ہے تو ہم آپ میں اب آ چکے کیا تمھیں یاں سے چلے جاتے ہو ہم بھی جا چکے تم یہی…
بہار و باغ و گل و لالہ دلربا بن حیف
بہار و باغ و گل و لالہ دلربا بن حیف بھرے ہیں پھولوں سے جیب و کنار لیکن حیف
بسکہ ہے گردون دوں پرور دنی
بسکہ ہے گردون دوں پرور دنی ہووے پیوند زمیں یہ رفتنی بزم میں سے اب تو چل اے رشک صبح شمع کے منھ پر پھری…
برسوں تک جی کو مار مار رہے
برسوں تک جی کو مار مار رہے رات دن ہم امیدوار رہے موسم گل تلک رہے گا کون چبھتے ہی دل کو خار خار رہے…
باریک وہ کمر ہے ایسی کہ بال کیا ہے
باریک وہ کمر ہے ایسی کہ بال کیا ہے دل ہاتھ جو نہ آوے اس کا خیال کیا ہے جو بے کلی ہے ایسی چاہت…
آئے تو ہو طبیباں تدبیر گر کرو تم
آئے تو ہو طبیباں تدبیر گر کرو تم ایسا نہ ہو کہ میرے جی کا ضرر کرو تم رنگ شکستہ میرا بے لطف بھی نہیں…
آیا ہے شیب سر پہ گیا ہے شباب اب
آیا ہے شیب سر پہ گیا ہے شباب اب کرنا جو کچھ ہو تم کو سو کر لو شتاب اب بگڑا بنا ہوں عشق سے…
اے عشق کیا جو مجھ سا ہوا ناتواں ہلاک
اے عشق کیا جو مجھ سا ہوا ناتواں ہلاک کر ہاتھ ٹک ملا کے کوئی پہلواں ہلاک میں چل بسا تو شہر ہی ویران سب…
آواز ہماری سے نہ رک ہم ہیں دعا یاد
آواز ہماری سے نہ رک ہم ہیں دعا یاد آوے گی بہت ہم بھی فقیروں کی صدا یاد ہر آن وہ انداز ہے جس میں…
آنکھوں میں اپنی رات کو خوناب تھا سو تھا
آنکھوں میں اپنی رات کو خوناب تھا سو تھا جی دل کے اضطراب سے بے تاب تھا سو تھا آ کر کھڑا ہوا تھا بہ…
ان حنائی دست و پا سے دل لگی سی ہے ابھی
ان حنائی دست و پا سے دل لگی سی ہے ابھی میں نے ناخن بندی اپنی عشق میں کی ہے ابھی ہاتھ دل پر زور…
اگرچہ لعل بدخشاں میں رنگ ڈھنگ ہے شوخ
اگرچہ لعل بدخشاں میں رنگ ڈھنگ ہے شوخ پہ تیرے دونوں لبوں کا بھی کیا ہی رنگ ہے شوخ کبھو تو نیو چلا کر ستم…
اعجاز منھ تکے ہے ترے لب کے کام کا
اعجاز منھ تکے ہے ترے لب کے کام کا کیا ذکر یاں مسیح علیہ السلام کا رقعہ ہمیں جو آوے ہے سو تیر میں بندھا…
اس کے رنگ چمن میں شاید اور کھلا ہے پھول کوئی
اس کے رنگ چمن میں شاید اور کھلا ہے پھول کوئی شور طیور اٹھتا ہے ایسا جیسے اٹھے ہے بول کوئی یوں پھرتا ہوں دشت…
اس عہد میں الٰہی محبت کو کیا ہوا میر تقی میر
اس عہد میں الٰہی محبت کو کیا ہوا چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا امیدوار وعدۂ دیدار مر چلے آتے ہی آتے…
ارض و سما میں عشق ہے ساری چاروں اور بھرا ہے عشق
ارض و سما میں عشق ہے ساری چاروں اور بھرا ہے عشق ہم ہیں جناب عشق کے بندے نزدیک اپنے خدا ہے عشق ظاہر و…
اچٹتی سی لگی اپنے تو وہ تلوار یا قسمت
اچٹتی سی لگی اپنے تو وہ تلوار یا قسمت ہوئے جس کے لگے کارآمدہ بیکار یا قسمت ہوئے جب سو جواں یک جا توقع سی…
آتی ہے مجلس میں تو فانوس میں آتی ہے شمع
آتی ہے مجلس میں تو فانوس میں آتی ہے شمع وہ سراپا دیکھ کر پردے میں جل جاتی ہے شمع
آپ اس جنس کے ہیں ہم بھی خریداروں میں
آپ اس جنس کے ہیں ہم بھی خریداروں میں پگڑی جامے بکے جس کے لیے بازاروں میں باغ فردوس کا ہے رشک وہ کوچہ لیکن…
اب کے جو گل کی فصل میں ہم کو جنوں ہوا
اب کے جو گل کی فصل میں ہم کو جنوں ہوا وہ دل کہ جس پہ اپنا بھروسا تھا خوں ہوا ٹھہرا گیا ہو ٹک…
یہ غلط کہ میں پیا ہوں قدح شراب تجھ بن
یہ غلط کہ میں پیا ہوں قدح شراب تجھ بن نہ گلے سے میرے اترا کبھو قطرہ آب تجھ بن یہی بستی عاشقوں کی کبھو…
یک دم میں خوں تو سوکھا مژگاں پہ ہوکے جاری
یک دم میں خوں تو سوکھا مژگاں پہ ہوکے جاری کر اے طپش جگر کی اب تو ہی آبیاری
یارو مجھے معاف رکھو میں نشے میں ہوں
یارو مجھے معاف رکھو میں نشے میں ہوں اب دو تو جام خالی ہی دو میں نشے میں ہوں ایک ایک قرط دور میں یوں…
ویسا ہے یہ جو یوسف شب تیرے ہوتے آوے
ویسا ہے یہ جو یوسف شب تیرے ہوتے آوے جیسے چراغ کوئی مہتاب میں جلاوے کیا رفتگی سے میری تم گفتگو کرو ہو کھویا گیا…
وہ عہد گیا کہ جور اس کے سہیے
وہ عہد گیا کہ جور اس کے سہیے وہ بات نہیں رہی کہ چپکے رہیے جب جی ہی چلا میرؔ تو صرفہ کیا ہے بے…
وصل کی جب سے گئی ہے چھوڑ دلداری مجھے
وصل کی جب سے گئی ہے چھوڑ دلداری مجھے ہجر کی کرنی پڑی ہے ناز برداری مجھے میں گریباں پھاڑتا ہوں وہ سلا دیتا ہے…
ہے میرے جو سرشک دمادم کا رنگ سرخ
ہے میرے جو سرشک دمادم کا رنگ سرخ ریزش سے اس کی تختہ ہے سینے کا سنگ سرخ
ہے تند و تیز اس کی نگاہ اس طرف ہنوز
ہے تند و تیز اس کی نگاہ اس طرف ہنوز مارا ہے بے گناہ و گناہ اس طرف ہنوز سر کاٹ کر ہم اس کے…
ہو گئی شہر شہر رسوائی
ہو گئی شہر شہر رسوائی اے مری موت تو بھلی آئی یک بیاباں برنگ صوت جرس مجھ پہ ہے بیکسی و تنہائی نہ کھنچے تجھ…
ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا میر تقی میر
ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا قسم جو کھایئے تو طالع زلیخا کی عزیز…
ہم کبھو غم سے آہ کرتے تھے
ہم کبھو غم سے آہ کرتے تھے آسماں تک سیاہ کرتے تھے اے خوشا حال اس کا جس کا وے حال عمداً تباہ کرتے تھے…
ہم تو اس کے ظلم سے ہمدم چلے
ہم تو اس کے ظلم سے ہمدم چلے رہ سکے ہے تو تو رہ یاں ہم چلے ٹوٹے جوں لالہ ستاں سے ایک پھول ہم…
ھر عشق میں میرؔ پاؤں دھرتا ہے گا
ھر عشق میں میرؔ پاؤں دھرتا ہے گا جی اور منغض اپنا کرتا ہے گا سب مل کے چلو بارے اسے سمجھاویں افسوس کہ وہ…
ہجراں کی کوفت کھینچے بے دم سے ہو چلے ہیں
ہجراں کی کوفت کھینچے بے دم سے ہو چلے ہیں سر مار مار یعنی اب ہم بھی سو چلے ہیں جوئیں رہیں گی جاری گلشن…
نہیں ہے تاب تنک تم بھی مت عتاب کرو
نہیں ہے تاب تنک تم بھی مت عتاب کرو نہ گرم ہوکے بہت آگ ہو کے آب کرو تمھارے عکس سے بھی عکس مجھ کو…
نہ جرأت ہے نہ جذبہ ہے نہ یاری بخت بد سے ہے
نہ جرأت ہے نہ جذبہ ہے نہ یاری بخت بد سے ہے یہی بے طاقتی خوں گشتہ دل کو میرے کد سے ہے جہاں شطرنج…
نکتہ مشتاق و یار ہے اپنا
نکتہ مشتاق و یار ہے اپنا شاعری تو شعار ہے اپنا بے خودی لے گئی کہاں ہم کو دیر سے انتظار ہے اپنا روتے پھرتے…
نالے کا آج دل سے پھر لب تلک گذر ہے
نالے کا آج دل سے پھر لب تلک گذر ہے ٹک گوش رکھیو ایدھر ساتھ اس کے کچھ خبر ہے اے حب جاہ والو جو…
ناآشنا کے اپنے جیسے ہم آشنا ہیں
ناآشنا کے اپنے جیسے ہم آشنا ہیں اس طور اس طرح کے ایسے کم آشنا ہیں باہم جو یاریاں ہیں اور آشنائیاں ہیں سب ہیں…
میرے مالک نے مرے حق میں یہ احسان کیا
میرے مالک نے مرے حق میں یہ احسان کیا خاک ناچیز تھا میں سو مجھے انسان کیا اس سرے دل کی خرابی ہوئی اے عشق…
موسم ہے نکلے شاخوں سے پتے ہرے ہرے
موسم ہے نکلے شاخوں سے پتے ہرے ہرے پودے چمن میں پھولوں سے دیکھے بھرے بھرے آگے کسو کے کیا کریں دست طمع دراز وہ…
منھ پر اس آفتاب کے ہے یہ نقاب کیا
منھ پر اس آفتاب کے ہے یہ نقاب کیا پردہ رہا ہے کون سا ہم سے حجاب کیا اے ابر تر یہ گریہ ہمارا ہے…
معلوم نہیں کیا ہے لب سرخ بتاں میں
معلوم نہیں کیا ہے لب سرخ بتاں میں اس آتش خاموش کا ہے شور جہاں میں یوسفؑ کے تئیں دیکھ نہ کیوں بند ہوں بازار…
مرے رنگ شکستہ پہ ہنسے ہیں مردماں سارے
مرے رنگ شکستہ پہ ہنسے ہیں مردماں سارے ہوا ہوں زعفراں کا کھیت تیرے عشق میں پیارے عرق گرتا ہے تیری زلف سے اور دل…
مذہب سے میرے کیا تجھے میرا دیار اور
مذہب سے میرے کیا تجھے میرا دیار اور میں اور یار اور مرا کاروبار اور چلتا ہے کام مرگ کا خوب اس کے دور میں…
محبت کا جب روز بازار ہو گا
محبت کا جب روز بازار ہو گا بکیں گے سر اور کم خریدار ہو گا تسلی ہوا صبر سے کچھ میں تجھ بن کبھی یہ…
مت مال کسی کا یار تل کر رکھنا
مت مال کسی کا یار تل کر رکھنا تو داؤ نہ یاں بہت سا جل کر رکھنا آیا تو قمارخانۂ عشق میں تو سربازی ہے…