میر تقی میر
اب اپنے قد راست کو خم دیکھتے ہیں ہائے
اب اپنے قد راست کو خم دیکھتے ہیں ہائے ہستی کے تئیں ہوتے عدم دیکھتے ہیں ہائے سنتے تھے کہ جاتی ہے ترے دیکھنے سے…
حیران اس بھبھوکے پہ سب دوش ہو گئے
حیران اس بھبھوکے پہ سب دوش ہو گئے شمع و چراغ بزم میں خاموش ہو گئے
حال برا ہے تم کو ہم سے اتنی غفلت کیا ہے آج
حال برا ہے تم کو ہم سے اتنی غفلت کیا ہے آج کوئی گھڑی تو پاس رہو یاں پہروں فرصت کیا ہے آج سامنے ہے…
چمکنا برق کا کرتا ہے کار تیغ ہجراں میں
چمکنا برق کا کرتا ہے کار تیغ ہجراں میں برسنا مینھ کا داخل ہے اس بن تیر باراں میں بھرے رہتے ہیں سارے پھول ہی…
چاہیے یوں تھا بگڑی صحبت آپھی آ کے بناتے تم
چاہیے یوں تھا بگڑی صحبت آپھی آ کے بناتے تم رحلت کرنے سے آگے مجھ کو دیکھتے آتے جاتے تم چلتے کہا تھا جاؤ سفر…
جی مارا بیتابی دل نے اب کچھ اچھا ڈھنگ نہیں
جی مارا بیتابی دل نے اب کچھ اچھا ڈھنگ نہیں رنگ طپیدن کی شوخی سے منھ پر میرے رنگ نہیں وہ جو خرام ناز کرے…
جو یہ دل ہے تو کیا سر انجام ہو گا
جو یہ دل ہے تو کیا سر انجام ہو گا تہ خاک بھی خاک آرام ہو گا مرا جی تو آنکھوں میں آیا یہ سنتے…
جو جنون و عشق کی تدبیر ہے
جو جنون و عشق کی تدبیر ہے سو نہ یاں شمشیر نے زنجیر ہے وصف اس کا باغ میں کرنا نہ تھا گل ہمارا اب…
جنگل میں چشم کس سے بستی کی رہبری کی
جنگل میں چشم کس سے بستی کی رہبری کی صاحب ہی نے ہمارے یہ بندہ پروری کی شب سن کے شور میرا کچھ کی نہ…
جس کا خوباں خیال لیتے ہیں
جس کا خوباں خیال لیتے ہیں دل کلیجا نکال لیتے ہیں کیا نظر گاہ ہے کہ شرم سے گل سر گریباں میں ڈال لیتے ہیں…
جب کہ پہلو سے یار اٹھتا ہے
جب کہ پہلو سے یار اٹھتا ہے درد بے اختیار اٹھتا ہے اب تلک بھی مزار مجنوں سے ناتواں اک غبار اٹھتا ہے ہے بگولا…
جائے ہے جی نجات کے غم میں
جائے ہے جی نجات کے غم میں ایسی جنت گئی جہنم میں نزع میں میرے ایک دم ٹھہرو دم ابھی ہیں ہزار اک دم میں…
جاذبہ میرا تھا کامل سو بندے کے وہ گھر آیا
جاذبہ میرا تھا کامل سو بندے کے وہ گھر آیا شکر خدا کا کریے کہاں تک عہد فراق بسر آیا بجلی سا وہ چمک گیا…
تیری گلی سے جب ہم عزم سفر کریں گے
تیری گلی سے جب ہم عزم سفر کریں گے ہر ہر قدم کے اوپر پتھر جگر کریں گے آزردہ خاطروں سے کیا فائدہ سخن کا…
تھا شوق مجھے طالب دیدار ہوا میں
تھا شوق مجھے طالب دیدار ہوا میں سو آئینہ سا صورت دیوار ہوا میں جب دور گیا قافلہ تب چشم ہوئی باز کیا پوچھتے ہو…
تڑپے ہے غم زدہ دل لاوے گا تاب کیونکر
تڑپے ہے غم زدہ دل لاوے گا تاب کیونکر خوں بستہ ہیں گی آنکھیں آوے گی خواب کیونکر پر ناتواں ہوں مجھ پر بھاری ہے…
تد اس بہشتی رو سے یہ خلطہ بہم کیا
تد اس بہشتی رو سے یہ خلطہ بہم کیا جد برسوں ہم نے سورۂ یوسفؑ کو دم کیا چہرے کو نوچ نوچ لیا چھاتی کوٹ…
تابوت پر بھی میرے نہ آیا وہ بے نقاب
تابوت پر بھی میرے نہ آیا وہ بے نقاب میں اٹھ گیا ولے نہ اٹھا بیچ سے حجاب اس آفتاب حسن کے جلوے کی کس…
پوشیدہ کیا رہے ہے قدرت نمائی دل
پوشیدہ کیا رہے ہے قدرت نمائی دل دیکھی نہ بے ستوں میں زور آزمائی دل ہے تیرہ یہ بیاباں گرد و غبار سے سب دے…
پلکیں پھری ہیں کھنچی بھویں ہیں ترچھی تیکھی نگاہیں ہیں
پلکیں پھری ہیں کھنچی بھویں ہیں ترچھی تیکھی نگاہیں ہیں اس اوباش کی دیکھو شوخی سادگی سے ہم چاہیں ہیں کیا پہناوا خوش آتا ہے…
بیکار بھی درکار ہیں سرکار میں صاحب
بیکار بھی درکار ہیں سرکار میں صاحب آتے ہیں کھنچے ہم کبھو بیگار میں صاحب محروم نہ رہ جائیں کہیں بعد فنا بھی شبہ، ہے…
بے طاقتی میں تو تو اے میرؔ مر رہے گا
بے طاقتی میں تو تو اے میرؔ مر رہے گا ایسی طپش سے دل کی کوئی جگر رہے گا کیا ہے جو راہ دل کی…
بہت ہی اپنے تئیں ہم تو خوار پاتے ہیں
بہت ہی اپنے تئیں ہم تو خوار پاتے ہیں وہ کوئی اور ہیں جو اعتبار پاتے ہیں تری گلی میں میں رویا تھا دل جلا…
بلبلیں پائیز میں کہتی تھیں ہوتا کاشکے
بلبلیں پائیز میں کہتی تھیں ہوتا کاشکے یک مژہ رنگ فراری اس چمن کا آشنا کو گل و لالہ کہاں سنبل سمن ہم نسترن خاک…
برسوں ہوئے گئے ہوئے اس مہ کو بام سے
برسوں ہوئے گئے ہوئے اس مہ کو بام سے کاہش مجھے جو ہے وہی ہوتی ہے شام سے تڑپے اسیر ہوتے جو ہم یک اٹھا…
باغ گو سبز ہوا اب سر گلزار کہاں
باغ گو سبز ہوا اب سر گلزار کہاں دل کہاں وقت کہاں عمر کہاں یار کہاں تم تو اب آنے کو پھر کہہ چلے ہو…
آئی ہے اس کے کوچے سے ہو کر صبا کچھ اور
آئی ہے اس کے کوچے سے ہو کر صبا کچھ اور کیا سر میں خاک ڈالتی ہے اب ہوا کچھ اور تدبیر دوستوں کی مجھے…
ایسا نہ ہوا کہ ہم نے شادی کی ہو
ایسا نہ ہوا کہ ہم نے شادی کی ہو یا سیر بہار باغ و وادی کی ہو پژمردہ کلی کے رنگ اس گلشن میں غالب…
اے کاش مرے سر پر اک بار وہ آ جاتا
اے کاش مرے سر پر اک بار وہ آ جاتا ٹھہراؤ سا ہو جاتا یوں جی نہ چلا جاتا تب تک ہی تحمل ہے جب…
اوصاف مو کے شعر سے الجھاؤ پڑ گیا
اوصاف مو کے شعر سے الجھاؤ پڑ گیا دانتوں کو سلک در جو کہا میں سو لڑ گیا جیتے جی یہ ملا نہ رہا سو…
آنکھیں جو ہوں تو عین ہے مقصود ہر جگہ
آنکھیں جو ہوں تو عین ہے مقصود ہر جگہ بالذات ہے جہاں میں وہ موجود ہر جگہ واقف ہو شان بندگی سے قید قبلہ کیا…
ان صید افگنوں کا کیا ہو شکار کوئی میر تقی میر
ان صید افگنوں کا کیا ہو شکار کوئی ہوتا نہیں ہے آخر کام ان کے امتحاں کا تب تو مجھے کیا تھا تیروں سے صید…
آگے تو رسم دوستی کی تھی جہاں کے بیچ
آگے تو رسم دوستی کی تھی جہاں کے بیچ اب کیسے لوگ آئے زمیں آسماں کے بیچ میں بے دماغ عشق اٹھا سو چلا گیا…
اغلب ہے وہ غم کا بار کھینچے گا میرؔ
اغلب ہے وہ غم کا بار کھینچے گا میرؔ منھ دیکھو کہ شکل یار کھینچے گا میرؔ بیٹھا ہے بنانے اس کی چشم مے گوں…
اس کی سی جو چلے ہے راہ تو کیا
اس کی سی جو چلے ہے راہ تو کیا آسماں پر گیا ہے ماہ تو کیا لڑ کے ملنا ہے آپ سے بے لطف یار…
اس سے نہ الفت ہو مجھ کو تو ہووے نہ میرا چہرہ زرد
اس سے نہ الفت ہو مجھ کو تو ہووے نہ میرا چہرہ زرد ہاتھ نہ رکھوں کیوں دل پر میں رنج و بلا ہے قیامت…
اڑا برگ گل کو دکھاتی ہے وادی
اڑا برگ گل کو دکھاتی ہے وادی کہو کس طرح نئیں صبا چور بادی میں لبریز تجھ نام سے جوں نگیں تھا رہی لوح تربت…
اچھی لگے ہے تجھ بن گل گشت باغ کس کو
اچھی لگے ہے تجھ بن گل گشت باغ کس کو صحبت رکھے گلوں سے اتنا دماغ کس کو بے سوز داغ دل پر گر جی…
اٹھوں نہ خاک سے کشتہ میں کم نگاہی کا
اٹھوں نہ خاک سے کشتہ میں کم نگاہی کا دماغ کس کو ہے محشر کی داد خواہی کا سنو ہو جل ہی بجھوں گا کہ…
اپنے حسن رفتنی پر آج مت مغرور ہو
اپنے حسن رفتنی پر آج مت مغرور ہو پاس تو ہے جس کے وے ہی کل کہیں گے دور ہو دیکھ کر وہ راہ چلتا…
اب کے سفر کو ہم سے وہ مہ جدا گیا ہے
اب کے سفر کو ہم سے وہ مہ جدا گیا ہے رخصت میں لگ گلے سے چھاتی جلا گیا ہے فرہاد و قیس گذرے اب…
یہ میرؔ ستم کشتہ کسو وقت جواں تھا
یہ میرؔ ستم کشتہ کسو وقت جواں تھا انداز سخن کا سبب شور و فغاں تھا جادو کی پڑی پرچۂ ابیات تھا اس کا منھ…
یکسو کشادہ روئی پرچیں نہیں جبیں بھی
یکسو کشادہ روئی پرچیں نہیں جبیں بھی ہم چھوڑی مہر اس کی کاش اس کو ہووے کیں بھی آنسو تو تیرے دامن پونچھے ہے وقت…
یارب اس کا ستم سہا بھی جائے
یارب اس کا ستم سہا بھی جائے پنجہ خورشید کا گہا بھی جائے دیکھ رہیے خرام ناز اس کا پر کسو پا سے گر رہا…
ویسا کہاں ہے ہم سے جیسا کہ آگے تھا تو
ویسا کہاں ہے ہم سے جیسا کہ آگے تھا تو اوروں سے مل کے پیارے کچھ اور ہو گیا تو چالیں تمام بے ڈھب باتیں…
وہ رابطہ نہیں وہ محبت نہیں رہی
وہ رابطہ نہیں وہ محبت نہیں رہی اس بے وفا کو ہم سے کچھ الفت نہیں رہی دیکھا تو مثل اشک نظر سے گرا دیا…
وعدے ہر روز رہے اور تم آتے ہی رہے
وعدے ہر روز رہے اور تم آتے ہی رہے ہم کو دیکھو کہ لگے چلنے تو جاتے ہی رہے
ہے زباں زد جو سکندر ہو چکا لشکر سمیت
ہے زباں زد جو سکندر ہو چکا لشکر سمیت سر بھی اس کا کھپ گیا آخر کو یاں افسر سمیت چشمے آب شور کے نکلا…
ہوتا ہے یاں جہاں میں ہر روز و شب تماشا
ہوتا ہے یاں جہاں میں ہر روز و شب تماشا دیکھا جو خوب تو ہے دنیا عجب تماشا ہر چند شور محشر اب بھی ہے…