گلاب

گلاب () مہکے باغوں کی جھیلوں میں رخساروں کے عکس گلاب باد صبا کی لہریں آئیں کرنے لگے ہیں رقص گلاب پھولو! میرا دل نا…

ادامه مطلب

گرچہ ہر گام یہاں لوگوں کے میلے ہیں بہت

گرچہ ہر گام یہاں لوگوں کے میلے ہیں بہت ہم اکیلے ہیں بہت، ہم اکیلے ہیں بہت ایک بس تو ہی نہیں شہر میں اشکوں…

ادامه مطلب

کیسے ممکن ہے اداؤں کا لحاظ

کیسے ممکن ہے اداؤں کا لحاظ عشق میں کیونکر اناؤں کا لحاظ دے کے جاتی ہیں مجھے خوشبو تری کرنا پڑتا ہے ہواؤں کا لحاظ…

ادامه مطلب

رونق

رونق بے سبب آنکھ سے بہے آنسو ہم نے جانا تمہارا غم لے کر کوئی آبادیوں سے آیا ہے فرحت عباس شاہ (کتاب – ملو…

ادامه مطلب

کیا پتہ

کیا پتہ خود سے کہو کہ کبھی کبھی اکیلے میں تھوڑا ہنس بول لیا کرے کیا پتہ اپنے آپ سے بچھڑنے کی گھڑی کب سر…

ادامه مطلب

کوئی دم بولوں گا دن ہے شب نہیں

کوئی دم بولوں گا دن ہے شب نہیں ہاتھ پتھر ہو چکے ہیں لب نہیں مستقل جکڑے ہوئے ہیں جسم و جاں اس طرح کا…

ادامه مطلب

کونسا قیاس تری آس میں تحلیل نہیں

کونسا قیاس تری آس میں تحلیل نہیں کونسی سوچ ترے راز تلک پہنچی ہے کونسے دکھ نے ترا راستہ دکھلایا ہے ہر کوئی راہ سے…

ادامه مطلب

کھینچ لیں نظریں مری پورے بدن سے اپنے

کھینچ لیں نظریں مری پورے بدن سے اپنے میں پریشان ہوا اس کی قد و قامت سے فرحت عباس شاہ (کتاب – مرے ویران کمرے…

ادامه مطلب

کہاں دل قید سے چُھوٹا ہوا ہے

کہاں دل قید سے چُھوٹا ہوا ہے ابھی تک شہر سے رُوٹھا ہوا ہے ہمی کیسے کہیں اس دل کو سچا ہمارے سامنے جُھوٹا ہوا…

ادامه مطلب

کمرے سے صحن تلک، صحن سے در تک محدود

کمرے سے صحن تلک، صحن سے در تک محدود تم سے بچھڑا تو ہوا چھوٹے سے گھر تک محدود چھاؤں سے نکلو تو موسم ہی…

ادامه مطلب

کسی کا کیا پتہ، ہم کیسے ہیں

کسی کا کیا پتہ، ہم کیسے ہیں کسی کو کیا پتہ ہم کیسے ہیں ہم ایسے ہی ہیں جیسے، جلا ہوا وجود جیسے تازہ زخم…

ادامه مطلب

کردار

کردار ہم فرشتے تو نہیں ہیں کہ ترے پیار سے محفوظ رہیں غیر انساں بھی نہیں ہیں کہ فقط جسم میں محصور رہیں ہم کو…

ادامه مطلب

کچھ سنبھلتا ہوں تو تقدیر بدل جاتی ہے

کچھ سنبھلتا ہوں تو تقدیر بدل جاتی ہے خواب سچا ہے پہ تعبیر بدل جاتی ہے پچھلی بنیاد پہ تعمیر بدل جاتی ہے شئے بدلتی…

ادامه مطلب

کبھی یوں

کبھی یوں کریں سنو! کبھی یوں کریں کہ کہیں مل بیٹھ کے کوئی اداس اور سوگوار شام دہرائیں اور بیتنے نہ دیں خود کو بھولی…

ادامه مطلب

کبھی جو سیر کو وہ خوابِ خوش بدن نکلے

کبھی جو سیر کو وہ خوابِ خوش بدن نکلے تو ساتھ گھر سے ہی اس کے کوئی چمن نکلے یہ دیکھتے ہیں کہ تقدیر کس…

ادامه مطلب

کاروبار

کاروبار مجھے پتہ ہے تم میری بہت ساری سوچیں اور خواب بہت پہلے ہی سے کام میں لے آتے ہو تا کہ انہیں اپنے سرکل…

ادامه مطلب

قدم قدم پہ نئے سے نئے حصار میں تھا

قدم قدم پہ نئے سے نئے حصار میں تھا دلِ امیر محبت کے کاروبار میں تھا نگاہ لمحہ بہ لمحہ لرز لرز جاتی عجیب رعب…

ادامه مطلب

فطرت

فطرت وصل منکر عالم تسکین کا ہجر انکاری قرار و صبر سے اے سکوں اور اے سراب اندر سراب اے ثواب رائیگاں اے بے نشاں…

ادامه مطلب

غیرت و دل کے خریدار سے مانوس نہیں

غیرت و دل کے خریدار سے مانوس نہیں ہم جو اس پار ہیں اُس پار سے مانوس نہیں گھٹ کے مر جائیں گے دو چار…

ادامه مطلب

عموماََ ہی یہاں

عموماََ ہی یہاں ہم ایک دوسرے کو کبھی جب پھول، خوشبو اور گیتوں کی کوئی کیسٹ یا ایسا ہی محبت کا کوئی تحفہ تمنائیں، دعائیں…

ادامه مطلب

عشق میں جیت کوئی جیت نہیں

عشق میں جیت کوئی جیت نہیں عشق میں مات کوئی مات نہیں زندگی چاہیے محبت میں یہ گھڑی دو گھڑی کی بات نہیں جتنے روشن…

ادامه مطلب

عزاداری

عزاداری یہ صحنِ دل میں بھلا کس یقیں کی لاش آئی یہ کن دعاؤں کے نیزے بھلا ترازو ہیں اُداس سی کسی معصومیت کے سینے…

ادامه مطلب

ظہورِ حق کے علاوہ بھی ہم نے دیکھا ہے

ظہورِ حق کے علاوہ بھی ہم نے دیکھا ہے خیال خام میں پنہاں کبھی کبھی تم تھے نصیب میں نہ رہا والہانہ پن تو کیا…

ادامه مطلب

صورتِ حال پر بھروسہ ہے

صورتِ حال پر بھروسہ ہے درد کی چال پر بھروسہ ہے آسمانوں سے ہم نہیں ڈرتے ہاں پرو بال پر بھروسہ ہے درد کی کاٹ…

ادامه مطلب

صبر کی منزل کہاں ہے دل کی شامت ہے کہاں

صبر کی منزل کہاں ہے دل کی شامت ہے کہاں ہے کہاں باب شرف کوئے ملامت ہے کہاں جب کہیں آغاز ہی میں انتہا ہو…

ادامه مطلب

شہر ہوتا تو نیا روز تماشا ہوتا

شہر ہوتا تو نیا روز تماشا ہوتا آ گیا راس ہمیں دل کا بیاباں ہونا فرحت عباس شاہ (کتاب – سوال درد کا ہے)

ادامه مطلب

شہرِ برباد میں گزارتے ہیں

شہرِ برباد میں گزارتے ہیں شب تری یاد میں گزارتے ہیں فرحت عباس شاہ

ادامه مطلب

شب بھر بیٹھ کے ایک عجیب کتاب سناتے رہتے ہیں

شب بھر بیٹھ کے ایک عجیب کتاب سناتے رہتے ہیں عورت سنتی ہے اور مرد سراب سناتے رہتے ہیں موسم تو ہاتھوں میں کاغذ پیلے…

ادامه مطلب

شام سمے گھبرائے جیارا

شام سمے گھبرائے جیارا شام سمے گھبرائے جیارا اک پل چین نہ پائے جیارا یاد پیا کی رو رو پکارے ہجر لہو میں درد اتارے…

ادامه مطلب

سوگواری بھی عجب شے ہے

سوگواری بھی عجب شے ہے سوگواری بھی عجب شے ہے کہ دل چھوٹا کیے رکھتی ہے دیوانوں کا تم نے دروازہ کبھی کھولا ہے ویرانوں…

ادامه مطلب

سوائے خود محبت کے

سوائے خود محبت کے محبت کی کوئی منزل نہیں ہوتی فرحت عباس شاہ (کتاب – ملو ہم سے)

ادامه مطلب

سمندر کی تہوں میں راستہ زندہ نہیں رہتا

سمندر کی تہوں میں راستہ زندہ نہیں رہتا زیادہ آنسوؤں میں سانحہ زندہ نہیں رہتا تری بے اعتنائی میں اگرچہ اِعتنائی ہے مگر یوں تو تعلق…

ادامه مطلب

سفر ہی شرط ہے تو پھر یہ سن لو

سفر ہی شرط ہے تو پھر یہ سن لو ہمیں واپس پلٹنے کو نہ کہنا فرحت عباس شاہ (کتاب – جدائی راستہ روکے کھڑی ہے)

ادامه مطلب

سُست رو جیون اجل کی تیزیاں

سُست رو جیون اجل کی تیزیاں کیا قیامت ہیں قیامت خیزیاں جنگلوں میں ہے بہت امن و سکوں ہو رہی ہیں شہر میں خوں ریزیاں…

ادامه مطلب

سب کا سب ہے دلِ تباہ میں گم

سب کا سب ہے دلِ تباہ میں گم ہر گواہی ہوئی گواہ میں گم سانس کا نم بتا رہا ہے مجھے کتنے آنسو ہوئے ہیں…

ادامه مطلب

سانوں پئے گئی عشق دی جھَسّ

سانوں پئے گئی عشق دی جھَسّ اسیں آپ وَنجا لئی چَسّ کُجھ جگ نوں واری دے نہ آپ اپنے تے ہَسّ کدیں آپ وی پَکھُّو…

ادامه مطلب

ساری امیدیں ترس جاتی ہیں

ساری امیدیں ترس جاتی ہیں بارشیں دل پہ برس جاتی ہیں فرحت عباس شاہ

ادامه مطلب

زندگی

زندگی غم کی عُمر طویل فرحت عباس شاہ (کتاب – دکھ بولتے ہیں)

ادامه مطلب

زندگی ادھاری ہے

زندگی ادھاری ہے اپنی تو تیاری ہے رک بھی تو نہیں سکتے راستوں سے یاری ہے دل پہ تیری دوری کا وار بھی تو کاری…

ادامه مطلب

زخمی اور تھکا ہوا پرندہ

زخمی اور تھکا ہوا پرندہ کہاں ہو تم؟ تم کہاں ہو؟ میں نے کہا تھا میں نے تمہیں کہا تھا اس پہاڑی سلسلے کو اتنا…

ادامه مطلب

سب اپنی ذات کے کرب و بلا کی قید میں ہیں

سب اپنی ذات کے کرب و بلا کی قید میں ہیں اور ایک ہم کہ جو اب تک وفا کی قید میں ہیں کوئی خبر…

ادامه مطلب

سالخوردہ صحراؤں کے بیچ

سالخوردہ صحراؤں کے بیچ مرے اندر کا بے مہار انسان وہ کہ جس کے ہاتھ میری تمام مہاریں ہیں اور جو میری منزلوں تک کو…

ادامه مطلب

زیست کا جبر مری آنکھوں میں

زیست کا جبر مری آنکھوں میں بن گیا صبر مری آنکھوں میں جانے کیوں پھیل گیا ہے آ کر موت کا ابر مری آنکھوں میں…

ادامه مطلب

زندگی کا فشار بھی کم ہے

زندگی کا فشار بھی کم ہے آج دل بے قرار بھی کم ہے آگیا ہے بہت ہی یاد کوئی آج تو انتشار بھی کم ہے…

ادامه مطلب

زمین

زمین زمین بھی کیسی عجیب شے ہے کھانے کے لیے اناج اور پینے کے لیے پانی دینے والی چھاؤں کے لیے درخت اور سائے کے…

ادامه مطلب

ریاضتیں

ریاضتیں  مسافتیں تم نے ٹھیک کہا خاموشی کی اپنی زبان ہوتی ہے لیکن اگر گفتگو کی بھی اپنی خاموشی ہو تو پھر کبھی کبھی ہم…

ادامه مطلب

روز ہر بات پہ دیتا ہے حوالہ دل کا

روز ہر بات پہ دیتا ہے حوالہ دل کا پھوٹ جائے گا کسی روز یہ چھالا دل کا باندھ جاتا ہے کوئی پٹی میری آنکھوں…

ادامه مطلب

روٹھ جائیں گے خدا سے میرے

روٹھ جائیں گے خدا سے میرے عمر سے نین ہیں پیاسے میرے مجھ سے بچھڑو گے تو اکثر دکھ میں یاد آئیں گے دلاسے میرے…

ادامه مطلب

رکھوں گا نعتیں اپنی علیحدہ سنبھال کر

رکھوں گا نعتیں اپنی علیحدہ سنبھال کر لایا سمندروں سے ہوں موتی نکال کر فرحت عباس شاہ

ادامه مطلب

ربط پیہم سمیٹ لیتے ہیں

ربط پیہم سمیٹ لیتے ہیں چشم پرنم سمیٹ لیتے ہیں ہجر تو دل لپیٹ لیتا ہے درد تو دم سمیٹ لیتے ہیں تم کہو تو…

ادامه مطلب