شکیب جلالی
اتریں عجیب روشنیاں، رات خواب میں
اتریں عجیب روشنیاں، رات خواب میں کیا کیا نہ عکس تیر رہے تھے سراب میں کب سے ہیں ایک حرف پہ نظریں جمی ہوئی وہ…
دہکے عارض۔۔ آئینے میں تیز شعلوں کی ضیاء
دہکے عارض۔۔ آئینے میں تیز شعلوں کی ضیاء احمریں لب ۔۔۔۔۔۔۔ زخمِ تازہ موجِ خوں سے آشنا تیکھے ابرو ۔۔۔ لوحِ سیمیںپر دھویںکاخط کھنچا بکھرے…
اس بُتکدے میں تُوجوحسیں تر لگا مجھے
اس بُتکدے میں تُوجوحسیں تر لگا مجھے اپنے ہی اک خیال کا پیکر لگا مجھے جب تک رہی جگر میں لہو کی ذرا سی بوند…
رعنائی نگاہ کو قالب میں ڈھالیے
رعنائی نگاہ کو قالب میں ڈھالیے پتھر کے پیرہن سے سراپا نکالیے گزرا ہے دل سے جو رمِ آہُو سا اک خیال لازم ہے، اس…
آگ کے درمیان سے نکلا
آگ کے درمیان سے نکلا میں بھی کس امتحان سے نکلا پھر ہوا سے سُلگ اٹھے پتے پھر دھواں گلستان سے نکلا جب بھی نکلا…
شفق جو روئے سحر پر گلال ملنے لگی
شفق جو روئے سحر پر گلال ملنے لگی یہ بستیوں کی فضا کیوں دھواں اُگلنے لگی اسی لیے تو ہوا رو پڑی درختوں میں ابھی…
جہاں تلک یہ صحرا دکھائی دیتا ہے
جہاں تلک یہ صحرا دکھائی دیتا ہے مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے نہ اتنی تیز چلے، سرپھری ہوا سے کہو شجر پہ ایک…
خزاںکےچاندنے پوچھایہ جھک کےکھڑکی میں
خزاںکےچاندنے پوچھایہ جھک کےکھڑکی میں کبھی چراغ بھی جلتا ہے اس حویلی میں؟ یہ آدمی ہیں کہ سائے ہیں آدمیت کے گزر ہوا ہے مرا…
پھر سن رہا تھا گزرے زمانے کی چاپ کو
پھر سن رہا تھا گزرے زمانے کی چاپ کو بھولا ہوا تھا دیر سے میں اپنے آپ کو رہتے ہیں کچھ ملول سے چہرے پڑوس,…
عروس صبح سے آفاق ہمکنار سہی
عروس صبح سے آفاق ہمکنار سہی شکستِ سلسلئہ قیدِ انتظار سہی نگاہِ مہرِ جہاں تاب کیوں ہے شرمندہ شفق کا رنگ شہیدوں کی یادگار سہی…
چوٹ ہر گام پہ کھا کر جانا
چوٹ ہر گام پہ کھا کر جانا قربِ منزل کے لیے مر جانا ہم بھی کیا سادہ نظر رکھتے تھے سنگ ریزوں کو جواہر جانا…
عشق پیشہ نہ رہے داد کے حقدار یہاں
عشق پیشہ نہ رہے داد کے حقدار یہاں پیش آتے ہیں رُعونت سے جفا کار یہاں سر پٹک کر درِِ زنداں پہ صبا نے یہ…
خاموشی بول اٹھے، ہر نظر پیغام ہو جائے
خاموشی بول اٹھے، ہر نظر پیغام ہو جائے یہ سناٹا اگر حد سے بڑھے کہرام ہو جائے ستارے مشعلیں لیکر مجھےبھی ڈھونڈنے نکلیں میں رستہ…
کیا کہیے کہ اب اُس کی صدا تک نہیں آتی
کیا کہیے کہ اب اُس کی صدا تک نہیں آتی اونچی ہوں فصیلیں تو ہوا تک نہیں آتی شاید ہی کوئی آ سکے اس موڑ…
گُلوں میں حُسن، شگوفوں میں بانکپن ہو گا
گُلوں میں حُسن، شگوفوں میں بانکپن ہو گا وہ وقت دور نہیں جب چمن چمن ہو گا جہاں پہ آج بگولوں کا رقص جاری ہے…
وہ سامنے تھا پھر بھی کہاں سامنا ہوا
وہ سامنے تھا پھر بھی کہاں سامنا ہوا رہتا ہے اپنے نور میں سورج چھپا ہوا اے روشنی کی لہر، کبھی تو پلٹ کے آ…
میں شاخ سے اڑا تھا ستاروں کی آس میں
میں شاخ سے اڑا تھا ستاروں کی آس میں مرجھا کے آ گرا ہوں مگر سرد گھاس میں سوچو تو سلوٹوں سے بھری ہے تمام…
وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت
وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت میں اس گلی میں اکیلا تھا اور سائے بہت کسی کے سر پہ کبھی ٹوٹ کر گرا…
کنارے آب کھڑا خود سے کہہ رہا ہے کوئی
کنارے آب کھڑا خود سے کہہ رہا ہے کوئی گماں گزرتا ہے، یہ شخص دوسرا ہے کوئی ہوا نے توڑ کے پتا زمیں پہ پھینکا…
وہی جھکی ہوئی بیلیں، وہی دریچہ تھا
وہی جھکی ہوئی بیلیں، وہی دریچہ تھا مگر وہ پھول سا چہرہ نظر نہ آتا تھا میں لوٹ آیا ہوں خاموشیوں کے صحرا سے وہاں…
اُتر گیا تنِِ نازک سے پتیوں کا لباس
اُتر گیا تنِِ نازک سے پتیوں کا لباس کسی کے ہاتھ نہ آئی مگر گلاب کی باس اب اپنے جسم کے سائے میں تھک کے…
آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے
آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے جتنے اس پیڑ کے پھل تھے، پسِ دیوار گرے ایسی دہشت تھی فضائوں میں کھلے…