سراج لکھنوی
پھر بھی پیشانیٔ طوفاں پہ شکن باقی ہے
پھر بھی پیشانیٔ طوفاں پہ شکن باقی ہے ڈوبتے وقت بھی دیکھا نہ کنارہ ہم نے سراج لکھنوی
چند تنکوں کی سلیقے سے اگر ہو ترتیب
چند تنکوں کی سلیقے سے اگر ہو ترتیب بجلیوں کو بھی طواف آشیاں کرنا پڑے سراج لکھنوی
آنکھیں کھلیں تو جاگ اٹھیں حسرتیں تمام
آنکھیں کھلیں تو جاگ اٹھیں حسرتیں تمام اس کو بھی کھو دیا جسے پایا تھا خواب میں سراج لکھنوی
تجھے پا کے تجھ سے جدا ہو گئے ہم
تجھے پا کے تجھ سے جدا ہو گئے ہم کہاں کھو دیا تو نے کیا ہو گئے ہم محبت میں اک سانحا ہو گئے ہم…
خوشا وہ دور کہ جب مرکز نگاہ تھے ہم
خوشا وہ دور کہ جب مرکز نگاہ تھے ہم پڑا جو وقت تو اب کوئی روشناس نہیں سراج لکھنوی
عجب صورت سے دل گھبرا رہا ہے
عجب صورت سے دل گھبرا رہا ہے ہنسی کے ساتھ رونا آ رہا ہے مجھے دل سے بھلایا جا رہا ہے پسینے پر پسینا آ…
نہ کریدوں عشق کے راز کو مجھے احتیاط کلام ہے
نہ کریدوں عشق کے راز کو مجھے احتیاط کلام ہے مرا ذوق اتنا بلند ہے جہاں آرزو بھی حرام ہے فقط ایک رشتۂ مشترک خلش…
کافری میں بھی جو چاہت ہوگی
کافری میں بھی جو چاہت ہوگی کچھ تو ایماں کی شباہت ہوگی حشر ہے وعدۂ فردا تیرا آج کی رات قیامت ہوگی پوچھا پھر ہوگی…
نماز عشق پڑھی تو مگر یہ ہوش کسے
نماز عشق پڑھی تو مگر یہ ہوش کسے کہاں کہاں کئے سجدے کہاں قیام کیا سراج لکھنوی
قفس سے دور سہی موسم بہار تو ہے
قفس سے دور سہی موسم بہار تو ہے اسیرو آؤ ذرا ذکر آشیاں ہو جائے سراج لکھنوی
یہ جزر و مد ہے پاداش عمل اک دن یقینی ہے
یہ جزر و مد ہے پاداش عمل اک دن یقینی ہے نہ سمجھو خون انساں بہہ گیا ہے رائیگاں ہو کر سراج لکھنوی
ہر لغزش حیات پر اترا رہا ہوں میں
ہر لغزش حیات پر اترا رہا ہوں میں اور بے گناہیوں کی قسم کھا رہا ہوں میں ناز آفریں مرا بھی خرام نیاز دیکھ محشر…
اس دل میں تو خزاں کی ہوا تک نہیں لگی
اس دل میں تو خزاں کی ہوا تک نہیں لگی اس پھول کو تباہ کیا ہے بہار نے سراج لکھنوی
آنکھوں میں آج آنسو پھر ڈبڈبا رہے ہیں
آنکھوں میں آج آنسو پھر ڈبڈبا رہے ہیں ہم کل کی آستینیں اب تک سکھا رہے ہیں احساں جتا جتا کر نشتر لگا رہے ہیں…