اپنا خاکہ لگتا ہوں

اپنا خاکہ لگتا ہوں ایک تماشا لگتاہوں آئینوں کو زنگ لگا اب میں کیسا لگتا ہوں اب میں کوئی شخص نہیں اس کا سایا لگتا…

ادامه مطلب

یہ تیرے خط تری خوشبو یہ تیرے خواب و خیال

یہ تیرے خط تری خوشبو یہ تیرے خواب و خیال متاع جاں ہیں تیرے قول اور قسم کی طرح گزشتہ سال انھیں میں نے گن…

ادامه مطلب

وہ جو تھے رنگ میں سرشار کہاں ہیں جانے

وہ جو تھے رنگ میں سرشار کہاں ہیں جانے زخم داران رہ دار کہاں ہیں جانے ہر طرف شہر غم یار میں سناٹا ہے شور…

ادامه مطلب

ہے عجب حال یہ زمانے کا

ہے عجب حال یہ زمانے کا یاد بھی طور ہے بھُلانے کا پسند آیا ہمیں بہت پیشہ خود ہی اپنے گھروں کو ڈھانے کا کاش…

ادامه مطلب

ہم جو گاتے چلے گئے ہوں گے

ہم جو گاتے چلے گئے ہوں گے زخم کھاتے چلے گئے ہوں گے تھا ستم بار بار کا ملنا لوگ بھاتے چلے گئے ہوں گے…

ادامه مطلب

نہیں نباہی خوشی سے غمی کو چھوڑ دیا

نہیں نباہی خوشی سے غمی کو چھوڑ دیا تمہارے بعد بھی میں نے کئی کو چھوڑ دیا ہوں جو بھی جان کی جاں وہ گمان…

ادامه مطلب

میرے مطلوب و مدعا، تو جا

میرے مطلوب و مدعا، تو جا تجھ سے مطلب نہیں ہے جا، تو جا اب شہادت ہوس ہے یاروں کو ہوش معزول ہو رہا ،…

ادامه مطلب

مسکنِ ماہ و سال چھوڑ گیا

مسکنِ ماہ و سال چھوڑ گیا دِل کو اُس کا خیال چھوڑگیا تازہ دم جسم و جاں تھے فرقت میں وصل، اُس کا نِڈھال چھوڑ…

ادامه مطلب

مجھ کو شبِ وجود میں تابشِ خواب چاہیے

مجھ کو شبِ وجود میں تابشِ خواب چاہیے شوقِ خیال تازہ ہے یعنی عذاب چاہیے آج شکستِ ذات کی شام ہے مجھ کو آج شام…

ادامه مطلب

لَوحِ رجز

لَوحِ رجز دوام ! ژولیدہ سوہولیوں کی سرکشی رقص کر رہی ہے جگر کو خوں کر کے محنتوں کی خود آگہی رقص کر رہی ہے…

ادامه مطلب

گنوائی کس کی تمنا میں زندگی میں نے

گنوائی کس کی تمنا میں زندگی میں نے وہ کون ہے جسے دیکھا نہیں کبھی میں نے ترا خیال تو ہے پر ترا وجود نہیں…

ادامه مطلب

کوئی حالت نہیں یہ حالت ہے

کوئی حالت نہیں یہ حالت ہے یہ تو آشوب ناک صورت ہے انجمن میں یہ میری خاموشی بُردباری نہیں ہے وحشت ہے طنز پیرایہء تبسم…

ادامه مطلب

کچھ کہوں، کچھ سنوں، ذرا ٹھہرو

کچھ کہوں، کچھ سنوں، ذرا ٹھہرو ابھی زندوں میں ہوں، ذرا ٹھہرو منظرِ جشنِ قتلِ عام کو میں جھانک کر دیکھ لوں، ذرا ٹھہرو مت…

ادامه مطلب

قطعہ

قطعہ ہے ضرورت بہت توجہ کی یاد آؤ تو کم نہ یاد آؤ چاہیے مجھ کو جان و دل کا سکوں میرے حق میں عذاب…

ادامه مطلب

طفلانِ کوچہ گرد کے پتھر بھی کچھ نہیں

طفلانِ کوچہ گرد کے پتھر بھی کچھ نہیں سودا بھی ایک وہم ہے اور سَر بھی کچھ نہیں میں اور خود کو تجھ سے چھپاؤں…

ادامه مطلب

شاخِ اُمید جل گئی ہو گی

شاخِ اُمید جل گئی ہو گی دل کی حالت سنبھل گئی ہو گی جونؔ! اس آن تک بخیر ہوں میں ہوں میں زندگی داؤ چَل…

ادامه مطلب

سرکار! اب جنوں کی ہے سرکار کچھ سُنا

سرکار! اب جنوں کی ہے سرکار کچھ سُنا ہیں بند سارے شہر کے بازار کچھ سُنا شہر قلندراں کا ہوا ہے عجیب طور سب ہیں…

ادامه مطلب

زندگی سے بہت بدظن ہیں

زندگی سے بہت بدظن ہیں کاش! اک بار مر گئے ہوتے مرہم یاس یاد ہی نہ رہا اب تلک زخم بھر گئے ہوتے اجتہاد ِ…

ادامه مطلب

رنگ ہے رنگ سے تہی، اس کا شمار کیا بھلا

رنگ ہے رنگ سے تہی، اس کا شمار کیا بھلا سب یہ ہنر ہے دید کا، نقش و نگار کیا بھلا دائرہ ءِ نگاہ میں…

ادامه مطلب

دید کی ایک آن میں کارِ دوام ہو گیا

دید کی ایک آن میں کارِ دوام ہو گیا وہ بھی تمام ہوگیا، میں بھی تمام ہوگیا اب میں ہوں اک عذاب میں اور عجب…

ادامه مطلب

دل نے جاناں کو جو شب نامہِ ہجراں لکھا

دل نے جاناں کو جو شب نامہِ ہجراں لکھا اشکِ خونیں کا چراغاں، سرِ مژگاں لکھا اے ہوس! میں نے تری بے سروسامانی میں اک…

ادامه مطلب

دل جو دیوانہ نہیں آخر کو دیوانہ بھی تھا

دل جو دیوانہ نہیں آخر کو دیوانہ بھی تھا بھُولنے پر اس کو جب آیا تو پہچانا بھی تھا جانیے کس شوق میں رشتے بچھڑ…

ادامه مطلب

خود سے ہر دم ترا سفر چاہوں

خود سے ہر دم ترا سفر چاہوں تجھ زبانی تری خبر چاہوں میں تجھے اور تو ہے کیا کیا کچھ ہوں اکیلا پہ رات بھر…

ادامه مطلب

حال خوش تذکرہ نگاروں کا

حال خوش تذکرہ نگاروں کا تھا تو اک شہر خاکساروں کا پہلے رہتے تھے کوچۂ دل میں اب پتہ کیا ہے دل فگاروں کا کوئے…

ادامه مطلب

جو حال خیز ہو دل کا وہ حال ہے بھی نہیں

جو حال خیز ہو دل کا وہ حال ہے بھی نہیں فغاں کہ اب وہ ملالِ ملال ہے بھی نہیں تُو آ کے بے سروکارانہ…

ادامه مطلب

تیز رو، جنگلوں کی رات اور میں

تیز رو، جنگلوں کی رات اور میں جانے اس وقت کیا بجا ہو گا اُس کی دوری میں ہیں سفر درپیش جو مری راہ دیکھتا…

ادامه مطلب

تمہاری یاد سے جب ہم گزرنے لگتے ہیں

تمہاری یاد سے جب ہم گزرنے لگتے ہیں جو کوئی کام نہ ہو بس وہ کرنے لگتے ہیں تمہارے آئینۂ ذات کے تصور میں ہم…

ادامه مطلب

تشنگی نے سراب ہی لکھا

تشنگی نے سراب ہی لکھا خواب دیکھا تھا خواب ہی لکھا ہم نے لکھا نصابِ تیرہ شبی اور بہ صد آب و تاب ہی لکھا…

ادامه مطلب

بے یک نگاہ بے شوق بھی، اندازہ ہے، سو ہے

بے یک نگاہ بے شوق بھی، اندازہ ہے، سو ہے با صد ہزار رنگ، وہ بے غازہ ہے، سو ہے ہوں شامِ حال یک طرفہ…

ادامه مطلب

بڑا احسان ہم فرما رہے ہیں

بڑا احسان ہم فرما رہے ہیں کہ اُن کے خط انہیں لوٹا رہے ہیں نہیں ترکِ محبت پر وہ راضی قیامت ہے کہ ہم سمجھا…

ادامه مطلب

ایک گروہ

ایک گروہ ایک گروہ ہے کہ ہے، بے حضر اور بے سفر ایک بریدہ پا نمود، ایک بریدہ سر وجود اپنے سوال کا زیاں، اپنے…

ادامه مطلب

ان کے رخ کو حیا کی سرخی کا

ان کے رخ کو حیا کی سرخی کا ایک پیغام آنے والا ہے بس وہ گھبرائے، بس وہ شرمائے اب مرا نام آنے والا ہے…

ادامه مطلب

اس کے اور اپنے درمیان میں اب

اس کے اور اپنے درمیان میں اب کیا ہے بس روبرو کا رشتہ ہے ہائے وہ رشتہ ہائے خاموشی اب فقط گفتگو کا رشتہ ہے

ادامه مطلب

آپ کو تلخ نوائی کی ضرورت ہی نہیں

آپ کو تلخ نوائی کی ضرورت ہی نہیں میں تو ہر وقت ہی مایوس کرم رہتا ہوں آپ سے مجھ کو ہے اک نسبت احساس…

ادامه مطلب

یہ تو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے میعادِ ستم

یہ تو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے میعادِ ستم جُز حریفانِ ستم کس کو پکارا جائے وقت نے ایک ہی نکتہ تو کیا ہے تعلیم…

ادامه مطلب

وہ جو تھا وہ کبھی ملا ہی نہیں

وہ جو تھا وہ کبھی ملا ہی نہیں سو گریباں کبھی سلا ہی نہیں اس سے ہر دم معاملہ ہے مگر درمیاں کوئی سلسلہ ہی…

ادامه مطلب

ہے طرفہ قیامت جو ہم دیکھتے ہیں

ہے طرفہ قیامت جو ہم دیکھتے ہیں ترے رُخ پہ آثارِ غم دیکھتے ہیں غضب ہے نشیب و فرازِ زمانہ نہ تم دیکھتے ہو، نہ…

ادامه مطلب

ہم رہے پر نہیں رہے آباد

ہم رہے پر نہیں رہے آباد یاد کے گھر نہیں رہے آباد کتنی آنکھیں ہوئی ہلاک ِ نظر کتنے منظر نہیں رہے آباد ہم کہ…

ادامه مطلب

نہ ہوا نصیب قرارِ جاں، ہوسِ قرار بھی اب نہیں

نہ ہوا نصیب قرارِ جاں، ہوسِ قرار بھی اب نہیں ترا انتظار بہت کیا، ترا انتظار بھی اب نہیں تجھے کیا خبر مہ و سال…

ادامه مطلب

میں بے حساب سودو زیاں، کیا کروں بھلا

میں بے حساب سودو زیاں، کیا کروں بھلا کوئی یقین ہے نہ گماں، کیا کروں بھلا منزل جو اپنے دل کی تھی، خود دل میں…

ادامه مطلب

مسند غم پہ جچ رہا ہوں میں

مسند غم پہ جچ رہا ہوں میں اپنا سینہ کھرچ رہا ہوں میں اے سگان گرسنہِ ایام جوں غذا تم کو پچ رہا ہوں میں…

ادامه مطلب

مجھ کو بیگانہ کر گئے مرے دن

مجھ کو بیگانہ کر گئے مرے دن مجھ سے ہو کر گزر گئے مرے دن اب نہ کوئی دن مرے گھر جائے گا جانے کس…

ادامه مطلب

لَوحِ طمع

لَوحِ طمع ملامتوں اور نفرتوں کے سوا مرے پاس اور کیا ہے اور اِن دیاروں میں جو بھی رمز آگہی کے ایما پہ اپنا سینہ…

ادامه مطلب

گھر سے ہم گھر تلک گئے ہوں گے

گھر سے ہم گھر تلک گئے ہوں گے اپنے ہی آپ تک گئے ہوں گے ہم جو اب آدمی ہیں پہلے کبھی جام ہوں گے…

ادامه مطلب

کوئی نہیں یہاں خموش، کوئی پکارتا نہیں

کوئی نہیں یہاں خموش، کوئی پکارتا نہیں شہر میں ایک شور ہے اور کوئی صدا نہیں آج وہ پڑھ لیا گیا جس کو پڑھا نہ…

ادامه مطلب

کچھ بھی ہوا پر اپنے ساتھ اپنی گذر تو ہو گئی

کچھ بھی ہوا پر اپنے ساتھ اپنی گذر تو ہو گئی چاہے کسی طرح ہوئی، عمر بسر تو ہو گئی اس کا نہ تھا کوئی…

ادامه مطلب

غم ہے بے ماجرا کئی دن سے

غم ہے بے ماجرا کئی دن سے جی نہیں لگ رہا کئی دن سے بے شمیمِ ملال و حیراں ہے خیمہ گاہِ صبا کئی دن…

ادامه مطلب

طعنوں کے وار اپنا اثر کر گئے ہیں کیا

طعنوں کے وار اپنا اثر کر گئے ہیں کیا اے بے لحاظ ! زخمِ عبث بھر گئے ہیں کیا اب شہر یار سے کوئی پُرسش…

ادامه مطلب

سُوفطا

سُوفطا وہ جو ہے، وہ مجھے میرے شائستہ افکار میرے ستودہ خیالات سے باز رکھنے کی کوشش میں ہر لمحہ سرگرم رہتا ہے کل رات…

ادامه مطلب

سر گرداں

سر گرداں (یوحنا کے نام) میری محروم روح نے اب تک نسل ہا نسل کا عذاب سہا تھی وہ اک جانکنی کی تنہائی جس میں…

ادامه مطلب