جلال لکھنوی
میں نے پوچھا کہ ہے کیا شغل تو ہنس کر بولے
میں نے پوچھا کہ ہے کیا شغل تو ہنس کر بولے آج کل ہم تیرے مرنے کی دعا کرتے ہیں جلال لکھنوی
کیوں وصل میں بھی آنکھ ملائی نہیں جاتی
کیوں وصل میں بھی آنکھ ملائی نہیں جاتی وہ فرق دلوں کا وہ جدائی نہیں جاتی کیا دھوم بھی نالوں سے مچائی نہیں جاتی سوتی…
یاد آ کے تری ہجر میں سمجھائے گی کس کو
یاد آ کے تری ہجر میں سمجھائے گی کس کو دل ہی نہیں سینہ میں تو بہلائے گی کس کو دم کھنچتا ہے کیوں آج…
وہ دل نصیب ہوا جس کو داغ بھی نہ ملا
وہ دل نصیب ہوا جس کو داغ بھی نہ ملا ملا وہ غم کدہ جس میں چراغ بھی نہ ملا گئی تھی کہہ کے میں…
پہنچے نہ وہاں تک یہ دعا مانگ رہا ہوں
پہنچے نہ وہاں تک یہ دعا مانگ رہا ہوں قاصد کو ادھر بھیج کے دھیان آئے ہے کیا کیا جلال لکھنوی
تصور ہم نے جب تیرا کیا پیش نظر پایا
تصور ہم نے جب تیرا کیا پیش نظر پایا تجھے دیکھا جدھر دیکھا تجھے پایا جدھر پایا کہاں ہم نے نہ اس درد نہانی کا…
جانے والا اضطراب دل نہیں
جانے والا اضطراب دل نہیں یہ تڑپ تسکین کے قابل نہیں جان دے دینا تو کچھ مشکل نہیں جان کا خواہاں مگر اے دل نہیں…
ٹپکے نہیں قلم کے فقط اشک نامہ پر
ٹپکے نہیں قلم کے فقط اشک نامہ پر وہ کچھ لکھا کہ روئی سیاہی بھی پھوٹ کر جلال لکھنوی
عشق کی چوٹ کا کچھ دل پہ اثر ہو تو سہی
عشق کی چوٹ کا کچھ دل پہ اثر ہو تو سہی درد کم ہو یا زیادہ ہو مگر ہو تو سہی جلال لکھنوی
شب وعدہ ہے تو ہے اور میں ہوں
شب وعدہ ہے تو ہے اور میں ہوں ہجوم آرزو ہے اور میں ہوں دل بیگانہ خو ہے اور میں ہوں بغل میں اک عدو…
کیا گم ہم نے دل کو جستجو میں داغ حسرت کی
کیا گم ہم نے دل کو جستجو میں داغ حسرت کی کسی کو پا کے کھو بیٹھے کسی کو ڈھونڈھ کر پایا جلال لکھنوی
گئی تھی کہہ کے میں لاتی ہوں زلف یار کی بو
گئی تھی کہہ کے میں لاتی ہوں زلف یار کی بو پھری تو باد صبا کا دماغ بھی نہ ملا جلال لکھنوی
گریباں کو جنوں میں تا بہ دامن چاک ہونا تھا
گریباں کو جنوں میں تا بہ دامن چاک ہونا تھا جواب جادۂ صحرائے وحشت ناک ہونا تھا تغافل کے گلے سن کر جھکا لیں تم…
نہ خوف آہ بتوں کو نہ ڈر ہے نالوں کا
نہ خوف آہ بتوں کو نہ ڈر ہے نالوں کا بڑا کلیجہ ہے ان دل دکھانے والوں کا جلال لکھنوی