کلیم عاجز
بڑی طلب تھی بڑا انتظار دیکھو تو
بڑی طلب تھی بڑا انتظار دیکھو تو بہار لائی ہے کیسی بہار دیکھو تو یہ کیا ہوا کہ سلامت نہیں کوئی دامن چمن میں پھول…
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو کلیم عاجز
کیا غم ہے اگر شکوۂ غم عام ہے پیارے
کیا غم ہے اگر شکوۂ غم عام ہے پیارے تو دل کو دکھا تیرا یہی کام ہے پیارے تیرے ہی تبسم کا سحر نام ہے…
ہم کو تو بے سوال ملے بے طلب ملے
ہم کو تو بے سوال ملے بے طلب ملے ہم وہ نہیں ہیں ساقی کہ جب مانگیں تب ملے فریاد ہی میں عہد بہاراں گزر…
بھولے سے کوئی نام وفا کا نہیں لیتا
بھولے سے کوئی نام وفا کا نہیں لیتا دنیا کو ابھی یاد ہے انجام ہمارا کلیم عاجز
رکھنا ہے کہیں پاؤں تو رکھو ہو کہیں پاؤں
رکھنا ہے کہیں پاؤں تو رکھو ہو کہیں پاؤں چلنا ذرا آیا ہے تو اترائے چلو ہو کلیم عاجز
مت برا اس کو کہو گرچہ وہ اچھا بھی نہیں
مت برا اس کو کہو گرچہ وہ اچھا بھی نہیں وہ نہ ہوتا تو غزل میں کبھی کہتا بھی نہیں جانتا تھا کہ ستم گر…
ہم کو معلوم نہ تھا پہلے یہ آئین جہاں
ہم کو معلوم نہ تھا پہلے یہ آئین جہاں اس کو دیتے ہیں سزا جس کی خطا کچھ بھی نہیں کلیم عاجز
تلخیاں اس میں بہت کچھ ہیں مزا کچھ بھی نہیں
تلخیاں اس میں بہت کچھ ہیں مزا کچھ بھی نہیں زندگی درد محبت کے سوا کچھ بھی نہیں شمع خاموش بھی رہتے ہوئے خاموش کہاں…
دھڑکتا جاتا ہے دل مسکرانے والوں کا
دھڑکتا جاتا ہے دل مسکرانے والوں کا اٹھا نہیں ہے ابھی اعتبار نالوں کا یہ مختصر سی ہے روداد صبح مے خانہ زمیں پہ ڈھیر…
لپٹ لپٹ کے گلے مل رہے تھے خنجر سے
لپٹ لپٹ کے گلے مل رہے تھے خنجر سے بڑے غضب کا کلیجہ تھا مرنے والوں کا کلیم عاجز
وقت کے در پر بھی ہے بہت کچھ وقت کے در سے آگے
وقت کے در پر بھی ہے بہت کچھ وقت کے در سے آگے بھی شام و سحر کے ساتھ بھی چلئے شام و سحر سے…
تری بے رخی پہ ظالم مرا جی یہ چاہتا ہے
تری بے رخی پہ ظالم مرا جی یہ چاہتا ہے کہ وفا کا میرے لب پر کبھی نام تک نہ پہنچے کلیم عاجز
زندگی مائل فریاد و فغاں آج بھی ہے
زندگی مائل فریاد و فغاں آج بھی ہے کل بھی تھا سینے پہ اک سنگ گراں آج بھی ہے دل افسردہ کو پہلو میں لئے…
مجھے اس کا کوئی گلہ نہیں کہ بہار نے مجھے کیا
مجھے اس کا کوئی گلہ نہیں کہ بہار نے مجھے کیا دیا تری آرزو تو نکال دی ترا حوصلہ تو بڑھا دیا گو ستم نے…