میر تقی میر
ٹپکتی پلکوں سے رومال جس گھڑی سرکا
ٹپکتی پلکوں سے رومال جس گھڑی سرکا طرف ہوا نہ کبھو ابر دیدۂ تر کا کبھو تو دیر میں ہوں میں کبھو ہوں کعبے میں…
تو گلی میں اس کی جا آ ولے اے صبا نہ چنداں
تو گلی میں اس کی جا آ ولے اے صبا نہ چنداں کہ گڑے ہوئے پھر اکھڑیں دل چاک درد منداں ترے تیر ناز کے…
تکیے میں اپنے دل کا ہم غم کیا کریں ہیں
تکیے میں اپنے دل کا ہم غم کیا کریں ہیں درویش کتنے ماتم باہم کیا کریں ہیں جب نام دل کا کوئی لے بیٹھتا ہے…
تری راہ میں گرچہ اے ماہ ہوں
تری راہ میں گرچہ اے ماہ ہوں پہ یہ غم ہے میں بھی سر راہ ہوں مرے در پئے خون ناحق ہے تو نہ خوندار…
تجھ سے دوچار ہو گا جو کوئی راہ جاتے
تجھ سے دوچار ہو گا جو کوئی راہ جاتے پھر عمر چاہیے گی اس کو بحال آتے گر دل کی بے قراری ہوتی یہی جو…
پیغام غم جگر کا گلزار تک نہ پہنچا
پیغام غم جگر کا گلزار تک نہ پہنچا نالہ مرا چمن کی دیوار تک نہ پہنچا اس آئینے کے مانند زنگار جس کو کھاوے کام…
پھرتے پھرتے اس کے لیے میں آخر دشت نورد ہوا
پھرتے پھرتے اس کے لیے میں آخر دشت نورد ہوا دیکھ آنکھیں وہ سرمہ گیں میں پھر دنبالہ گرد ہوا جیتے جی میت کے رنگوں…
پر نہیں جو اڑ کے اس در جایئے
پر نہیں جو اڑ کے اس در جایئے زندگانی حیف ہے مر جایئے کچھ نہیں تو شعر ہی کی فکر کر آئے ہیں جو یاں…
بے مہر و وفا ہے وہ کیا رسم وفا جانے
بے مہر و وفا ہے وہ کیا رسم وفا جانے الفت سے محبت سے مل بیٹھنا کیا جانے دل دھڑکے ہے جاتے کچھ بت خانے…
بھلا ہوا کہ دل مضطرب میں تاب نہیں
بھلا ہوا کہ دل مضطرب میں تاب نہیں بہت ہی حال برا ہے اب اضطراب نہیں جگر کا لوہو جو پانی ہو بہ نکلتا تھا…
بندہ ہے یا خدا نہیں اس دلربا کے ساتھ
بندہ ہے یا خدا نہیں اس دلربا کے ساتھ دیر و حرم میں ہو کہیں ہوہے خدا کے ساتھ ملتا رہا کشادہ جبیں خوب و…
برقعے کو اٹھا چہرے سے وہ بت اگر آوے
برقعے کو اٹھا چہرے سے وہ بت اگر آوے اللہ کی قدرت کا تماشا نظر آوے اے ناقۂ لیلیٰ دو قدم راہ غلط کر مجنون…
باہر چلنے میں آبادی سے کر نہ تغافل یار بہت
باہر چلنے میں آبادی سے کر نہ تغافل یار بہت دشتی وحش و طیر آئے ہیں ہونے تیرے شکار بہت دعویٰ عاشق بیچارے کا کون…
بات کہو کیا چپکے چپکے بیٹھ رہو ہو یاں آ کر
بات کہو کیا چپکے چپکے بیٹھ رہو ہو یاں آ کر ایسے گونگے بیٹھو ہو تم تو بیٹھیے اپنے گھر جا کر دل کا راز…
ایک آن اس زمانے میں یہ دل نہ وا ہوا
ایک آن اس زمانے میں یہ دل نہ وا ہوا کیا جانیے کہ میرؔ زمانے کو کیا ہوا دکھلاتے کیا ہو دست حنائی کا مجھ…
آیا نہ پھر ادھر وہ مست شراب ہو کر
آیا نہ پھر ادھر وہ مست شراب ہو کر کیا پھول مر گئے ہیں اس بن خراب ہو کر صید زبوں میں میرے یک قطرہ…
اے تازہ نہال عاشقی کے مالی
اے تازہ نہال عاشقی کے مالی یہ تونے طرح ناز کی کیسی ڈالی سب تجھ سے جہاں بھرا ہے تس کے اوپر دیکھیں ہیں کہ…
آہ اور اشک ہی سدا ہے یاں
آہ اور اشک ہی سدا ہے یاں روز برسات کی ہوا ہے یاں جس جگہ ہو زمین تفتہ سمجھ کہ کوئی دل جلا گڑا ہے…
آنسو مری آنکھوں میں ہر دم جو نہ آ جاتا
آنسو مری آنکھوں میں ہر دم جو نہ آ جاتا تو کام مرا اچھا پردے میں چلا جاتا اصلح ہے حجاب اس کا ہم شوق…
الم سے یاں تئیں میں مشق ناتوانی کی
الم سے یاں تئیں میں مشق ناتوانی کی کہ میری جان نے تن پر مرے گرانی کی چمن کا نام سنا تھا ولے نہ دیکھا…
آگ سا تو جو ہوا اے گل تر آن کے بیچ
آگ سا تو جو ہوا اے گل تر آن کے بیچ صبح کی باؤ نے کیا پھونک دیا کان کے بیچ ہم نہ کہتے تھے…
اس موج خیز دہر میں تو ہے حباب سا
اس موج خیز دہر میں تو ہے حباب سا آنکھیں کھلیں تری تو یہ عالم ہے خواب سا برقع اٹھا کے دیکھے ہے منھ سے…
اس کا خیال چشم سے شب خواب لے گیا
اس کا خیال چشم سے شب خواب لے گیا قسمے کہ عشق جی سے مرے تاب لے گیا کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے…
اس بد زباں نے صرف سخن آہ کب کیا
اس بد زباں نے صرف سخن آہ کب کیا چپکے ہی چپکے ان نے ہمیں جاں بلب کیا طاقت سے میرے دل کی خبر تجھ…
آخر ہماری خاک بھی برباد ہو گئی
آخر ہماری خاک بھی برباد ہو گئی اس کی ہوا میں ہم پہ تو بیداد ہو گئی مدت ہوئی نہ خط ہے نہ پیغام ہے…
آج کل کاہے کو بتلاتے ہو گستاخی معاف
آج کل کاہے کو بتلاتے ہو گستاخی معاف راستی یہ ہے کہ وعدے ہیں تمھارے سب خلاف آہ برچھی سی لگی تھی تیر سی دل…
آتش کے شعلے سر سے ہمارے گذر گئے
آتش کے شعلے سر سے ہمارے گذر گئے بس اے تب فراق کہ گرمی میں مر گئے منزل نہ کر جہاں کو کہ ہم نے…
اب ہوسناک ہی مردم ہیں ترے یاروں میں
اب ہوسناک ہی مردم ہیں ترے یاروں میں ہم جو عاشق ہیں سو ٹھہرے ہیں گنہگاروں میں کوچۂ یار تو ہے غیرت فردوس ولے آدمی…
اب صوم و صلوٰۃ سے بھی جی ہے بیزار
اب صوم و صلوٰۃ سے بھی جی ہے بیزار اب ورد وظائف سے کیا استغفار عقدے نہ کھلے دل کے بسان تسبیح اسماے الٰہی بھی…
کل سے دل کی کل بگڑی ہے جی مارا بے کل ہو کر
کل سے دل کی کل بگڑی ہے جی مارا بے کل ہو کر آج لہو آنکھوں میں آیا درد و غم سے رو رو کر…
یہ چوٹ کھائی ایسی دل پر کہ جی گنوایا
یہ چوٹ کھائی ایسی دل پر کہ جی گنوایا یعنی جدائی کا ہم صدمہ بڑا اٹھایا مدت میں وہ ہوا شب ہم بستر آ کے…
یاری کرے جو چاہے کسو سے غم ہی غم یاری میں ہے
یاری کرے جو چاہے کسو سے غم ہی غم یاری میں ہے بے موقع یاں آہ و فغاں ہے بے اثری زاری میں ہے ہاتھ…
یاد ایامے کہ ہنگامہ رہا کرتا تھا رات
یاد ایامے کہ ہنگامہ رہا کرتا تھا رات شور و شر سے میرے اک فتنہ رہا کرتا تھا رات
وہ نہیں اب کہ فریبوں سے لگا لیتے ہیں
وہ نہیں اب کہ فریبوں سے لگا لیتے ہیں ہم جو دیکھیں ہیں تو وے آنکھ چھپا لیتے ہیں کچھ تفاوت نہیں ہستی و عدم…
وہ اب ہوا ہے اتنا کہ جور و جفا کرے
وہ اب ہوا ہے اتنا کہ جور و جفا کرے افسوس ہے جو عمر نہ میری وفا کرے ہجران یار ایک مصیبت ہے ہم نشیں…
وابستہ دلبروں کے خاموش ہیں ہمیشہ
وابستہ دلبروں کے خاموش ہیں ہمیشہ ان ساحروں نے ایسے منھ عاشقوں کے باندھے
ہوں نشاں کیوں نہ تیر خوباں کا
ہوں نشاں کیوں نہ تیر خوباں کا مجھ پہ تودہ ہوا ہے طوفاں کا ہاتھ زنجیر ہو جنوں میں رہا اپنے زنجیرۂ گریباں کا چپکے…
ہنس دے ہے دیکھتے ہی کیا خوب آدمی ہے
ہنس دے ہے دیکھتے ہی کیا خوب آدمی ہے معشوق بھی ہمارا محبوب آدمی ہے انسان ہو جو کچھ ہے ادراک سرلولاک ناداں زمیں زماں…
ہم میرؔ سے کہتے ہیں نہ تو رویا کر
ہم میرؔ سے کہتے ہیں نہ تو رویا کر ہنس کھیل کے ٹک چین سے بھی سویا کر پایا نہیں جانے کا وہ در نایاب…
ہم رہن بادہ جامۂ احرام کر چکے
ہم رہن بادہ جامۂ احرام کر چکے مستی کی دیر میں قسم اقسام کر چکے جامہ ہی وجہ مے میں ہمارا نہیں گیا دستار و…
ہم آپ ہی کو اپنا مقصود جانتے ہیں
ہم آپ ہی کو اپنا مقصود جانتے ہیں اپنے سوائے کس کو موجود جانتے ہیں عجز و نیاز اپنا اپنی طرف ہے سارا اس مشت…
ہر چند میرے حق میں کب اس کا ستم نہیں
ہر چند میرے حق میں کب اس کا ستم نہیں پر اس ستم سے با مزہ لطف و کرم نہیں درویش جو ہوئے تو گیا…
نئی گردش ہے اس کی ہر زماں میں
نئی گردش ہے اس کی ہر زماں میں خلل سا ہے دماغ آسماں میں ہوا تن ضعف سے ایسا کہے تو کہ اب جی ہی…
نہ گیا خیال زلف سیہ جفا شعاراں
نہ گیا خیال زلف سیہ جفا شعاراں نہ ہوا کہ صبح ہووے شب تیرہ روزگاراں نہ کہا تھا اے رفوگر ترے ٹانکے ہوں گے ڈھیلے…
نہ باتیں کرو سرگرانی کے ساتھ
نہ باتیں کرو سرگرانی کے ساتھ مری زیست ہے مہربانی کے ساتھ نہ اٹھ کر در یار سے جاسکے یہ کم لطف ہے ناتوانی کے…
ناگاہ جس کو عشق کا آزار ہو گیا
ناگاہ جس کو عشق کا آزار ہو گیا سہل آگے اس کے مردن دشوار ہو گیا ہے حسن کیا متاع کہ جس کو نظر پڑی…
میں غش کیا جو خط لے ادھر نامہ بر چلا
میں غش کیا جو خط لے ادھر نامہ بر چلا یعنی کہ فرط شوق سے جی بھی ادھر چلا سدھ لے گئی تری بھی کوئی…
میر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی
میر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی خاطر بادیہ سے دیر میں جاوے گی کہیں خاک…