میر تقی میر
ترا اے ناتوانی جو کوئی عالم میں رسوا ہے
ترا اے ناتوانی جو کوئی عالم میں رسوا ہے توانائی کا منھ دیکھا نہیں ان نے کہ کیسا ہے نیاز ناتواں کیا ناز سرو قد…
تابوت مرا دیر اٹھا اس کی گلی سے
تابوت مرا دیر اٹھا اس کی گلی سے اثبات ہوا جرم محبت کا اسی سے تم چھیڑتے ہو بزم میں مجھ کو تو ہنسی سے…
پیری میں بے دنداں ہو بیٹھے پر افسوس یہ ہم کو رہا
پیری میں بے دنداں ہو بیٹھے پر افسوس یہ ہم کو رہا دانت تمھارے منھ میں کے ہیں اس مغرور نے یوں نہ کہا کیا…
پھر اب چلو چمن میں کھلے غنچے رک گئے
پھر اب چلو چمن میں کھلے غنچے رک گئے شاخوں سمیت پھول نہالوں کے جھک گئے چندیں ہزار دیدۂ گل رہ گئے کھلے افسوس ہے…
بیگانہ وضع برسوں اس شہر میں رہا ہوں
بیگانہ وضع برسوں اس شہر میں رہا ہوں بھاگوں ہوں دور سب سے میں کس کا آشنا ہوں پوچھا کیے ہیں مجھ سے گل برگ…
بے کلی بے خودی کچھ آج نہیں
بے کلی بے خودی کچھ آج نہیں ایک مدت سے وہ مزاج نہیں درد اگر یہ ہے تو مجھے بس ہے اب دوا کی کچھ…
بہتوں کو آگے تھا یہی آزار عشق کا
بہتوں کو آگے تھا یہی آزار عشق کا جیتا رہا ہے کوئی بھی بیمار عشق کا بے پردگی بھی چاہ کا ہوتا ہے لازمہ کھلتا…
بلبل نے کل کہا کہ بہت ہم نے کھائے گل
بلبل نے کل کہا کہ بہت ہم نے کھائے گل لیکن ہزار حیف نہ ٹھہری ہوائے گل رعنا جوان شہر کے رہتے ہیں گل بسر…
برنگ بوئے گل اس باغ کے ہم آشنا ہوتے
برنگ بوئے گل اس باغ کے ہم آشنا ہوتے کہ ہمراہ صبا ٹک سیر کرتے پھر ہوا ہوتے سراپا آرزو ہونے نے بندہ کر دیا…
بالقوہ ٹک دکھایئے چشم پر آب کا
بالقوہ ٹک دکھایئے چشم پر آب کا دامن پکڑ کے رویئے یک دم سحاب کا جو کچھ نظر پڑے ہے حقیقت میں کچھ نہیں عالم…
آئے ہیں میرؔ منھ کو بنائے خفا سے آج
آئے ہیں میرؔ منھ کو بنائے خفا سے آج شاید بگڑ گئی ہے کچھ اس بے وفا سے آج وا شد ہوئی نہ دل کو…
ایسی گلی اک شہر اسلام نہیں رکھتا
ایسی گلی اک شہر اسلام نہیں رکھتا جس کوچے میں وہ بت صد بدنام نہیں رکھتا آزار نہ دے اپنے کانوں کے تئیں اے گل…
اے مجھ سے تجھ کو سو ملے تجھ سا نہ پایا ایک میں
اے مجھ سے تجھ کو سو ملے تجھ سا نہ پایا ایک میں سو سو کہیں تو نے مجھے منھ پر نہ لایا ایک میں…
اے ابر تر تو اور کسی سمت کو برس
اے ابر تر تو اور کسی سمت کو برس اس ملک میں ہماری ہے یہ چشم تر ہی بس حرماں تو دیکھ پھول بکھیرے تھی…
آنکھیں نہیں یاں کھلتیں ایدھر کو نظر بھی ہے
آنکھیں نہیں یاں کھلتیں ایدھر کو نظر بھی ہے سدھ اپنی نہیں ہم کو کچھ تم کو خبر بھی ہے گو شکل ہوائی کی سر…
انجام دل غم کش کوئی عشق میں کیا جانے
انجام دل غم کش کوئی عشق میں کیا جانے کیا جانیے کیا ہو گا آخر کو خدا جانے واں آرسی ہے وہ ہے یاں سنگ…
آگے ہمارے عہد سے وحشت کو جا نہ تھی
آگے ہمارے عہد سے وحشت کو جا نہ تھی دیوانگی کسو کی بھی زنجیر پا نہ تھی بیگانہ سا لگے ہے چمن اب خزاں میں…
اک آدھ دن نکل مت اے ابر ادھر سے ہو کر
اک آدھ دن نکل مت اے ابر ادھر سے ہو کر بیٹھا ہوں میں ابھی ٹک سارا جہاں ڈبو کر اب کل نہیں ہے تجھ…
اس مغرور کو کیا ہوتا ہے حال شکستہ دکھائے سے
اس مغرور کو کیا ہوتا ہے حال شکستہ دکھائے سے جس کو شبہ ہووے نہ ہرگز جی کے ہمارے جائے سے کیسا کیسا ہوکے جدا…
اس شوخ سے ہمیں بھی اب یاری ہو گئی ہے
اس شوخ سے ہمیں بھی اب یاری ہو گئی ہے شرم انکھڑیوں میں جس کی عیاری ہو گئی ہے روتا پھرا ہوں برسوں لوہو چمن…
اس اسیری کے نہ کوئی اے صبا پالے پڑے
اس اسیری کے نہ کوئی اے صبا پالے پڑے اک نظر گل دیکھنے کے بھی ہمیں لالے پڑے حسن کو بھی عشق نے آخر کیا…
احوال نہ پوچھو کچھ ہم ظلم رسیدوں کا
احوال نہ پوچھو کچھ ہم ظلم رسیدوں کا کیا حال محبت کے آزار کشیدوں کا دیوانگی عاشق کی سمجھو نہ لباسی ہے صد پارہ جگر…
آج رکھ آیا کمر میں پیش قبض
آج رکھ آیا کمر میں پیش قبض سو ہی کھینچی مجھ پہ گھر میں پیش قبض
اپنے موئے بھی رنج و بلا ہے ہمسایوں کی جانوں پر
اپنے موئے بھی رنج و بلا ہے ہمسایوں کی جانوں پر کیا کیا سینہ زنی رہتی ہے درد و غم کے فسانوں پر میں تو…
اب نہیں سینے میں میرے جائے داغ
اب نہیں سینے میں میرے جائے داغ سوز دل سے داغ ہے بالائے داغ دل جلا آنکھیں جلیں جی جل گیا عشق نے کیا کیا…
یوں ناکام رہیں گے کب تک جی میں ہے اک کام کریں
یوں ناکام رہیں گے کب تک جی میں ہے اک کام کریں رسوا ہو کر مارے جاویں اس کو بھی بدنام کریں جن کو خدا…
یک مژہ اے دم آخر مجھے فرصت دیجے
یک مژہ اے دم آخر مجھے فرصت دیجے چشم بیمار کے دیکھ آنے کی رخصت دیجے نو گرفتار ہوں اس باغ کا رحم اے صیاد…
یارب کوئی ہو عشق کا بیمار نہ ہووے
یارب کوئی ہو عشق کا بیمار نہ ہووے مر جائے ولے اس کو یہ آزار نہ ہووے زنداں میں پھنسے طوق پڑے قید میں مر…
یاد ایام کہ یاں ترک شکیبائی تھا
یاد ایام کہ یاں ترک شکیبائی تھا ہر گلی شہر کی یاں کوچۂ رسوائی تھا اتنی گذری جو ترے ہجر میں سو اس کے سبب…
وہ نوباوۂ گلشن خوبی سب سے رکھے ہے نرالی طرح
وہ نوباوۂ گلشن خوبی سب سے رکھے ہے نرالی طرح شاخ گل سا جائے ہے لہکا ان نے نئی یہ ڈالی طرح مونڈھے چلے ہیں…
وفاداری نے جی مارا ہمارا
وفاداری نے جی مارا ہمارا اسی میں ہو گا کچھ وارا ہمارا چڑھی تیوری کبھو اس کی نہ اتری غضب ہے قہر ہے پیارا ہمارا…
ہے یہ بازار جنوں منڈی ہے دیوانوں کی
ہے یہ بازار جنوں منڈی ہے دیوانوں کی یاں دکانیں ہیں کئی چاک گریبانوں کی کیونکے کہیے کہ اثر گریۂ مجنوں کو نہ تھا گرد…
ہے جنبش لب مشکل جب آن کے وہ بیٹھے
ہے جنبش لب مشکل جب آن کے وہ بیٹھے جو چاہیں سو یوں کہہ لیں لوگ اپنی جگہ بیٹھے جی ڈوب گئے اپنے اندوہ کے…
ہوتی کچھ عشق کی غیرت بھی اگر بلبل کو
ہوتی کچھ عشق کی غیرت بھی اگر بلبل کو صبح کی باؤ سے لگ لگنے نہ دیتی گل کو میں نے سر اپنا دھنا تھا…
ہمیں آمد میرؔ کل بھا گئی
ہمیں آمد میرؔ کل بھا گئی طرح اس میں مجنوں کی سب پا گئی کہاں کا غبار آہ دل میں یہ تھا مری خاک بدلی…
ہم کوئے مغاں میں تھے ماہ رمضاں آیا
ہم کوئے مغاں میں تھے ماہ رمضاں آیا صد شکر کہ مستی میں جانا نہ کہاں آیا گو قدر محبت میں تھی سہل مری لیکن…
ہم جنوں میں جو خاک اڑا ویں گے
ہم جنوں میں جو خاک اڑا ویں گے دشت میں آندھیاں چلا ویں گے میرے دامن کے تار خاروں کو دشت میں پگڑیاں بندھاویں گے
ہر ہر سخن پہ اب تو کرتے ہو گفتگو تم
ہر ہر سخن پہ اب تو کرتے ہو گفتگو تم ان بد مزاجیوں کو چھوڑو گے بھی کبھو تم یاں آپھی آپ آ کر گم…
ہر چند جذب عشق سے تشریف یاں بھی لائے وہ
ہر چند جذب عشق سے تشریف یاں بھی لائے وہ پر خود گم ایسا میں نہیں جو سہل مجھ کو پائے وہ خوبی و رعنائی…
نیلا نہیں سپہر تجھے اشتباہ ہے
نیلا نہیں سپہر تجھے اشتباہ ہے دود جگر سے میرے یہ چھت سب سیاہ ہے ابر و بہار و بادہ سبھوں میں ہے اتفاق ساقی…
ننوشتہ نامہ آیا یہ کچھ ہمیں لکھا ہے
ننوشتہ نامہ آیا یہ کچھ ہمیں لکھا ہے اس سادہ رو کے جی میں کیا جانیے کہ کیا ہے کافر کا بھی رویہ ہوتا نہیں…
نظر آیا تھا صبح دور سے وہ
نظر آیا تھا صبح دور سے وہ پھر چھپا خور سا اپنے نور سے وہ جز برادر عزیز یوسف کو نہیں لکھتا کبھو غرور سے…
ناکسی سے پاس میرے یار کا آنا گیا
ناکسی سے پاس میرے یار کا آنا گیا بس گیا میں جان سے اب اس سے یہ جانا گیا کچھ نہ دیکھا پھر بجز یک…
میں تو تنک صبری سے اپنی رہ نہیں سکتا اک دم بھی
میں تو تنک صبری سے اپنی رہ نہیں سکتا اک دم بھی ناز و غرور بہت ہے اس کا لطف نہیں ہے کم کم بھی…
میرؔ آج وہ بدمست ہے ہشیار رہو تم
میرؔ آج وہ بدمست ہے ہشیار رہو تم ہے بے خبری اس کو خبردار رہو تم جی جائے کسی کا کہ رہے تم کو قسم…
منھ پہ رکھتا ہے وہ نقاب بہت
منھ پہ رکھتا ہے وہ نقاب بہت ہم سے کرتا ہے اب حجاب بہت چشمک گل کا لطف بھی نہ اٹھا کم رہا موسم شباب…
مکث طالع دیکھ وہ ایدھر کو چل کر رہ گیا
مکث طالع دیکھ وہ ایدھر کو چل کر رہ گیا رات جو تھی چاند سا گھر سے نکل کر رہ گیا خواب میں کل پاؤں…
مستی میں جا و بے جا مد نظر کہاں ہے
مستی میں جا و بے جا مد نظر کہاں ہے بے خود ہیں اس کی آنکھیں ان کو خبر کہاں ہے شب چند روز سے…
مر رہتے جو گل بن تو سارا یہ خلل جاتا میر تقی میر
مر رہتے جو گل بن تو سارا یہ خلل جاتا نکلا ہی نہ جی ورنہ کانٹا سا نکل جاتا پیدا ہے کہ پنہاں تھی آتش…