میر تقی میر
راہ آنسو کی کب تلک تکیے
راہ آنسو کی کب تلک تکیے خون دل ہی کا اب مزہ چکھیے آتش غم میں جل رہے ہیں ہما چشم مجھ استخواں پہ مت…
دیکھوں میں اپنی آنکھوں سے آوے مجھے قرار
دیکھوں میں اپنی آنکھوں سے آوے مجھے قرار اے انتظار تجھ کو کسی کا ہو انتظار ساقی تو ایک بار تو توبہ مری تڑا توبہ…
دوست رکھتا ہوں بہت اپنے دل بیمار کو
دوست رکھتا ہوں بہت اپنے دل بیمار کو خوں کیا ہے مدتوں اس میں غم بسیار کو جز عزیز از جاں نہیں یوسف کو لکھتا…
دن فکر دہن میں اس کے جاتا ہے ہمیں
دن فکر دہن میں اس کے جاتا ہے ہمیں کب آپ میں آکے کوئی پاتا ہے ہمیں ہرگز وہ کمر وہم میں گذری نہ کبھو…
دل کی واشد کے لیے کل باغ میں میں ٹک گیا
دل کی واشد کے لیے کل باغ میں میں ٹک گیا سن گلہ بلبل سے گل کا اور بھی جی رک گیا عشق کی سوزش…
دل کو گل کہتے تھے درد و غم سے مرجھایا گیا
دل کو گل کہتے تھے درد و غم سے مرجھایا گیا جی کو مہماں سنتے تھے مہمان سا آیا گیا عشق سے ہو حال جی…
دل عجب نسخۂ تصوف ہے
دل عجب نسخۂ تصوف ہے ہم نہ سمجھے بڑا تاسف ہے آپ ہی صرف عشق ہو جانا یہ بھی درویش کا تصرف ہے منھ ادھر…
دل خوں ہوا تھا یکسر پانی ہوا جگر سب
دل خوں ہوا تھا یکسر پانی ہوا جگر سب خوں بستہ رہتیاں تھیں پلکیں سو اب ہیں تر سب یارب کدھر گئے وے جو آدمی…
دل پر خوں ہے یہاں تجھ کو گماں ہے شیشہ
دل پر خوں ہے یہاں تجھ کو گماں ہے شیشہ شیخ کیوں مست ہوا ہے تو کہاں ہے شیشہ شیشہ بازی تو تنک دیکھنے آ…
دزدیدہ نگہ کرنا پھر آنکھ ملانا بھی
دزدیدہ نگہ کرنا پھر آنکھ ملانا بھی اس لوٹتے دامن کو پاس آ کے اٹھانا بھی پامالی عاشق کو منظور رکھے جانا پھر چال کڈھب…
داڑھی سفید شیخ کی تو مت نظر میں کر
داڑھی سفید شیخ کی تو مت نظر میں کر بگلا شکار ہووے تو لگتے ہیں ہاتھ پر اے ابر خشک مغز سمندر کا منھ نہ…
قصہ تمام میرؔ کا شب کو سنا کیا
قصہ تمام میرؔ کا شب کو سنا کیا بے درد سر بھی صبح تلک سر دھنا کیا مل چشم سے نگہ نے دھتورا دیا مجھے…
اب ترک کر لباس توکل ہی کر رہے
اب ترک کر لباس توکل ہی کر رہے جب سے کلاہ سر پہ رکھی در بہ در رہے اس دشت سے غبار ہمارا نہ ٹک…
خاطر کرے ہے جمع وہ ہر بار ایک طرح
خاطر کرے ہے جمع وہ ہر بار ایک طرح کرتا ہے چرخ مجھ سے نئے یار ایک طرح میں اور قیس و کوہکن اب جو…
حال زخم جگر سے ہے درہم
حال زخم جگر سے ہے درہم کاش رہتے کسو طرف مر ہم دلبروں کو جو بر میں کھینچا ٹک اس ادا سے بہت ہوئے برہم…
چمن کو یاد کر مرغ قفس فریاد کرتا ہے
چمن کو یاد کر مرغ قفس فریاد کرتا ہے کوئی ایسا ستم دنیا میں اے صیاد کرتا ہے ہوا خانہ خراب آنکھوں کا اشکوں سے…
چشم رہتی ہے اب پرآب بہت
چشم رہتی ہے اب پرآب بہت دل کو میرے ہے اضطراب بہت دیکھیے رفتہ رفتہ کیا ہووے تاب دل کم ہے پیچ و تاب بہت…
چاک پر چاک ہوا جوں جوں سلایا ہم نے
چاک پر چاک ہوا جوں جوں سلایا ہم نے اس گریباں ہی سے اب ہاتھ اٹھایا ہم نے حسرت لطف عزیزان چمن جی میں رہی…
جوں جوں ساقی تو جام بھرتا ہے
جوں جوں ساقی تو جام بھرتا ہے میری توبہ کا جان ڈرتا ہے سیر کر عاشقوں کی جانبازی کوئی سسکتا ہے کوئی مرتا ہے میرؔ…
جو کوئی اس بے وفا سے دل لگاتا ہے بہت
جو کوئی اس بے وفا سے دل لگاتا ہے بہت وہ ستمگر اس ستم کش کو ستاتا ہے بہت اس کے سونے سے بدن سے…
جھمکے دکھا کے طور کو جن نے جلا دیا
جھمکے دکھا کے طور کو جن نے جلا دیا آئی قیامت ان نے جو پردہ اٹھا دیا اس فتنے کو جگا کے پشیماں ہوئی نسیم…
جل گیا دل مگر ایسے جوں بلا نکلے ہے
جل گیا دل مگر ایسے جوں بلا نکلے ہے جیسے لوں چلتی مرے منھ سے ہوا نکلے ہے لخت دل قطرۂ خوں ٹکڑے جگر ہو…
جب نسیم سحر ادھر جا ہے
جب نسیم سحر ادھر جا ہے ایک سنّاہٹا گذر جا ہے کیا اس آئینہ رو سے کہیے ہائے وہ زباں کر کے پھر مکر جا…
جب جنوں سے ہمیں توسل تھا میر تقی میر
جب جنوں سے ہمیں توسل تھا اپنی زنجیر پا ہی کا غل تھا بسترا تھا چمن میں جوں بلبل نالہ سرمایۂ توکل تھا یک نگہ…
جان چلی جاتی ہے ہماری اس کی اور نظر کے ساتھ
جان چلی جاتی ہے ہماری اس کی اور نظر کے ساتھ یعنی چشم شوق لگی رہتی ہے شگاف در کے ساتھ شاہد عادل عشق کے…
تیغ لے کر کیوں تو عاشق پر گیا
تیغ لے کر کیوں تو عاشق پر گیا زیر لب جب کچھ کہا وہ مر گیا تڑپے زیر تیغ ہم بے ڈول آہ دامن پاک…
تیر جو اس کمان سے نکلا
تیر جو اس کمان سے نکلا جگر مرغ جان سے نکلا نکلی تھی تیغ بے دریغ اس کی میں ہی اک امتحان سے نکلا گو…
تلوار غرق خوں ہے آنکھیں گلابیاں ہیں
تلوار غرق خوں ہے آنکھیں گلابیاں ہیں دیکھیں تو تیری کب تک یہ بد شرابیاں ہیں جب لے نقاب منھ پر تب دید کر کہ…
ترک لباس سے میرے اسے کیا وہ رفتہ رعنائی کا
ترک لباس سے میرے اسے کیا وہ رفتہ رعنائی کا جامے کا دامن پاؤں میں الجھا ہاتھ آنچل اکلائی کا پاس سے اٹھ چلتا ہے…
تجا ہے حیرت عشقی سے گفتگو کو ہم
تجا ہے حیرت عشقی سے گفتگو کو ہم خموش دیکھتے رہتے ہیں اس کے رو کو ہم اگرچہ وصل ہے پر ہیں طلب میں سرگرداں…
پیس مارا دل غموں نے کوٹ کر
پیس مارا دل غموں نے کوٹ کر کیا اجاڑا اس نگر کو لوٹ کر ابر سے آشوب ایسا کب اٹھا خوب روئے دیدۂ تر پھوٹ…
پھرتا ہے زندگی کے لیے آہ خوار کیا
پھرتا ہے زندگی کے لیے آہ خوار کیا اس وہم کی نمود کا ہے اعتبار کیا کیا جانیں ہم اسیر قفس زاد اے نسیم گل…
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے لگنے نہ دے بس ہو…
بے لطف یار ہم کو کچھ آسرا نہیں ہے
بے لطف یار ہم کو کچھ آسرا نہیں ہے سو کوئی دن جو ہے تو پھر سالہا نہیں ہے سن عشق جو اطبا کرتے ہیں…
بھلا ہو گا کچھ اک احوال اس سے یا برا ہو گا
بھلا ہو گا کچھ اک احوال اس سے یا برا ہو گا مآل اپنا ترے غم میں خدا جانے کہ کیا ہو گا تفحص فائدہ…
بند قبا کو خوباں جس وقت وا کریں گے
بند قبا کو خوباں جس وقت وا کریں گے خمیازہ کش جو ہوں گے ملنے کے کیا کریں گے رونا یہی ہے مجھ کو تیری…
برقع میں کیا چھپیں وے ہوویں جنھوں کی یہ تاب
برقع میں کیا چھپیں وے ہوویں جنھوں کی یہ تاب رخسار تیرے پیارے ہیں آفتاب مہتاب اٹکل ہمیں کو ان نے آخر ہدف بنایا ہرچند…
باندھے کمر سحرگہ آیا ہے میرے کیں پر
باندھے کمر سحرگہ آیا ہے میرے کیں پر جو حادثہ فلک سے نازل ہوا زمیں پر اقرار میں کہاں ہے انکار کی سی خوبی ہوتا…
آئینہ سا جو کوئی یاں آشنا صورت ہے اب
آئینہ سا جو کوئی یاں آشنا صورت ہے اب بے مروت اس زمانے میں ہمہ حیرت ہے اب کیا کوئی یاری کسو سے کر کے…
ایک آدھ دن سنو گے سنّا کے رہ گئے ہم
ایک آدھ دن سنو گے سنّا کے رہ گئے ہم کانپا کرے ہے جی سو ٹھہرا کے رہ گئے ہم واشد ہوئی سو اپنی پژمردگی…
اے نکیلے یہ تھی کہاں کی ادا
اے نکیلے یہ تھی کہاں کی ادا کھب گئی جی میں تیری بانکی ادا جادو کرتے ہیں اک نگاہ کے بیچ ہائے رے چشم دلبراں…
اے بوئے گل سمجھ کے مہکیو پون کے بیچ
اے بوئے گل سمجھ کے مہکیو پون کے بیچ زخمی پڑے ہیں مرغ ہزاروں چمن کے بیچ بہ بھی گیا میں اندر ہی اندر گداز…
آنے کے وقت تم تو کہیں کے کہیں رہے
آنے کے وقت تم تو کہیں کے کہیں رہے اب آئے تم تو فائدہ ہم ہی نہیں رہے
اندوہ و غم کے جوش سے دل رک کے خوں ہوا
اندوہ و غم کے جوش سے دل رک کے خوں ہوا اب کے مجھے بہار سے آگے جنوں ہوا اچھا نہیں ہے رفتن رنگیں بھی…
اللہ رے غرور و ناز تیرا
اللہ رے غرور و ناز تیرا مطلق نہیں ہم سے ساز تیرا ہم سے کہ تجھی کو جانتے ہیں جاتا نہیں احتراز تیرا مل جن…
اک مرتبہ دل پہ اضطرابی آئی
اک مرتبہ دل پہ اضطرابی آئی یعنی کہ اجل میری شتابی آئی بکھرا جاتا ہے ناتوانی سے جی عاشق نہ ہوئے کہ اک خرابی آئی
اس مغل زا سے نہ تھی ہر بات کی تکرار خوب
اس مغل زا سے نہ تھی ہر بات کی تکرار خوب بدزبانی بھی کی ان نے تو کہا بسیار خوب لگ نہیں پڑتے ہیں لے…
اس کا خرام دیکھ کے جایا نہ جائے گا
اس کا خرام دیکھ کے جایا نہ جائے گا اے کبک پھر بحال بھی آیا نہ جائے گا ہم کشتگان عشق ہیں ابرو و چشم…
اس بستر افسردہ کے گل خوشبو ہیں مرجھائے ہنوز
اس بستر افسردہ کے گل خوشبو ہیں مرجھائے ہنوز اس نکہت سے موسم گل میں پھول نہیں یاں آئے ہنوز اس زلف و کاکل کو…
ادھر آ کر شکار افگن ہمارا
ادھر آ کر شکار افگن ہمارا مشبک کر گیا ہے تن ہمارا گریباں سے رہا کوتہ تو پھر ہے ہمارے ہاتھ میں دامن ہمارا گئے…