میر تقی میر
گئی چھاؤں اس تیغ کی سر سے جب کی
گئی چھاؤں اس تیغ کی سر سے جب کی جلے دھوپ میں یاں تلک ہم کہ تب کی پڑی خرمن گل پہ بجلی سی آخر…
گلبن چمن کے اس کو جو دیکھتے ہیں گستاخ
گلبن چمن کے اس کو جو دیکھتے ہیں گستاخ کیا تازہ کوئی ان کی نکلی بہار میں شاخ
گل شرم سے بہ جائے گا گلشن میں ہو کر آب سا میر تقی میر
گل شرم سے بہ جائے گا گلشن میں ہو کر آب سا برقع سے گر نکلا کہیں چہرہ ترا مہتاب سا گل برگ کا یہ…
گرچہ سردار مزوں کا ہے امیری کا مزا
گرچہ سردار مزوں کا ہے امیری کا مزا چھوڑ لذت کے تئیں لے تو فقیری کا مزا اے کہ آزاد ہے ٹک چکھ نمک مرغ…
کئی داغ ایسے جلائے جگر پر
کئی داغ ایسے جلائے جگر پر کہ وے نرگسی زن تھے گلہ اے تر پر گیا میری وادی سے سیلاب بچ کر نظر یاں جو…
کیا ہے یہ جو گاہے آ جاتی ہے آندھی کوئی زرد
کیا ہے یہ جو گاہے آ جاتی ہے آندھی کوئی زرد یا بگولا جو کوئی سر کھینچے ہے صحرا نورد شوق میں یہ محمل لیلیٰ…
کیا مرے آنے پہ تو اے بت مغرور گیا
کیا مرے آنے پہ تو اے بت مغرور گیا کبھی اس راہ سے نکلا تو تجھے گھور گیا لے گیا صبح کے نزدیک مجھے خواب…
کیا کہیے ہوئے مملکت ہستی میں وارد
کیا کہیے ہوئے مملکت ہستی میں وارد بے یار و دیار اب تو ہیں اس بستی میں وارد کچھ ہوش نہ تھا منبر و محراب…
کیا کہوں کیسا ہے دلبر خودغرض
کیا کہوں کیسا ہے دلبر خودغرض خود نما خود رائے و خودسر خودغرض
کیا غیرت سے دل پر تنگ رنج و غم نے دنیا کو
کیا غیرت سے دل پر تنگ رنج و غم نے دنیا کو بس اب تو کھل گئیں ہیں آنکھیں دیکھا ہم نے دنیا کو رہا…
کیا خانہ خرابی کا ہمیں خوف و خطر ہے
کیا خانہ خرابی کا ہمیں خوف و خطر ہے گھر ہے کسو گوشے میں تو مکڑی کا سا گھر ہے میلان نہ آئینے کا اس…
کیا بلبل اسیر ہے بے بال و پر کہ ہم
کیا بلبل اسیر ہے بے بال و پر کہ ہم گل کب رکھے ہے ٹکڑے جگر اس قدر کہ ہم خورشید صبح نکلے ہے اس…
کو عمر کہ اب فکر امیری کریے
کو عمر کہ اب فکر امیری کریے بن آوے تو اندیشۂ پیری کریے آگے مرنے سے خاک ہوجے اے میرؔ یعنی کہ کوئی روز فقیری…
کہو تو کب تئیں یوں ساتھ تیرے پیار رہے
کہو تو کب تئیں یوں ساتھ تیرے پیار رہے کہ دیکھا جب تجھے تب جی کو مار مار رہے ادا و ناز سے دل لے…
کھا گئی یاں کی فکر سو موہوم
کھا گئی یاں کی فکر سو موہوم واں گئے کیا ہو کچھ نہیں معلوم وصل کیونکر ہو اس خوش اختر کا جذب ناقص ہے اور…
خوب تھے وے دن کہ ہم تیرے گرفتاروں میں تھے
خوب تھے وے دن کہ ہم تیرے گرفتاروں میں تھے غمزدوں اندوہ گینوں ظلم کے ماروں میں تھے دشمنی جانی ہے اب تو ہم سے…
کل تلک داغوں سے خوں کے دامن زیں پاک تھا
کل تلک داغوں سے خوں کے دامن زیں پاک تھا آج تو کشتہ کوئی کیا زینت فتراک تھا کیا جنوں کو روؤں تردستی سے اس…
کس رو سے اس کے ہو گا تو نقطے سے مقابل
کس رو سے اس کے ہو گا تو نقطے سے مقابل اے آفتاب تیرا منھ تو طباق سا ہے
کرتا ہے گرچہ یاروں سے وہ ٹیڑھی بانکی بات
کرتا ہے گرچہ یاروں سے وہ ٹیڑھی بانکی بات پر کیا ہی دل کو لگتی ہے اس بد زباں کی بات تھی بحر کی سی…
کچھ خواب سی ہے میرؔ یہ صحبت داری
کچھ خواب سی ہے میرؔ یہ صحبت داری اٹھ جائیں گے یہ بیٹھے ہوئے یک باری کیا آنکھوں کو کھولا ہے تنک کانوں کو کھول…
کب سے نظر لگی تھی دروازۂ حرم سے
کب سے نظر لگی تھی دروازۂ حرم سے پردہ اٹھا تو لڑیاں آنکھیں ہماری ہم سے صورت گر اجل کا کیا ہاتھ تھا کہے تو…
کام کیے ہیں شوق سے ضائع صبر نہ آیا یاروں کو
کام کیے ہیں شوق سے ضائع صبر نہ آیا یاروں کو مار رکھا بیتابی دل نے ہم سب غم کے ماروں کو جی تو جلا…
قبر عاشق پر مقرر روز آنا کیجیے
قبر عاشق پر مقرر روز آنا کیجیے جو گیا ہو جان سے اس کو بھی جانا کیجیے رات دارو پیجیے غیروں میں بے لیت و…
فردوس سے کچھ اس کی گلی میں کمی نہیں
فردوس سے کچھ اس کی گلی میں کمی نہیں پر ساکنوں میں واں کے کوئی آدمی نہیں
غم مضموں نہ خاطر میں نہ دل میں درد کیا حاصل
غم مضموں نہ خاطر میں نہ دل میں درد کیا حاصل ہوا کاغذ نمط گو رنگ تیرا زرد کیا حاصل ہوئے صید زبوں ہم منتظر…
غالب ہے تیرے عہد میں بیداد کی طرف
غالب ہے تیرے عہد میں بیداد کی طرف ہر خوں گرفتہ جائے ہے جلاد کی طرف کن نے لیا ہے تم سے مچلکا کہ داد…
عشق میں ہم نے جاں کنی کی ہے
عشق میں ہم نے جاں کنی کی ہے کیا محبت نے دشمنی کی ہے کیسی سرخ و سفید نکلی تھی مے مگر دختر ارمنی کی…
عشق کی ہے بیماری ہم کو دل اپنا سب درد ہوا
عشق کی ہے بیماری ہم کو دل اپنا سب درد ہوا رنگ بدن میت کے رنگوں جیتے جی ہی پہ زرد ہوا تب بھی نہ…
عشق بتوں سے اب نہ کریں گے عہد کیا ہے خدا سے ہم
عشق بتوں سے اب نہ کریں گے عہد کیا ہے خدا سے ہم آ جاویں جو یہ ہرجائی تو بھی نہ جاویں جا سے ہم…
عاشق ہوئے تو گو غم بسیار کیوں نہ ہو
عاشق ہوئے تو گو غم بسیار کیوں نہ ہو ناسور چشم ہو مژہ خوں بار کیوں نہ ہو کامل ہو اشتیاق تو اتنا نہیں ہے…
طرح خوش ناز خوش اس کی ادا خوش
طرح خوش ناز خوش اس کی ادا خوش خوشا ہم جو نہ رکھے ہم کو ناخوش نہیں ناساز فقر اپنا کسو کا خرابے کی ہمارے…
صورت شیریں کے آگے کام اپنا کر گیا
صورت شیریں کے آگے کام اپنا کر گیا عشق میں کس حسن سے فرہاد ظالم مر گیا خانہ آبادی ہمیں بھی دل کی یوں ہے…
صاحب ہو تم ہمارے بندے ہیں ہم تمھارے
صاحب ہو تم ہمارے بندے ہیں ہم تمھارے موقوف رحم پر ہیں دشوار کام سارے ہو ملتفت کہ ہم بھی جیتوں میں آویں چندے یہ…
شہر سے یار سوار ہوا جو سواد میں خوب غبار ہے آج
شہر سے یار سوار ہوا جو سواد میں خوب غبار ہے آج دشتی وحش وطیر اس کے سر تیزی ہی میں شکار ہے آج برافروختہ…
شب تھا نالاں عزیز کوئی تھا
شب تھا نالاں عزیز کوئی تھا مرغ خوش خواں عزیز کوئی تھا تھی تمھارے ستم کی تاب اس تک صبر جو یاں عزیز کوئی تھا…
سیر کی ہم نے اٹھ کے تا صورت
سیر کی ہم نے اٹھ کے تا صورت ویسی دیکھی نہ ایک جا صورت منھ لگانا تو درکنار ان نے نہ کہا ہے یہ آشنا…
سنبل تمھارے گیسوؤں کے غم میں لٹ گیا
سنبل تمھارے گیسوؤں کے غم میں لٹ گیا ابرو کی تیغ دیکھ مہ عید کٹ گیا عالم میں جاں کے مجھ کو تنزہ تھا اب…
سر راہ چند انتظاری رہے
سر راہ چند انتظاری رہے بھلا کب تلک بیقراری رہے رہا ہی کئے آنسو پلکوں پہ شب کہاں تک ستارہ شماری رہے کہا بوسہ دے…
سب سے آئینہ نمط رکھتے ہیں خوباں اختلاط
سب سے آئینہ نمط رکھتے ہیں خوباں اختلاط ہوتے ہیں یہ لوگ بھی کتنے پریشاں اختلاط تنگ آیا ہوں میں رشک تنگ پوشی سے تری…
زمانہ ہجر کا آسان کیا بسر آیا
زمانہ ہجر کا آسان کیا بسر آیا ہزار مرتبہ منھ تک مرے جگر آیا رہیں جو منتظر آنکھیں غبار لائیں ولے وہ انتظار کشوں کو…
روکش ہوا جو شب وہ بالائے بام نکلا
روکش ہوا جو شب وہ بالائے بام نکلا ماہ تمام یارو کیا ناتمام نکلا ہو گوشہ گیر شہرت مد نظر اگر ہے عنقا کی طرح…
رہتا ہے ہڈیوں سے مری جو ہما لگا
رہتا ہے ہڈیوں سے مری جو ہما لگا کچھ درد عاشقی کا اسے بھی مزہ لگا غافل نہ سوز عشق سے رہ پھر کباب ہے…
رکھتے رہے بتوں سے مہر و وفا کی خواہش
رکھتے رہے بتوں سے مہر و وفا کی خواہش اس آرزو نے مارا یہ بھی خدا کی خواہش بیماری دلی پر میں صبر کر رہا…
رفتار و طور و طرز و روش کا یہ ڈھب ہے کیا
رفتار و طور و طرز و روش کا یہ ڈھب ہے کیا پہلے سلوک ایسے ہی تیرے تھے اب ہے کیا ہم دل زدہ نہ…
رابطہ باہم ہے کوئی دن کا یاں
رابطہ باہم ہے کوئی دن کا یاں پھر زمانے میں کہاں تم ہم کہاں گم ہوا ہوں یاں سے جا کر میں جہاں کچھ نہیں…
دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک شعلہ اک…
دو دیدۂ تر اپنے جو یار کو ہیں تکتے
دو دیدۂ تر اپنے جو یار کو ہیں تکتے اک ایک کو نہیں پھر غیرت سے دیکھ سکتے حرکت دلوں کی اپنے مذبوحی سی رہے…
دم ہے مہلت شیب میں جانے کا اپنے غم کہاں
دم ہے مہلت شیب میں جانے کا اپنے غم کہاں تم ہوئے رعنا جواں بالفرض لیکن ہم کہاں عالم عالم جمع تھے خوباں جہاں صافا…
دل گیا مفت اور دکھ پایا
دل گیا مفت اور دکھ پایا ہوکے عاشق بہت میں پچھتایا مر گئے پر بھی سنگ سار کیا نخل ماتم مرا یہ پھل لایا صحن…
دل کو اس بے مہر سے ہم نے لگایا ہے عبث
دل کو اس بے مہر سے ہم نے لگایا ہے عبث مہر کی رکھ کر توقع جی کھپایا ہے عبث دیکھ کر اس کو کھڑے…