میر تقی میر
یک مژہ اے دم آخر مجھے فرصت دیجے
یک مژہ اے دم آخر مجھے فرصت دیجے چشم بیمار کے دیکھ آنے کی رخصت دیجے نو گرفتار ہوں اس باغ کا رحم اے صیاد…
یارب کوئی ہو عشق کا بیمار نہ ہووے
یارب کوئی ہو عشق کا بیمار نہ ہووے مر جائے ولے اس کو یہ آزار نہ ہووے زنداں میں پھنسے طوق پڑے قید میں مر…
یاد ایام کہ یاں ترک شکیبائی تھا
یاد ایام کہ یاں ترک شکیبائی تھا ہر گلی شہر کی یاں کوچۂ رسوائی تھا اتنی گذری جو ترے ہجر میں سو اس کے سبب…
وہ نوباوۂ گلشن خوبی سب سے رکھے ہے نرالی طرح
وہ نوباوۂ گلشن خوبی سب سے رکھے ہے نرالی طرح شاخ گل سا جائے ہے لہکا ان نے نئی یہ ڈالی طرح مونڈھے چلے ہیں…
وقات لڑکپن کے گئے غفلت میں
وقات لڑکپن کے گئے غفلت میں ایام جوانی کے کٹے عشرت میں پیری میں جز افسوس کیا کیا جائے یک بارہ کمی ہی آگئی طاقت…
ہیں بعد مرے مرگ کے آثار سے اب تک
ہیں بعد مرے مرگ کے آثار سے اب تک سوکھا نہیں لوہو در و دیوار سے اب تک رنگینی عشق اس کے ملے پر ہوئی…
ہے حرف خامہ دل زدہ حسن قبول کا
ہے حرف خامہ دل زدہ حسن قبول کا یعنی خیال سر میں ہے نعت رسولؐ کا رہ پیروی میں اس کی کہ گام نخست میں…
ہوتی ہے گرچہ کہنے سے یارو پرائی بات
ہوتی ہے گرچہ کہنے سے یارو پرائی بات پر ہم سے تو تھمے نہ کبھو منھ پر آئی بات جانے نہ تجھ کو جو یہ…
ہمیں غش آ گیا تھا وہ بدن دیکھ
ہمیں غش آ گیا تھا وہ بدن دیکھ بڑی کلول ٹلی ہے جان پر سے لیا دل اس مخطط رو نے میرا اٹھا لوں میں…
ہم مست ہو بھی دیکھا آخر مزہ نہیں ہے
ہم مست ہو بھی دیکھا آخر مزہ نہیں ہے ہشیاری کے برابر کوئی نشہ نہیں ہے شوق وصال ہی میں جی کھپ گیا ہمارا باآنکہ…
ہم چمن میں گئے تھے وا نہ ہوئے
ہم چمن میں گئے تھے وا نہ ہوئے نکہت گل سے آشنا نہ ہوئے سر کسو سے فرو نہیں آتا حیف بندے ہوئے خدا نہ…
ہم بیکسوں کا کون ہے ہجراں میں غم شریک
ہم بیکسوں کا کون ہے ہجراں میں غم شریک تنہائی ایک ہے سو ہے اس کے ستم شریک دم رک کے ووہیں کہیو اگر مر…
ہر چند صرف غم ہیں لے دل جگر سے جاں تک
ہر چند صرف غم ہیں لے دل جگر سے جاں تک لیکن کبھو شکایت آئی نہیں زباں تک کیا کوئی اس کے رنگوں گل باغ…
نئی طرزوں سے میخانے میں رنگ مے جھلکتا تھا
نئی طرزوں سے میخانے میں رنگ مے جھلکتا تھا گلابی روتی تھی واں جام ہنس ہنس کر چھلکتا تھا ترے اس خاک اڑانے کی دھمک…
نہ کر شوق کشتوں سے جانے کی باتیں
نہ کر شوق کشتوں سے جانے کی باتیں نہیں آتیں کیا تجھ کو آنے کی باتیں سماجت جو کی بوس لب پر تو بولا نہیں…
نہ آ دام میں مرغ فریاد کیجو
نہ آ دام میں مرغ فریاد کیجو ٹک اک خاطر خواب صیاد کیجو یہ تہمت بڑی ہے کہ مر گئی ہے شیریں تحمل ٹک اے…
نسیم مصر کب آئی سواد شہر کنعاں کو
نسیم مصر کب آئی سواد شہر کنعاں کو کہ بھر جھولی نہ یاں سے لے گئی گل ہائے حرماں کو زبان نوحہ گر ہوں میں…
ناز و ادا کے ساتھ وہ دلبر شکیل ہے
ناز و ادا کے ساتھ وہ دلبر شکیل ہے تصویر چیں کی روبرو اس کے ذلیل ہے ہم خاک منھ کو مل کے نہ جوں…
میں جو نظر سے اس کی گیا تو وہ سرگرم کار اپنا
میں جو نظر سے اس کی گیا تو وہ سرگرم کار اپنا کہنے لگا چپکا سا ہو کر ہائے دریغ شکار اپنا کیا یاری کر…
میرؔ اس سے ملے کہ جو ملا بھی نہ کبھو
میرؔ اس سے ملے کہ جو ملا بھی نہ کبھو جی یوں ہی گیا وہ آ پھرا بھی نہ کبھو چپ جس کے لیے لگ…
منھ تکا ہی کرے ہے جس تس کا میر تقی میر
منھ تکا ہی کرے ہے جس تس کا حیرتی ہے یہ آئینہ کس کا شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہوں دل ہوا ہے چراغ…
مل اہل بصیرت سے کچھ وے ہی دکھا دیں گے
مل اہل بصیرت سے کچھ وے ہی دکھا دیں گے لے خاک کی کوئی چٹکی اکسیر بنا دیں گے پانی کی سی بوندیں تھیں سب…
مستی نہ کر اے میرؔ اگر ہے ادراک
مستی نہ کر اے میرؔ اگر ہے ادراک دامان بلند ابر نمط رکھ تو پاک ہے عاریتی جامۂ ہستی تیرا ہشیار کہ اس پر نہ…
مر گیا میں پہ مرے باقی ہیں آثار ہنوز
مر گیا میں پہ مرے باقی ہیں آثار ہنوز تر ہیں سب سرکے لہو سے در و دیوار ہنوز دل بھی پر داغ چمن ہے…
محشر میں اگر یہ آتشیں دم ہوگا
محشر میں اگر یہ آتشیں دم ہوگا ہنگامہ سب اک لپٹ میں برہم ہوگا تکلیف بہشت کاش مجھ کو نہ کریں ورنہ وہ باغ بھی…
مجنوں و کوہکن کو آزار ایسے ہی تھے
مجنوں و کوہکن کو آزار ایسے ہی تھے یہ جان سے گئے سب بیمار ایسے ہی تھے شمس و قمر کے دیکھے جی اس میں…
مانند شمع مجلس شب اشکبار پایا میر تقی میر
مانند شمع مجلس شب اشکبار پایا القصہ میرؔ کو ہم بے اختیار پایا احوال خوش انھوں کا ہم بزم ہیں جو تیرے افسوس ہے کہ…
لڑ کے پھر آئے ڈر گئے شاید
لڑ کے پھر آئے ڈر گئے شاید بگڑے تھے کچھ سنور گئے شاید سب پریشاں دلی میں شب گذری بال اس کے بکھر گئے شاید…
لائق نہیں تمھارے مژگان خوش نگاہاں
لائق نہیں تمھارے مژگان خوش نگاہاں مجروح دل کو میرے کانٹوں میں مت گھسیٹو
گلیوں میں اب تلک تو مذکور ہے ہمارا
گلیوں میں اب تلک تو مذکور ہے ہمارا افسانۂ محبت مشہور ہے ہمارا مقصود کو تو دیکھیں کب تک پہنچتے ہیں ہم بالفعل اب ارادہ…
گل قفس تک نسیم لائی ہے
گل قفس تک نسیم لائی ہے بو کہ پھر کر بہار آئی ہے عشق دریا ہے ایک لنگر دار تہ کسو نے بھی اس کی…
گرچہ کب دیکھتے ہو پر دیکھو
گرچہ کب دیکھتے ہو پر دیکھو آرزو ہے کہ تم ادھر دیکھو عشق کیا کیا ہمیں دکھاتا ہے آہ تم بھی تو اک نظر دیکھو…
کئی دن سلوک وداع کا مرے در پئے دل زار تھا
کئی دن سلوک وداع کا مرے در پئے دل زار تھا کبھو درد تھا کبھو داغ تھا کبھو زخم تھا کبھو وار تھا دم صبح…
کیجیے کیا میرؔ صاحب بندگی بے چارگی
کیجیے کیا میرؔ صاحب بندگی بے چارگی کیسی کیسی صحبتیں آنکھوں کے آگے سے گئیں دیکھتے ہی دیکھتے کیا ہو گیا یکبارگی روئے گل پر…
کیا مرے سرورواں کا کوئی مائل ایک ہے
کیا مرے سرورواں کا کوئی مائل ایک ہے ّسینکڑوں ہم خوں گرفتہ ہیں وہ قاتل ایک ہے راہ سب کو ہے خدا سے جان اگر…
کیا کہیے ویسی صورت گاہے نظر نہ آئی
کیا کہیے ویسی صورت گاہے نظر نہ آئی ایسے گئے کہ ان کی پھر کچھ خبر نہ آئی روٹھے جو تھے سو ہم سے روٹھے…
کیا کہیں ہے حال دل درہم بہت
کیا کہیں ہے حال دل درہم بہت کڑھتے ہیں دن رات اس پر ہم بہت رہتا ہے ہجراں میں غم غصے سے کام اور وے…
کیا کام کیا ہم نے دل یوں نہ لگانا تھا
کیا کام کیا ہم نے دل یوں نہ لگانا تھا اس جان کی جوکھوں کو اس وقت نہ جانا تھا تھا جسم کا ترک اولیٰ…
کیا خط لکھوں میں رونے سے فرصت نہیں رہی
کیا خط لکھوں میں رونے سے فرصت نہیں رہی لکھتا ہوں تو پھرے ہے کتابت بہی بہی میدان غم میں قتل ہوئی آرزوئے وصل تھی…
کیا پوچھتے ہو آہ مرے جنگجو کی بات
کیا پوچھتے ہو آہ مرے جنگجو کی بات گویا وفا ہے عہد میں اس کے کبھو کی بات اس باغ میں نہ آئی نظر خرمی…
کوشش اپنی تھی عبث پر کی بہت
کوشش اپنی تھی عبث پر کی بہت کیا کریں ہم چاہتا تھا جی بہت کعبۂ مقصود کو پہنچے نہ ہائے سعی کی اے شیخ ہم…
کہو سو کریے فراق اس کا تو جی کو میرے کھپا گیا ہے
کہو سو کریے فراق اس کا تو جی کو میرے کھپا گیا ہے دروں میں آگ اک لگا گیا ہے بروں کو یکسر جلا گیا…
کہاں تک غیر جاسوسی کے لینے کو لگا آوے
کہاں تک غیر جاسوسی کے لینے کو لگا آوے الٰہی اس بلائے ناگہاں پر بھی بلا آوے رکا جاتا ہے جی اندر ہی اندر آج…
خواہش دل کی کس سے کہیے محرم تو نا پیدا ہے
خواہش دل کی کس سے کہیے محرم تو نا پیدا ہے چپ ہیں کچھ کہہ سکتے نہیں پر جی میں ہمارے کیا کیا ہے ہیں…
کل جوش غم میں آنسو ٹپکے نہ چشم تر سے
کل جوش غم میں آنسو ٹپکے نہ چشم تر سے افسوس ہے کہ آ کر یوں مینھ ٹک نہ برسے کیا ہے نمود مردم جو…
کس سے مشابہ کیجے اس کو ماہ میں ویسا نور نہیں
کس سے مشابہ کیجے اس کو ماہ میں ویسا نور نہیں کیوں کر کہیے بہشتی رو ہے اس خوبی سے حور نہیں شعر ہمارے عالم…
کرتے بیاں جو ہوتے خریدار ایک دو
کرتے بیاں جو ہوتے خریدار ایک دو دیکھا کریں ہیں ساتھ ترے یار ایک دو قید حیات قید کوئی سخت ہے کہ روز مر رہتے…
کچھ قدر عافیت کی معلوم کی نہ گھر میں
کچھ قدر عافیت کی معلوم کی نہ گھر میں اب ہجر یار میں ہیں کیا دل زدہ سفر میں ہر لحظہ بے قراری ہر لمحہ…
کب لطف زبانی کچھ اس غنچہ دہن کا تھا
کب لطف زبانی کچھ اس غنچہ دہن کا تھا برسوں ملے پر ہم سے صرفہ ہی سخن کا تھا اسباب مہیا تھے سب مرنے ہی…
کاہے کو کوئی خراب خواری ہوتا
کاہے کو کوئی خراب خواری ہوتا کاہے کو ہمیں یہ جان بھاری ہوتا دلخواہ ملاپ ہوتا تو تو ملتے اے کاشکے عشق اختیاری ہوتا