میر تقی میر
شہر سے یار سوار ہوا جو سواد میں خوب غبار ہے آج
شہر سے یار سوار ہوا جو سواد میں خوب غبار ہے آج دشتی وحش وطیر اس کے سر تیزی ہی میں شکار ہے آج برافروختہ…
شب تھا نالاں عزیز کوئی تھا
شب تھا نالاں عزیز کوئی تھا مرغ خوش خواں عزیز کوئی تھا تھی تمھارے ستم کی تاب اس تک صبر جو یاں عزیز کوئی تھا…
سیر کی ہم نے اٹھ کے تا صورت
سیر کی ہم نے اٹھ کے تا صورت ویسی دیکھی نہ ایک جا صورت منھ لگانا تو درکنار ان نے نہ کہا ہے یہ آشنا…
سنبل تمھارے گیسوؤں کے غم میں لٹ گیا
سنبل تمھارے گیسوؤں کے غم میں لٹ گیا ابرو کی تیغ دیکھ مہ عید کٹ گیا عالم میں جاں کے مجھ کو تنزہ تھا اب…
سر راہ چند انتظاری رہے
سر راہ چند انتظاری رہے بھلا کب تلک بیقراری رہے رہا ہی کئے آنسو پلکوں پہ شب کہاں تک ستارہ شماری رہے کہا بوسہ دے…
سب سے آئینہ نمط رکھتے ہیں خوباں اختلاط
سب سے آئینہ نمط رکھتے ہیں خوباں اختلاط ہوتے ہیں یہ لوگ بھی کتنے پریشاں اختلاط تنگ آیا ہوں میں رشک تنگ پوشی سے تری…
زمانہ ہجر کا آسان کیا بسر آیا
زمانہ ہجر کا آسان کیا بسر آیا ہزار مرتبہ منھ تک مرے جگر آیا رہیں جو منتظر آنکھیں غبار لائیں ولے وہ انتظار کشوں کو…
روکش ہوا جو شب وہ بالائے بام نکلا
روکش ہوا جو شب وہ بالائے بام نکلا ماہ تمام یارو کیا ناتمام نکلا ہو گوشہ گیر شہرت مد نظر اگر ہے عنقا کی طرح…
رہتا ہے ہڈیوں سے مری جو ہما لگا
رہتا ہے ہڈیوں سے مری جو ہما لگا کچھ درد عاشقی کا اسے بھی مزہ لگا غافل نہ سوز عشق سے رہ پھر کباب ہے…
رکھتے رہے بتوں سے مہر و وفا کی خواہش
رکھتے رہے بتوں سے مہر و وفا کی خواہش اس آرزو نے مارا یہ بھی خدا کی خواہش بیماری دلی پر میں صبر کر رہا…
رفتار و طور و طرز و روش کا یہ ڈھب ہے کیا
رفتار و طور و طرز و روش کا یہ ڈھب ہے کیا پہلے سلوک ایسے ہی تیرے تھے اب ہے کیا ہم دل زدہ نہ…
رابطہ باہم ہے کوئی دن کا یاں
رابطہ باہم ہے کوئی دن کا یاں پھر زمانے میں کہاں تم ہم کہاں گم ہوا ہوں یاں سے جا کر میں جہاں کچھ نہیں…
دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک شعلہ اک…
دو دیدۂ تر اپنے جو یار کو ہیں تکتے
دو دیدۂ تر اپنے جو یار کو ہیں تکتے اک ایک کو نہیں پھر غیرت سے دیکھ سکتے حرکت دلوں کی اپنے مذبوحی سی رہے…
دم ہے مہلت شیب میں جانے کا اپنے غم کہاں
دم ہے مہلت شیب میں جانے کا اپنے غم کہاں تم ہوئے رعنا جواں بالفرض لیکن ہم کہاں عالم عالم جمع تھے خوباں جہاں صافا…
دل گیا مفت اور دکھ پایا
دل گیا مفت اور دکھ پایا ہوکے عاشق بہت میں پچھتایا مر گئے پر بھی سنگ سار کیا نخل ماتم مرا یہ پھل لایا صحن…
دل کو اس بے مہر سے ہم نے لگایا ہے عبث
دل کو اس بے مہر سے ہم نے لگایا ہے عبث مہر کی رکھ کر توقع جی کھپایا ہے عبث دیکھ کر اس کو کھڑے…
دل سے شوق رخ نکو نہ گیا
دل سے شوق رخ نکو نہ گیا جھانکنا تاکنا کبھو نہ گیا ہر قدم پر تھی اس کی منزل لیک سر سے سود ائے جستجو…
دل جو تھا اک آبلہ پھوٹا گیا
دل جو تھا اک آبلہ پھوٹا گیا رات کو سینہ بہت کوٹا گیا طائر رنگ حنا کی سی طرح دل نہ اس کے ہاتھ سے…
دل اس کے مو سے لگ کے پریشاں ہوا نہ تو
دل اس کے مو سے لگ کے پریشاں ہوا نہ تو اس رو کا مثل آئینہ حیراں ہوا نہ تو صد رنگ بحث رہتی ہے…
درد و غم سے دل کبھو فرصت نہ پائے
درد و غم سے دل کبھو فرصت نہ پائے یہ صعوبت کب تلک کوئی اٹھائے طفل تہ بازار کا عاشق ہوں میں دل فروشی کوئی…
خوش نہ آئی تمھاری چال ہمیں
خوش نہ آئی تمھاری چال ہمیں یوں نہ کرنا تھا پائمال ہمیں حال کیا پوچھ پوچھ جاتے ہو کبھو پاتے بھی ہو بحال ہمیں وہ…
اب دل کو آہ کرنی ہی صبح و مسا لگی
اب دل کو آہ کرنی ہی صبح و مسا لگی پژمردہ اس کلی کے تئیں بھی ہوا لگی کیونکر بجھاؤں آتش سوزان عشق کو اب…
آ ہم نشیں کسو کے مت عشق کی ہوس کر
آ ہم نشیں کسو کے مت عشق کی ہوس کر جاتی ہیں یوں ہی ناداں جانیں ترس ترس کر فرصت سے اس چمن کی کل…
حیراں ہے لحظہ لحظہ طرز عجب عجب کا
حیراں ہے لحظہ لحظہ طرز عجب عجب کا جو رفتۂ محبت واقف ہے اس کے ڈھب کا کہتے ہیں کوئی صورت بن معنی یاں نہیں…
حال تو حال زار ہے تا حال
حال تو حال زار ہے تا حال دل وہی بے قرار ہے تا حال بڑھتی ہے حال کی خرابی روز گرچہ کچھ روزگار ہے تا…
چلے ہم اگر تم کو ا کراہ ہے
چلے ہم اگر تم کو ا کراہ ہے فقیروں کی اللہ اللہ ہے نہ افسر ہے نے درد سر نے کلہ کہ یاں جیسا سر…
چپ رہ اب نالوں سے اے بلبل نہ کر آزار دل
چپ رہ اب نالوں سے اے بلبل نہ کر آزار دل کم دماغی ہے بہت مجھ کو کہ ہوں بیمار دل ابتدائے خبط میں ہوتا…
جیتے جی کوچۂ دلدار سے جایا نہ گیا
جیتے جی کوچۂ دلدار سے جایا نہ گیا اس کی دیوار کا سر سے مرے سایہ نہ گیا کاو کاو مژۂ یار و دل زار…
جوش غم اٹھنے سے اک آندھی چلی آتی ہے میاں
جوش غم اٹھنے سے اک آندھی چلی آتی ہے میاں خاک سی منھ پر مرے اس وقت اڑ جاتی ہے میاں پڑ گئے سوراخ دل…
جو تو ہی صنم ہم سے بیزار ہو گا
جو تو ہی صنم ہم سے بیزار ہو گا تو جینا ہمیں اپنا دشوار ہو گا غم ہجر رکھے گا بیتاب دل کو ہمیں کڑھتے…
جنوں میرے کی باتیں دشت اور گلشن میں جب چلیاں
جنوں میرے کی باتیں دشت اور گلشن میں جب چلیاں نہ چوب گل نے دم مارا نہ چھڑیاں بید کی ہلیاں گریباں شور محشر کا…
جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا میر تقی میر
جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا شرمندہ ترے رخ سے ہے رخسار…
جب کہ تابوت مرا جائے شہادت سے اٹھا
جب کہ تابوت مرا جائے شہادت سے اٹھا شعلۂ آہ دل گرم محبت سے اٹھا عمر گذری مجھے بیمار ہی رہتے ہے بجا دل عزیزوں…
جائیں تو جائیں کہاں جو گھر رہیں کیا گھر رہیں
جائیں تو جائیں کہاں جو گھر رہیں کیا گھر رہیں یار بن لگتا نہیں جی کاشکے ہم مر رہیں دل جو اکتاتا ہے یارب رہ…
جاں گداز اتنی کہاں آوازعود و چنگ ہے
جاں گداز اتنی کہاں آوازعود و چنگ ہے دل کے سے نالوں کا ان پردوں میں کچھ آہنگ ہے رو و خال و زلف ہی…
تیرے ہوتے شام کو گر بزم میں آ جائے شمع
تیرے ہوتے شام کو گر بزم میں آ جائے شمع ہو خجل ایسی کہ منھ اپنا نہ پھر دکھلائے شمع کیا جلے جاتے ہیں تجھ…
تھا زعفراں پہ ہنسنے کو دل جس کی گرد کا
تھا زعفراں پہ ہنسنے کو دل جس کی گرد کا مشتاق منھ مرا ہے اسی رنگ زرد کا کیا ڈر اسے ہے گرمی خورشید حشر…
تسبیح کو مدتوں سنبھالا ہم نے
تسبیح کو مدتوں سنبھالا ہم نے خرقہ برسوں گلے میں ڈالا ہم نے اب آخر عمر میرؔ مے کی خاطر سجادہ گرو رکھنے نکالا ہم…
تجھے بھی یار اپنا یوں تو ہم ہر بار کہتے ہیں
تجھے بھی یار اپنا یوں تو ہم ہر بار کہتے ہیں ولے کم ہیں بہت وے لوگ جن کو یار کہتے ہیں جہاں کے مصطبے…
تاچند تلف میرؔ حیا سے ہوگا
تاچند تلف میرؔ حیا سے ہوگا شائستۂ صدستم وفا سے ہوگا کر ترک ملاقات بتاں کعبے چل ان سے ہوگا سو اب خدا سے ہوگا
پوشیدہ کیا رہے ہے قدرت نمائی دل
پوشیدہ کیا رہے ہے قدرت نمائی دل دیکھی نہ بے ستوں میں زور آزمائی دل ہے تیرہ یہ بیاباں گرد و غبار سے سب دے…
پلکیں پھری ہیں کھنچی بھویں ہیں ترچھی تیکھی نگاہیں ہیں
پلکیں پھری ہیں کھنچی بھویں ہیں ترچھی تیکھی نگاہیں ہیں اس اوباش کی دیکھو شوخی سادگی سے ہم چاہیں ہیں کیا پہناوا خوش آتا ہے…
بیکار بھی درکار ہیں سرکار میں صاحب
بیکار بھی درکار ہیں سرکار میں صاحب آتے ہیں کھنچے ہم کبھو بیگار میں صاحب محروم نہ رہ جائیں کہیں بعد فنا بھی شبہ، ہے…
بے طاقتی میں تو تو اے میرؔ مر رہے گا
بے طاقتی میں تو تو اے میرؔ مر رہے گا ایسی طپش سے دل کی کوئی جگر رہے گا کیا ہے جو راہ دل کی…
بہت ہی اپنے تئیں ہم تو خوار پاتے ہیں
بہت ہی اپنے تئیں ہم تو خوار پاتے ہیں وہ کوئی اور ہیں جو اعتبار پاتے ہیں تری گلی میں میں رویا تھا دل جلا…
بلبلیں پائیز میں کہتی تھیں ہوتا کاشکے
بلبلیں پائیز میں کہتی تھیں ہوتا کاشکے یک مژہ رنگ فراری اس چمن کا آشنا کو گل و لالہ کہاں سنبل سمن ہم نسترن خاک…
برسوں ہوئے گئے ہوئے اس مہ کو بام سے
برسوں ہوئے گئے ہوئے اس مہ کو بام سے کاہش مجھے جو ہے وہی ہوتی ہے شام سے تڑپے اسیر ہوتے جو ہم یک اٹھا…
باغ گو سبز ہوا اب سر گلزار کہاں
باغ گو سبز ہوا اب سر گلزار کہاں دل کہاں وقت کہاں عمر کہاں یار کہاں تم تو اب آنے کو پھر کہہ چلے ہو…
آئی ہے اس کے کوچے سے ہو کر صبا کچھ اور
آئی ہے اس کے کوچے سے ہو کر صبا کچھ اور کیا سر میں خاک ڈالتی ہے اب ہوا کچھ اور تدبیر دوستوں کی مجھے…