میر تقی میر
کیا کیا نہ لوگ کھیلتے جاتے ہیں جان پر
کیا کیا نہ لوگ کھیلتے جاتے ہیں جان پر اطفال شہر لائے ہیں آفت جہان پر کچھ ان دنوں اشارۂ ابرو ہیں تیز تیز کیا…
کیا کہیے کچھ بن نہیں آتی جنگل جنگل ہو آئے
کیا کہیے کچھ بن نہیں آتی جنگل جنگل ہو آئے چھانہہ میں جا کے ببولوں کی ہم عشق و جنوں کو رو آئے دل کی…
کیا کریے بیاں مصیبت اپنی پیارے
کیا کریے بیاں مصیبت اپنی پیارے دن عمر کے میرے غم میں گذرے سارے رنج و ضعف و بلا اذیت محنت پنپا ہی نہ میں…
کیا عبث مجنوں پئے محمل ہے میاں
کیا عبث مجنوں پئے محمل ہے میاں یہ دوانہ باؤلا عاقل ہے میاں قند کا کون اس قدر مائل ہے میاں جو ہے ان ہونٹوں…
کیا جو عرض کہ دل سا شکار لایا ہوں
کیا جو عرض کہ دل سا شکار لایا ہوں کہا کہ ایسے تو میں مفت مار لایا ہوں کہے تو نخل صنوبر ہوں اس چمن…
کوئی نہیں جہاں میں جو اندوہگیں نہیں
کوئی نہیں جہاں میں جو اندوہگیں نہیں اس غم کدے میں آہ دل خوش کہیں نہیں کرتا ہے ابر دعوی دریا دلی عبث دامن نہیں…
کہے ہے کوہکن کر فکر میری خستہ حالی میں
کہے ہے کوہکن کر فکر میری خستہ حالی میں الٰہی شکر کرتا ہوں تری درگاہ عالی میں میں وہ پژمردہ سبزہ ہوں کہ ہو کر…
کہتے نہ تھے ہم تم سے دل ہاتھ سے مت دیجو
کہتے نہ تھے ہم تم سے دل ہاتھ سے مت دیجو مت کھائیو غم اپنا اپنا نہ لہو پیجو ان پلکوں کی کاوش سے زخمی…
کن نے کہا کہ مجھ سے بہت کم ملا کرو
کن نے کہا کہ مجھ سے بہت کم ملا کرو منت بھی میں کروں تو نہ ہرگز منا کرو بندے سے کی ہے جن نے…
خنجر بہ کف وہ جب سے سفاک ہو گیا ہے
خنجر بہ کف وہ جب سے سفاک ہو گیا ہے ملک ان ستم زدوں کا سب پاک ہو گیا ہے جس سے اسے لگاؤں روکھا…
کل بارے ہم سے اس سے ملاقات ہو گئی
کل بارے ہم سے اس سے ملاقات ہو گئی دو دو بچن کے ہونے میں اک بات ہو گئی کن کن مصیبتوں سے ہوئی صبح…
کڑھتے جو رہے ہجر میں بیمار ہوئے ہم
کڑھتے جو رہے ہجر میں بیمار ہوئے ہم بستر پہ گرے رہتے ہیں ناچار ہوئے ہم بہلانے کو دل باغ میں آئے تھے سو بلبل…
کر صرف دید عمر پھرے ہے تو یاں کہاں
کر صرف دید عمر پھرے ہے تو یاں کہاں ہے سیر مفت میرؔ تجھے پھر جہاں کہاں
کجی اس کی جو میں جتانے لگا
کجی اس کی جو میں جتانے لگا مجھے سیدھیاں وہ سنانے لگا تحمل نہ تھا جس کو ٹک سو وہ میں ستم کیسے کیسے اٹھانے…
کب تلک جی رکے خفا ہووے
کب تلک جی رکے خفا ہووے آہ کریے کہ ٹک ہوا ہووے جی ٹھہر جائے یا ہوا ہووے دیکھیے ہوتے ہوتے کیا ہووے کر نمک…
کاش اٹھیں ہم بھی گنہگاروں کے بیچ
کاش اٹھیں ہم بھی گنہگاروں کے بیچ ہوں جو رحمت کے سزاواروں کے بیچ جی سدا ان ابروؤں ہی میں رہا کی بسر ہم عمر…
فلک کا منھ نہیں اس فتنے کے اٹھانے کا
فلک کا منھ نہیں اس فتنے کے اٹھانے کا ستم شریک ترا ناز ہے زمانے کا ہمارے ضعف کی حالت سے دل قوی رکھیو کہیں…
غم ابھی کیا محشر مشہور کا
غم ابھی کیا محشر مشہور کا شور سا ہے تو ولیکن دور کا حق تو سب کچھ ہی ہے تو ناحق نہ بول بات کہتے…
عمر بھر ہم رہے شرابی سے
عمر بھر ہم رہے شرابی سے دل پر خوں کی اک گلابی سے جی ڈھہا جائے ہے سحر سے آہ رات گذرے گی کس خرابی…
عشق میں اے طبیب ہاں ٹک سوچ
عشق میں اے طبیب ہاں ٹک سوچ پائے جاں درمیاں ہے یاں ٹک سوچ بے تامل ادائے کیں مت کر قتل میں میرے مہرباں ٹک…
عشق صمد میں جان چلی وہ چاہت کا ارمان گیا
عشق صمد میں جان چلی وہ چاہت کا ارمان گیا تازہ کیا پیمان صنم سے دین گیا ایمان گیا میں جو گدایانہ چلایا در پر…
عجب نہیں ہے نہ جانے جو میرؔ چاہ کی ریت
عجب نہیں ہے نہ جانے جو میرؔ چاہ کی ریت سنا نہیں ہے مگر یہ کہ جوگی کس کے میت مت ان نمازیوں کو خانہ…
ظالم یہ کیا نکالی رفتار رفتہ رفتہ
ظالم یہ کیا نکالی رفتار رفتہ رفتہ اس چال پر چلے گی تلوار رفتہ رفتہ ہر آن ہم کو تجھ بن ایک اک برس ہوئی…
طائر دل کی طپش سینے میں جانو تم بسمل کا رقص
طائر دل کی طپش سینے میں جانو تم بسمل کا رقص ان ہی رنگوں ہوتا ہے اس صید طرفہ دل کا رقص
صبر و طاقت کو کڑھوں یا خوش دلی کا غم کروں
صبر و طاقت کو کڑھوں یا خوش دلی کا غم کروں اس میں حیراں ہوں بہت کس کس کا میں ماتم کروں موسم حیرت ہے…
شیخ حرم سے لڑکے چلا ہوں اب کعبے میں نہ آؤں گا
شیخ حرم سے لڑکے چلا ہوں اب کعبے میں نہ آؤں گا تا بت خانہ ہر قدم اوپر سجدہ کرتا جاؤں گا بہر پرستش پیش…
شعر کچھ میں نے کہے بالوں کی اس کے یاد میں
شعر کچھ میں نے کہے بالوں کی اس کے یاد میں سو غزل پڑھتے پھرے ہیں لوگ فیض آباد میں سرخ آنکھیں خشم سے کیں…
شاید اس سادہ نے رکھا ہے خط
شاید اس سادہ نے رکھا ہے خط کہ ہمیں متصل لکھا ہے خط شوق سے بات بڑھ گئی تھی بہت دفتر اس کو لکھیں ہیں…
سوز دروں سے آخر بھسمنت دل کو پایا
سوز دروں سے آخر بھسمنت دل کو پایا اس آگ نے بھڑک کر دربست گھر جلایا جی دے کے لیتے ایسے معشوق بے بدل کو…
سمندر کا میں کیوں احساں سہوں گا
سمندر کا میں کیوں احساں سہوں گا نہیں کیا سیل اشک اس پر بہوں گا نہ تو آوے نہ جاوے بے قراری یوں ہی اک…
سختیاں کھینچیں سو کھینچیں پھر بھی جو اٹھ کر چلے
سختیاں کھینچیں سو کھینچیں پھر بھی جو اٹھ کر چلے چلتے اس کوچے سے ہم پر سینکڑوں پتھر چلے مارگیری سے زمانے کی نہ دل…
سال میں ابر بہاری تجھ سے اک باری ہے فیض
سال میں ابر بہاری تجھ سے اک باری ہے فیض چشم نم دیدہ سے عاشق کی سدا جاری ہے فیض
زخم جھیلے داغ بھی کھائے بہت
زخم جھیلے داغ بھی کھائے بہت دل لگا کر ہم تو پچھتائے بہت جب نہ تب جاگہ سے تم جایا کیے ہم تو اپنی اور…
روزانہ ملوں یار سے یا شب ہو ملاقات
روزانہ ملوں یار سے یا شب ہو ملاقات کیا فکر کروں میں کہ کسو ڈھب ہو ملاقات نے بخت کی یاری ہے نہ کچھ جذب…
رنگارنگ چمن میں اب کے موسم گل میں آئے گل
رنگارنگ چمن میں اب کے موسم گل میں آئے گل ہم تو اس بن داغ ہی تھے سو اور بھی جل کر کھائے گل ہار…
رکھا گنہ وفا کا تقصیر کیا نکالی
رکھا گنہ وفا کا تقصیر کیا نکالی مارا خراب کر کر تعزیر کیا نکالی رہتی ہے چت چڑھی ہی دن رات تیری صورت صفحے پہ…
راہیں رکے پر اس سے ملاقات ہو تو ہو
راہیں رکے پر اس سے ملاقات ہو تو ہو خاموش ان لبوں سے کوئی بات ہو تو ہو رنج و عنا کہ دشمن جان عزیز…
دیوانگی کی ہے وہی زور آوری ہنوز
دیوانگی کی ہے وہی زور آوری ہنوز ہر دم نئی ہے میری گریباں دری ہنوز سر سے گیا ہے سایۂ لطف اس کا دیر سے…
دیر و حرم سے گذرے اب دل ہے گھر ہمارا
دیر و حرم سے گذرے اب دل ہے گھر ہمارا ہے ختم اس آبلے پر سیر و سفر ہمارا پلکوں سے تیری ہم کو کیا…
دو چار روز آگے چھاتی گئی تھی کوٹی
دو چار روز آگے چھاتی گئی تھی کوٹی ہجراں کا غم تھا تہ میں سختی سے جان ٹوٹی کلیاں جھڑی ہیں کچی بکھرے ہیں پھول…
دل میں بھرا زبسکہ خیال شراب تھا میر تقی میر
دل میں بھرا زبسکہ خیال شراب تھا مانند آئینے کے مرے گھر میں آب تھا موجیں کرے ہے بحر جہاں میں ابھی تو تو جانے…
دل کے تیں آتش ہجراں سے بچایا نہ گیا
دل کے تیں آتش ہجراں سے بچایا نہ گیا گھر جلا سامنے پر ہم سے بجھایا نہ گیا دل میں رہ دل میں کہ معمار…
دل کا مطالعہ کر اے آگہ حقائق
دل کا مطالعہ کر اے آگہ حقائق ہیں فن عشق کے بھی مشکل بہت دقائق چھاتی جلوں کے آگے کھنچتا ہے بیشتر دل ایک آشنا…
دل رات دن رہے ہے سینے میں عشق ملتا
دل رات دن رہے ہے سینے میں عشق ملتا ہرچند چاہتا ہوں پر جی نہیں سنبھلتا اب تو بدن میں سارے اک پھنک رہی ہے…
دل جان جگر آہ جلائے کیا کیا
دل جان جگر آہ جلائے کیا کیا درد و غم و آزار کھنچائے کیا کیا ان آنکھوں نے کی ہے ترک مردم داری دیکھیں تو…
دعوے کو یار آگے معیوب کر چکے ہیں
دعوے کو یار آگے معیوب کر چکے ہیں اس ریختے کو ورنہ ہم خوب کر چکے ہیں مرنے سے تم ہمارے خاطر نچنت رکھیو اس…
دامن وسیع تھا تو کاہے کو چشم تر سا
دامن وسیع تھا تو کاہے کو چشم تر سا رحمت خدا کی تجھ کو اے ابر زور برسا شاید کباب کر کر کھایا کبوتر ان…
خوبی کا اس کی بسکہ طلبگار ہو گیا
خوبی کا اس کی بسکہ طلبگار ہو گیا گل باغ میں گلے کا مرے ہار ہو گیا کس کو نہیں ہے شوق ترا پر نہ…
اب جو اک حسرت جوانی ہے
اب جو اک حسرت جوانی ہے عمر رفتہ کی یہ نشانی ہے رشک یوسف ہے آہ وقت عزیز عمر اک بار کاروانی ہے گریہ ہر…