میر تقی میر
کہاں کے لوگ ہیں خوباں محبت ان کو نہیں
کہاں کے لوگ ہیں خوباں محبت ان کو نہیں مریں بھی ہم تو نہ دیکھیں مروت ان کو نہیں خراب و خوار ہے سلطاں شکستہ…
کل وعدہ گاہ میں سے جوں توں کے ہم کو لائے
کل وعدہ گاہ میں سے جوں توں کے ہم کو لائے ہونٹوں پہ جان آئی پر آہ وے نہ آئے زخموں پہ زخم جھیلے داغوں…
کل رات رو کے صبح تلک میں رہا گرا
کل رات رو کے صبح تلک میں رہا گرا خونبار میری آنکھوں سے کیا جانوں کیا گرا اب شہر خوش عمارت دل کا ہے کیا…
کس حسن سے کہوں میں اس کی خوش اختری کی
کس حسن سے کہوں میں اس کی خوش اختری کی اس ماہرو کے آگے کیا تاب مشتری کی رکھنا نہ تھا قدم یاں جوں باد…
کرتے نہیں ہیں اس سے نیا کچھ ہم اختلاط
کرتے نہیں ہیں اس سے نیا کچھ ہم اختلاط ہوتا تھا اگلے لوگوں میں بھی باہم اختلاط ٹک گرم میں ملوں تو مجھی سے ملے…
کچھ تو کہہ وصل کی پھر رات چلی جاتی ہے
کچھ تو کہہ وصل کی پھر رات چلی جاتی ہے دن گذر جائیں ہیں پر بات چلی جاتی ہے رہ گئے گاہ تبسم پہ گہے…
کب وعدے کی رات وہ آئی جو آپس میں نہ لڑائی ہوئی
کب وعدے کی رات وہ آئی جو آپس میں نہ لڑائی ہوئی آخر اس اوباش نے مارا رہتی نہیں ہے آئی ہوئی چاہ میں اس…
کاوش سے ان پلکوں کی رہتی ہے خلش سی جگر میں اب
کاوش سے ان پلکوں کی رہتی ہے خلش سی جگر میں اب سیدھی نظر جو اس کی نہیں ہے یاس ہے اپنی نظر میں اب…
قصر و مکان و منزل ایکوں کو سب جگہ ہے
قصر و مکان و منزل ایکوں کو سب جگہ ہے ایکوں کو جا نہیں ہے دنیا عجب جگہ ہے اس کے بدن میں ہر جا…
فرو آتا نہیں سر ناز سے اب کے امیروں کا
فرو آتا نہیں سر ناز سے اب کے امیروں کا اگرچہ آسماں تک شور جاوے ہم فقیروں کا تبسم سحر ہے جب پان سے لب…
عیدیں آئیں بارہا لیکن نہ وے آ کر ملے
عیدیں آئیں بارہا لیکن نہ وے آ کر ملے رہتے ہیں ان کے گلے لگنے کے برسوں سے گلے اس زمانے کی تری سے لہر…
عشق ہمارا جی مارے ہے ہم ناداں ہیں کیا محظوظ
عشق ہمارا جی مارے ہے ہم ناداں ہیں کیا محظوظ ایسی شے کا زیاں کھینچے تو دانا ہووے نا محظوظ پانی منھ میں بھر آتا…
عشق کیا کیا آفتیں لاتا رہا
عشق کیا کیا آفتیں لاتا رہا آخر اب دوری میں جی جاتا رہا مہر و مہ گل پھول سب تھے پر ہمیں چہرئی چہرہ ہی…
عشق بلا پرشور و شر نے جب میدان میں خم مارا
عشق بلا پرشور و شر نے جب میدان میں خم مارا پاک ہوئی کشتی عالم کی آگے کن نے دم مارا بود نبود کی اپنی…
عالم علم میں ایک تھے ہم وے حیف ہے ان کو گیان نہیں
عالم علم میں ایک تھے ہم وے حیف ہے ان کو گیان نہیں اب کہتے ہیں خلطہ کیسا جان نہیں پہچان نہیں کس امید پہ…
طریق عشق میں ہے رہنما دل
طریق عشق میں ہے رہنما دل پیمبر دل ہے قبلہ دل خدا دل قیامت تھا مروت آشنا دل موئے پر بھی مرا اس میں رہا…
صوفیاں خم وا ہوئے ہیں ہائے آنکھیں وا کرو
صوفیاں خم وا ہوئے ہیں ہائے آنکھیں وا کرو ابر آیا زور غیرت تم بھی ٹک پیدا کرو مستی و دیوانگی کا عہد ہے بازار…
صبر بہت تھا ایک سمیں میں جا سے اپنی نہ جاتے ہم
صبر بہت تھا ایک سمیں میں جا سے اپنی نہ جاتے ہم کس کس ناز سے وے آتے پر آنکھ نہ ان سے ملاتے ہم…
شور سے طائر گلزار کے بیزار ہیں ہم
شور سے طائر گلزار کے بیزار ہیں ہم دل اٹھاتا نہیں اپنا کہ گرفتار ہیں ہم
شب شمع پر پتنگ کے آنے کو عشق ہے
شب شمع پر پتنگ کے آنے کو عشق ہے اس دل جلے کے تاب کے لانے کو عشق ہے سر مار مار سنگ سے مردانہ…
سینکڑوں بیکسوں کا جان گیا
سینکڑوں بیکسوں کا جان گیا پر یہ تیرا نہ امتحان گیا وائے احوال اس جفا کش کا عاشق اپنا جسے وہ جان گیا داغ حرماں…
سنیو جب وہ کبھو سوار ہوا میر تقی میر
سنیو جب وہ کبھو سوار ہوا تا بہ روح الامیں شکار ہوا اس فریبندہ کو نہ سمجھے آہ ہم نے جانا کہ ہم سے یار…
سر مارنا پتھر سے یا ٹکڑے جگر کرنا
سر مارنا پتھر سے یا ٹکڑے جگر کرنا اس عشق کی وادی میں ہر نوع بسر کرنا کہتے ہیں ادھر منھ کر وہ رات کو…
سب کھا گئے جگر تری پلکوں کے کاو کاو
سب کھا گئے جگر تری پلکوں کے کاو کاو ہم سینہ خستہ لوگوں سے بس آنکھ مت لگاؤ آنکھوں کا جھڑ برسنے سے ہتھیا کے…
زندگی ہوتی ہے اپنی غم کے مارے دیکھیے
زندگی ہوتی ہے اپنی غم کے مارے دیکھیے موند لیں آنکھیں ادھر سے تم نے پیارے دیکھیے لخت دل کب تک الٰہی چشم سے ٹپکا…
روئے کوئی کیا گئی جوانی یوں کر
روئے کوئی کیا گئی جوانی یوں کر جاتی ہے نسیم و گل کی نکہت جوں کر پیری آندھی سی میرؔ ناگہ آئی ہم برگ خزاں…
رہتے تھے ہم وے آٹھ پہر یا تو پاس پاس
رہتے تھے ہم وے آٹھ پہر یا تو پاس پاس یا اب پھٹک نہیں ہے کہیں ان کے آس پاس تا لوگ بدگماں نہ ہوں…
رنج کھینچے تھے داغ کھائے تھے
رنج کھینچے تھے داغ کھائے تھے دل نے صدمے بڑے اٹھائے تھے پاس ناموس عشق تھا ورنہ کتنے آنسو پلک تک آئے تھے وہی سمجھا…
رشک گلشن اگر تو ناز کرے
رشک گلشن اگر تو ناز کرے رنگ رو کو چمن نیاز کرے تیری ابرو جدھر کو مائل ہے ایک عالم ادھر نماز کرے
رات پیاسا تھا میرے لوہو کا
رات پیاسا تھا میرے لوہو کا ہوں دوانہ ترے سگ کو کا شعلۂ آہ جوں توں اب مجھ کو فکر ہے اپنے ہر بن مو…
دیکھیے کب ہو وصال اب تو لگے ہے ڈر بہت
دیکھیے کب ہو وصال اب تو لگے ہے ڈر بہت کوفت گذرے ہے فراق یار میں جی پر بہت دل کی ویسی ہے خرابی کثرت…
دوری میں اس کی گور کنارے ہم آ رہے
دوری میں اس کی گور کنارے ہم آ رہے جی رات دن جنھوں کے کھپیں ان میں کیا رہے اس آفتاب حسن کے ہم داغ…
دن فصل گل کے اب کے بھی جاتے ہیں باؤ سے
دن فصل گل کے اب کے بھی جاتے ہیں باؤ سے دل داغ ہو رہا ہے چمن کے سبھاؤ سے پہنچی نہ باس گل کی…
دل کی لاگ بری ہے ہوتی چنگے بھلے مر جاتے ہیں
دل کی لاگ بری ہے ہوتی چنگے بھلے مر جاتے ہیں آپ میں ہم سے بے خود و رفتہ پھر پھر بھی کیا آتے ہیں…
دل کو کہیں لگنے دو میرے کیا کیا رنگ دکھاؤں گا
دل کو کہیں لگنے دو میرے کیا کیا رنگ دکھاؤں گا چہرے سے خونناب ملوں گا پھولوں سے گل کھاؤں گا عہد کیے جاؤں ہوں…
دل غم سے خوں ہوا تو بس اب زندگی ہوئی
دل غم سے خوں ہوا تو بس اب زندگی ہوئی جان امیدوار سے شرمندگی ہوئی خدمت میں اس صنم کے گئی عمر پر ہمیں گویا…
دل جو ناگاہ بے قرار ہوا
دل جو ناگاہ بے قرار ہوا اس سے کیا جانوں کیا قرار ہوا شب کا پہنا جو دن تلک ہے مگر ہار اس کے گلے…
دل پہلو میں ناتواں بہت ہے
دل پہلو میں ناتواں بہت ہے بیمار مرا گراں بہت ہے ہر آن شکیب میں کمی ہے بیتابی زماں زماں بہت ہے مقصود کو دیکھیں…
درویشی کی جو سوختگی ہے سو ہے لذیذ
درویشی کی جو سوختگی ہے سو ہے لذیذ نان و نمک ہے داغ کا بھی ایک شے لذیذ
خیال چھوڑ دے واعظ تو بے گناہی کا
خیال چھوڑ دے واعظ تو بے گناہی کا رکھے ہے شوق اگر رحمت الٰہی کا سیاہ بخت سے میرے مجھے کفایت تھی لیا ہے داغ…
فلک نے گر کیا رخصت مجھے سیر بیاباں کو
فلک نے گر کیا رخصت مجھے سیر بیاباں کو نکالا سر سے میرے جائے مو خار مغیلاں کو وہ ظالم بھی تو سمجھے کہہ رکھا…
اب آنکھوں میں خوں دم بہ دم دیکھتے ہیں
اب آنکھوں میں خوں دم بہ دم دیکھتے ہیں نہ پوچھو جو کچھ رنگ ہم دیکھتے ہیں جو بے اختیاری یہی ہے تو قاصد ہمیں…
حیرت کی یہ معرکے کی جا ہے بارے
حیرت کی یہ معرکے کی جا ہے بارے کیا پوچھتے ہو مرتے ہیں عاشق سارے مشہور ہے عشق نے لڑائی ماری اس پر کہ گئے…
حال دل میرؔ کا رو رو کے سب اے ماہ سنا میر تقی میر
حال دل میرؔ کا رو رو کے سب اے ماہ سنا شب کو القصہ عجب قصۂ جانکاہ سنا نابلد ہو کے رہ عشق میں پہنچوں…
چمن میں گل نے جو کل دعوی جمال کیا میر تقی میر
چمن میں گل نے جو کل دعوی جمال کیا جمال یار نے منھ اس کا خوب لال کیا فلک نے آہ تری رہ میں ہم…
چپکے کھڑا ٹکڑے ہوتا ہوں ساری ہے الفت کی بات
چپکے کھڑا ٹکڑے ہوتا ہوں ساری ہے الفت کی بات تیغ نے اس کی کیا ہے قسمت یہ بھی ہے قسمت کی بات جان مسافر…
جیسے اندوہ محرم عشق کب تک دل ملے
جیسے اندوہ محرم عشق کب تک دل ملے عید سی ہو جائے اپنے ہاں لگے جو تو گلے دین و مذہب عاشقوں کا قابل پرسش…
جوں ابرقبلہ دل ہے نہایت ہی بھر رہا
جوں ابرقبلہ دل ہے نہایت ہی بھر رہا رونا مرا سنو گے کہ طوفان کر رہا شب میکدے سے وارد مسجد ہوا تھا میں پر…
جو رہے یوں ہی غم کے مارے ہم
جو رہے یوں ہی غم کے مارے ہم تو یہی آج کل سدھارے ہم مرتے رہتے تھے اس پہ یوں پر اب جا لگے گور…