میر تقی میر
صبح ہے کوئی آہ کر لیجے
صبح ہے کوئی آہ کر لیجے آسماں کو سیاہ کر لیجے چشم گل باغ میں مندی جا ہے جو بنے اک نگاہ کر لیجے ابر…
شور کیا جو اس کی گلی میں رات کو ہیں سب جان گئے
شور کیا جو اس کی گلی میں رات کو ہیں سب جان گئے آہ و فغاں کے طور سے میرے لوگ مجھے پہچان گئے عہد…
شب رفتہ میں اس کے در پر گیا
شب رفتہ میں اس کے در پر گیا سگ یار آدم گری کر گیا شکستہ دل عشق کی جان کیا نظر پھیری تو نے تو…
سینہ کوبی ہے طپش سے غم ہوا
سینہ کوبی ہے طپش سے غم ہوا دل کے جانے کا بڑا ماتم ہوا آنکھیں دوڑیں خلق جا اودھر گری اٹھ گیا پردہ کہاں اودھم…
سنو سرگذشت اب ہماری زبانی
سنو سرگذشت اب ہماری زبانی سنی گرچہ جاتی نہیں یہ کہانی بہت نذریں مانیں کہ مانے گا کہنا ولیکن مری بات ہرگز نہ مانی بہت…
سرزیر پر ہیں دیر سے اے ہم صفیر ہم
سرزیر پر ہیں دیر سے اے ہم صفیر ہم واقف نہیں ہوائے چمن سے اسیر ہم کیا ظلم تھے لباس میں اس تنگ پوش کے…
سب کام سونپ اس کو جو کچھ کام بھی چلے
سب کام سونپ اس کو جو کچھ کام بھی چلے جپ نام اس کا صبح کو تا نام بھی چلے گل بکھرے لال میرے قفس…
زمیں پر میں جو پھینکا خط کو کر بند
زمیں پر میں جو پھینکا خط کو کر بند بہت تڑپا کیا جوں مرغ پربند گرفت دل سے ناچاری ہے یعنی رہا ہوں بیٹھ میں…
رویا کیے ہیں غم سے ترے ہم تمام شب
رویا کیے ہیں غم سے ترے ہم تمام شب پڑتی رہی ہے زور سے شبنم تمام شب رکنے سے دل کے آج بچا ہوں تو…
رہتا ہے پیش دیدۂ تر آہ کا سبھاؤ
رہتا ہے پیش دیدۂ تر آہ کا سبھاؤ جیسے مصاحب ابر کی ہوتی ہے کوئی باؤ برسے گی برف عرصۂ محشر میں دشت دشت گر…
رکھو مت سر چڑھائے دلبروں کے گوندھے بالوں کو
رکھو مت سر چڑھائے دلبروں کے گوندھے بالوں کو کھلانا کھولنا مشکل بہت ہے ایسے کالوں کو اڑایا غم نے ان کے سوکھے پتوں کی…
رسوائے شہر ہے یاں حرف و سخن ہمارا
رسوائے شہر ہے یاں حرف و سخن ہمارا کیا خاک میں ملا ہے افسوس فن ہمارا دل خون ہو گیا تھا غم لکھتے سو رہے…
رات سے آنسو مری آنکھوں میں پھر آنے لگا
رات سے آنسو مری آنکھوں میں پھر آنے لگا یک رمق جی تھا بدن میں سو بھی گھبرانے لگا وہ لڑکپن سے نکل کر تیغ…
دیتی ہے طول بلبل کیا شورش فغاں کو
دیتی ہے طول بلبل کیا شورش فغاں کو اک نالہ حوصلے سے بس ہے وداع جاں کو میں تو نہیں پر اب تک مستانہ غنچے…
دن دوری چمن میں جو ہم شام کریں گے
دن دوری چمن میں جو ہم شام کریں گے تا صبح دوصد نالہ سر انجام کریں گے ہو گا ستم و جور سے تیرے ہی…
دل کی لاگ بری ہوتی ہے رہ نہ سکے ٹک جائے بھی
دل کی لاگ بری ہوتی ہے رہ نہ سکے ٹک جائے بھی آئے بیٹھے اٹھ بھی گئے بیتاب ہوئے پھر آئے بھی آنکھ نہ ٹک…
دل کو تسکین نہیں اشک دما دم سے بھی
دل کو تسکین نہیں اشک دما دم سے بھی اس زمانے میں گئی ہے برکت غم سے بھی ہم نشیں کیا کہوں اس رشک مہ…
دل عجب جنس گراں قدر ہے بازار نہیں
دل عجب جنس گراں قدر ہے بازار نہیں وے بہا سہل جو دیتے ہیں خریدار نہیں کچھ تمھیں ملنے سے بیزار ہو میرے ورنہ دوستی…
دل دفعتہً جنوں کا مہیا سا ہو گیا
دل دفعتہً جنوں کا مہیا سا ہو گیا دیکھی کہاں وہ زلف کہ سودا سا ہو گیا ٹک جوش سا اٹھا تھا مرے دل سے…
دل تڑپے ہے جان کھپے ہے حال جگر کا کیا ہو گا
دل تڑپے ہے جان کھپے ہے حال جگر کا کیا ہو گا مجنوں مجنوں لوگ کہے ہیں مجنوں کیا ہم سا ہو گا دیدۂ تر…
درویشوں سے تو ان نے ضدیں نکالیاں ہیں
درویشوں سے تو ان نے ضدیں نکالیاں ہیں ایدھر سے ہیں دعائیں اودھر سے گالیاں ہیں جبہے سے سینہ تک ہیں کیا کیا خراش ناخن…
داد فریاد جابجا کریے
داد فریاد جابجا کریے شاید اس کے بھی دل میں جا کریے اب سلگنے لگی ہے چھاتی بھی یعنی مدت پڑے جلا کریے چشم و…
قرار دل کا یہ کاہے کو ڈھنگ تھا آگے
قرار دل کا یہ کاہے کو ڈھنگ تھا آگے ہمارے چہرے کے اوپر بھی رنگ تھا آگے اٹھائیں تیرے لیے بد زبانیاں ان کی جنھوں…
اب اسیری سے بچیں تو دیکھیں گے گلشن کبھو
اب اسیری سے بچیں تو دیکھیں گے گلشن کبھو تھا ہمارا بھی چمن میں اے صبا مسکن کبھو ہم بھی ایک امید پر اس صید…
حیرت ہے کہ ہو رقیب محرم تیرا
حیرت ہے کہ ہو رقیب محرم تیرا ہمراز و انیس وقت و ہمدم تیرا جوں عکس ترے سامنے اکثر وہ ہو جوں آئینہ منھ تکا…
حال رہا ہو ہم میں کچھ تو حال کسو سے کہا جاوے
حال رہا ہو ہم میں کچھ تو حال کسو سے کہا جاوے آن رہے ہیں آج دموں پر کل تک کیونکے رہا جاوے اس کی…
چمن بھی ترا عاشق زار تھا
چمن بھی ترا عاشق زار تھا گل سرخ اک زرد رخسار تھا گئی نیند شیون سے بلبل کی رات کہیں دل ہمارا گرفتار تھا قد…
چپکے رہنا نہ میرؔ دل میں ٹھانو
چپکے رہنا نہ میرؔ دل میں ٹھانو بولو چالو کہا ہمارا مانو یک حرف نہ کہہ سکوگے وقت رفتن چلنے کو زبان کے غنیمت جانو
جیسے نسیم ہر سحر تیری کروں ہوں جستجو
جیسے نسیم ہر سحر تیری کروں ہوں جستجو خانہ بہ خانہ در بہ در شہر بہ شہر کو بہ کو
جوں ابر بے کسانہ روتے اٹھے ہیں گھر سے
جوں ابر بے کسانہ روتے اٹھے ہیں گھر سے برسے ہے عشق اپنے دیوار اور در سے جمہور راہ اس کی دیکھا کرے ہے اکثر…
جو حیدری نہیں اسے ایمان ہی نہیں
جو حیدری نہیں اسے ایمان ہی نہیں ہو گر شریف مکہ مسلمان ہی نہیں وہ ترک صید پیشہ مرا قصد کیا کرے دبلے پنے سے…
جنوں میں اب کے کام آئی نہ کچھ تدبیر بھی آخر
جنوں میں اب کے کام آئی نہ کچھ تدبیر بھی آخر گئی کل ٹوٹ میرے پاؤں کی زنجیر بھی آخر اگر ساکت ہیں ہم حیرت…
جس وقت شروع یہ حکایت ہوگی
جس وقت شروع یہ حکایت ہوگی رنجیدگی یک دگر نہایت ہوگی احوال وفا کا اپنے ہرگز مجھ سے مت پوچھ کہ کہنے میں شکایت ہوگی
جب نام ترا لیجیے تب چشم بھر آوے
جب نام ترا لیجیے تب چشم بھر آوے اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے تلوار کا بھی مارا خدا رکھے ہے ظالم یہ…
جب تک کڑی اٹھائی گئی ہم کڑے رہے
جب تک کڑی اٹھائی گئی ہم کڑے رہے ایک ایک سخت بات پہ برسوں اڑے رہے اب کیا کریں نہ صبر ہے دل کو نہ…
جامۂ مستی عشق اپنا مگر کم گھیر تھا میر تقی میر
جامۂ مستی عشق اپنا مگر کم گھیر تھا دامن تر کا مرے دریا ہی کا سا پھیر تھا دیر میں کعبے گیا میں خانقہ سے…
تیغ کی اپنی صفت لکھتے جو کل وہ آ گیا
تیغ کی اپنی صفت لکھتے جو کل وہ آ گیا ہنس کے اس پرچے کو میرے ہی گلے بندھوا گیا دست و پا گم کرنے…
تھا مستعار حسن سے اس کے جو نور تھا میر تقی میر
تھا مستعار حسن سے اس کے جو نور تھا خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا ہنگامہ گرم کن جو دل ناصبور تھا…
تظلم کہ کھینچے الم پر الم
تظلم کہ کھینچے الم پر الم ترحم کہ مت کر ستم پر ستم علم بازی آہ جانکاہ ہے رہے ٹوٹتے ہی علم پر علم جو…
ترا اے ناتوانی جو کوئی عالم میں رسوا ہے
ترا اے ناتوانی جو کوئی عالم میں رسوا ہے توانائی کا منھ دیکھا نہیں ان نے کہ کیسا ہے نیاز ناتواں کیا ناز سرو قد…
تابوت مرا دیر اٹھا اس کی گلی سے
تابوت مرا دیر اٹھا اس کی گلی سے اثبات ہوا جرم محبت کا اسی سے تم چھیڑتے ہو بزم میں مجھ کو تو ہنسی سے…
پیری میں بے دنداں ہو بیٹھے پر افسوس یہ ہم کو رہا
پیری میں بے دنداں ہو بیٹھے پر افسوس یہ ہم کو رہا دانت تمھارے منھ میں کے ہیں اس مغرور نے یوں نہ کہا کیا…
پھر اب چلو چمن میں کھلے غنچے رک گئے
پھر اب چلو چمن میں کھلے غنچے رک گئے شاخوں سمیت پھول نہالوں کے جھک گئے چندیں ہزار دیدۂ گل رہ گئے کھلے افسوس ہے…
بیگانہ وضع برسوں اس شہر میں رہا ہوں
بیگانہ وضع برسوں اس شہر میں رہا ہوں بھاگوں ہوں دور سب سے میں کس کا آشنا ہوں پوچھا کیے ہیں مجھ سے گل برگ…
بے کلی بے خودی کچھ آج نہیں
بے کلی بے خودی کچھ آج نہیں ایک مدت سے وہ مزاج نہیں درد اگر یہ ہے تو مجھے بس ہے اب دوا کی کچھ…
بہتوں کو آگے تھا یہی آزار عشق کا
بہتوں کو آگے تھا یہی آزار عشق کا جیتا رہا ہے کوئی بھی بیمار عشق کا بے پردگی بھی چاہ کا ہوتا ہے لازمہ کھلتا…
بلبل نے کل کہا کہ بہت ہم نے کھائے گل
بلبل نے کل کہا کہ بہت ہم نے کھائے گل لیکن ہزار حیف نہ ٹھہری ہوائے گل رعنا جوان شہر کے رہتے ہیں گل بسر…
برنگ بوئے گل اس باغ کے ہم آشنا ہوتے
برنگ بوئے گل اس باغ کے ہم آشنا ہوتے کہ ہمراہ صبا ٹک سیر کرتے پھر ہوا ہوتے سراپا آرزو ہونے نے بندہ کر دیا…
بالقوہ ٹک دکھایئے چشم پر آب کا
بالقوہ ٹک دکھایئے چشم پر آب کا دامن پکڑ کے رویئے یک دم سحاب کا جو کچھ نظر پڑے ہے حقیقت میں کچھ نہیں عالم…