میر تقی میر
تری پلکیں چبھتی نظر میں بھی ہیں
تری پلکیں چبھتی نظر میں بھی ہیں یہ کانٹے کھٹکتے جگر میں بھی ہیں رہے پھرتے دریا میں گرداب سے وطن میں بھی ہیں ہم…
تجھ بن اے نوبہار کے مانند
تجھ بن اے نوبہار کے مانند چاک ہے دل انار کے مانند پہنچی شاید جگر تک آتش عشق اشک ہیں سب شرار کے مانند کو…
پیغمبر حق کہ حق دکھایا اس کا
پیغمبر حق کہ حق دکھایا اس کا معراج ہے کمترین پایہ اس کا سایہ جو اسے نہ تھا یہ باعث ہے گا کل حشر کو…
پھوٹا کیے پیالے لنڈھتا پھرا قرابا
پھوٹا کیے پیالے لنڈھتا پھرا قرابا مستی میں میری تھا یاں اک شور اور شرابا حکمت ہے کچھ جو گردوں یکساں پھرا کرے ہے چلتا…
پرپیچ بہت ہے شکن زلف سیاہ
پرپیچ بہت ہے شکن زلف سیاہ وارفتہ نہ رہ اس کا دلا بے گہ و گاہ دیوانگی کرنے کی جگہ بھی ٹک دیکھ جا ملتی…
بے یار ہوں بیکس ہوں آگاہ نہیں کوئی
بے یار ہوں بیکس ہوں آگاہ نہیں کوئی بے غم کرو خوں ریزی خوں خواہ نہیں کوئی کیا تنگ مخوف ہے اس نیستی کا رستہ…
بود نقش و نگار سا ہے کچھ
بود نقش و نگار سا ہے کچھ صورت اک اعتبار سا ہے کچھ یہ جو مہلت جسے کہیں ہیں عمر دیکھو تو انتظار سا ہے…
بنی تھی کچھ اک اس سے مدت کے بعد
بنی تھی کچھ اک اس سے مدت کے بعد سو پھر بگڑی پہلی ہی صحبت کے بعد جدائی کے حالات میں کیا کہوں قیامت تھی…
بزم میں منھ ادھر کریں کیوں کر
بزم میں منھ ادھر کریں کیوں کر اور نیچی نظر کریں کیوں کر یوں بھی مشکل ہے ووں بھی مشکل ہے سر جھکائے گذر کریں…
بتوں سے آنکھ کیوں میں نے لڑائی
بتوں سے آنکھ کیوں میں نے لڑائی طرف ہے مجھ سے اب ساری خدائی نرا دھوکا ہی ہے دریائے ہستی نہیں کچھ تہ سے تجھ…
باد صبا نے اہل چمن میں اس چہرے کی چلائی بات
باد صبا نے اہل چمن میں اس چہرے کی چلائی بات اس لب و لہجے پر بلبل کو اس کے آگے نہ آئی بات دور…
ایک پرواز کو بھی رخصت صیاد نہیں
ایک پرواز کو بھی رخصت صیاد نہیں ورنہ یہ کنج قفس بیضۂ فولاد نہیں شیخ عزلت تو تہ خاک بھی پہنچے گی بہم مفت ہے…
اے نوخط ایک دن ہے جھگڑا ہمارے تیرے
اے نوخط ایک دن ہے جھگڑا ہمارے تیرے سبزی بہت لگی ہے منھ سے پیارے تیرے حیران حال عاشق ہو گی اجل پہنچ کر کیا…
اے تو کہ یاں سے عاقبت کار جائے گا
اے تو کہ یاں سے عاقبت کار جائے گا غافل نہ رہ کہ قافلہ اک بار جائے گا موقوف حشر پر ہے سو آتے بھی…
آہ وہ عاشق ستم ترک جفا کرتا نہیں
آہ وہ عاشق ستم ترک جفا کرتا نہیں اور مطلق اب دماغ اپنا وفا کرتا نہیں بات میں غیروں کو چپ کر دوں ولیکن کیا…
آنکھوں کی طرف گوش کی در پردہ نظر ہے
آنکھوں کی طرف گوش کی در پردہ نظر ہے کچھ یار کے آنے کی مگر گرم خبر ہے یہ راہ و روش سرو گلستاں میں…
الٰہی کہاں منھ چھپایا ہے تو نے
الٰہی کہاں منھ چھپایا ہے تو نے ہمیں کھو دیا ہے تری جستجو نے جو خواہش نہ ہوتی تو کاہش نہ ہوتی ہمیں جی سے…
اگر راہ میں اس کی رکھا ہے گام
اگر راہ میں اس کی رکھا ہے گام گئے گذرے خضر علیہ السلام دہن یار کا دیکھ چپ لگ گئی سخن یاں ہوا ختم حاصل…
اسیر کر کے نہ لی تو نے تو خبر صیاد
اسیر کر کے نہ لی تو نے تو خبر صیاد اڑا کیے مرے پرکالۂ جگر صیاد پھریں گے لوٹتے صحن چمن میں باؤ کے ساتھ…
اس کام جان و دل سے جو کوئی جدا ہوا
اس کام جان و دل سے جو کوئی جدا ہوا دیکھا پھر اس کو خاک میں ہم نے ملا ہوا کر ترک گرچہ بیٹھے ہیں…
اس تک کوشش سے بھی نہ پہنچے جان سے آخر سارے گئے
اس تک کوشش سے بھی نہ پہنچے جان سے آخر سارے گئے عاشق اس کی قامت کے بالا بالا مارے گئے اس کے روئے خوئے…
ادھر سے ابر اٹھ کر جو گیا ہے
ادھر سے ابر اٹھ کر جو گیا ہے ہماری خاک پر بھی رو گیا ہے مصائب اور تھے پر دل کا جانا عجب اک سانحہ…
آج ہمارا دل تڑپے ہے کوئی ادھر سے آوے گا
آج ہمارا دل تڑپے ہے کوئی ادھر سے آوے گا یا کہ نوشتہ ان ہاتھوں کا قاصد ہم تک لاوے گا ہم نہیں لکھتے اس…
اترا تھا غریبانہ کنارے آکر
اترا تھا غریبانہ کنارے آکر لب خشک موا سو نورچشم حیدر تر حلق دم آب سے اس کا نہ ہوا اے آب فرات خاک تیرے…
اب وہ نہیں کہ آنکھیں تھیں پر آب روز و شب
اب وہ نہیں کہ آنکھیں تھیں پر آب روز و شب ٹپکا کرے ہے آنکھوں سے خونناب روز و شب اک وقت رونے کا تھا…
اب ظلم ہے اس خاطر تا غیر بھلا مانے
اب ظلم ہے اس خاطر تا غیر بھلا مانے پس ہم نہ برا مانیں تو کون برا مانے سرمایۂ صد آفت دیدار کی خواہش ہے…
یہ سرا سونے کی جاگہ نہیں بیدار رہو
یہ سرا سونے کی جاگہ نہیں بیدار رہو ہم نے کر دی ہے خبر تم کو خبردار رہو آپ تو ایسے بنے اب کہ جلے…
یاں جو وہ نونہال آتا ہے
یاں جو وہ نونہال آتا ہے جی میں کیا کیا خیال آتا ہے اس کے چلنے کی آن کا بے حال مدتوں میں بحال آتا…
یاد جب آتی ہے وہ زلف سیاہ
یاد جب آتی ہے وہ زلف سیاہ سانپ سا چھاتی پہ پھر جاتا ہے آہ کھل گیا منھ اب تو اس محجوب کا کچھ سخن…
وہ مخطط ہے محو ناز ہنوز
وہ مخطط ہے محو ناز ہنوز کچھ پذیرا نہیں نیاز ہنوز کیا ہوا خوں ہوا کہ داغ ہوا دل ہمارا نہیں گداز ہنوز سادگی دیکھ…
وہ تو نہیں کہ اودھم رہتا تھا آشیاں تک
وہ تو نہیں کہ اودھم رہتا تھا آشیاں تک آشوب نالہ اب تو پہنچا ہے آسماں تک لبریز جلوہ اس کا سارا جہاں ہے یعنی…
وارد گلشن غزل خواں وہ جو دلبر یاں ہوا
وارد گلشن غزل خواں وہ جو دلبر یاں ہوا دامن گل گریۂ خونیں سے سب افشاں ہوا طائران باغ کو تھا بیت بحثی کا دماغ…
ہے عشق میں جو حال بتر تو ہے کیا عجب
ہے عشق میں جو حال بتر تو ہے کیا عجب مر جائے کوئی خستہ جگر تو ہے کیا عجب لے جا کے نامے کتنے کبوتر…
ہوں خاک پا جو اس کی ہر کوئی سر چڑھاوے
ہوں خاک پا جو اس کی ہر کوئی سر چڑھاوے منھ پھیرے وہ تو ہم کو پھر کون منھ لگاوے ان دو ہی صورتوں میں…
ہنستے ہی ہنستے مار رکھا تھے جو ہم ظریف
ہنستے ہی ہنستے مار رکھا تھے جو ہم ظریف ہے یار بھی ہمارا قیامت ستم ظریف
ہم نہ کہا کرتے تھے تم سے دل نہ کسو سے لگاؤ تم
ہم نہ کہا کرتے تھے تم سے دل نہ کسو سے لگاؤ تم جی دینا پڑتا ہے اس میں ایسا نہ ہو پچھتاؤ تم سو…
ہم رو رو کے درد دل دیوانہ کہیں گے
ہم رو رو کے درد دل دیوانہ کہیں گے جی میں ہے کبھو حال غریبانہ کہیں گے موقوف غم میرؔ کی شب ہو چکی ہمدم…
ہم اور تیری گلی سے سفر دروغ دروغ
ہم اور تیری گلی سے سفر دروغ دروغ کہاں دماغ ہمیں اس قدر دروغ دروغ تم اور ہم سے محبت تمھیں خلاف خلاف ہم اور…
ہر دم وہ شوخ دست بہ شمشیر کیوں نہ ہو
ہر دم وہ شوخ دست بہ شمشیر کیوں نہ ہو کچھ ہم نے کی ہے ایسی ہی تقصیر کیوں نہ ہو اب تو جگر کو…
ہاتھ بے سبحہ ٹک رہا نہ کبھو
ہاتھ بے سبحہ ٹک رہا نہ کبھو دل کا منکا ولے پھرا نہ کبھو کیونکے عرفان ہو گیا سب کو اپنے ڈھب پر تو وہ…
نہ مائل آرسی کا رہ سراپا درد ہو گا تو
نہ مائل آرسی کا رہ سراپا درد ہو گا تو نہ ہو گلچین باغ حسن ظالم زرد ہو گا تو یہ پیشہ عشق کا ہے…
نہ بک شیخ اتنا بھی واہی تباہی
نہ بک شیخ اتنا بھی واہی تباہی کہاں رحمت حق کہاں بے گناہی ملوں کیونکے ہم رنگ ہو تجھ سے اے گل ترا رنگ شعلہ…
نقش بیٹھے ہے کہاں خواہش آزادی کا
نقش بیٹھے ہے کہاں خواہش آزادی کا ننگ ہے نام رہائی تری صیادی کا داد دے ورنہ ابھی جان پہ کھیلوں ہوں میں دل جلانا…
نالہ مرا اگر سبب شور و شر نہ ہو
نالہ مرا اگر سبب شور و شر نہ ہو پھر مر بھی جایئے تو کسو کو خبر نہ ہو دل پر ہوا سو آہ کے…
میں گلستاں میں آ کے عبث آشیاں کیا
میں گلستاں میں آ کے عبث آشیاں کیا بلبل نے بھی نہ طور گلوں کا بیاں کیا پھر اس کے ابرواں کا خم و تاب…
میرا ہی مقلد عمل تھا
میرا ہی مقلد عمل تھا مجنوں کے دماغ میں خلل تھا دل ٹوٹ گیا تو خوں نہ نکلا شیشہ یہ بہت ہی کم بغل تھا…
مہر قیامت چاہت آفت فتنہ فساد بلا ہے عشق
مہر قیامت چاہت آفت فتنہ فساد بلا ہے عشق عشق اللہ صیاد انھیں کہیو جن لوگوں نے کیا ہے عشق عشق سے نظم کل ہے…
ملتفت ہوتا نہیں ہے گاہ تو
ملتفت ہوتا نہیں ہے گاہ تو کس قدر مغرور ہے اللہ تو مجھ سے کتنے جان سے جاتے رہے کس کی میت کے گیا ہمراہ…
مشہور ہیں دنوں کی مرے بے قراریاں
مشہور ہیں دنوں کی مرے بے قراریاں جاتی ہیں لامکاں کو دل شب کی زاریاں چہرے پہ جیسے زخم ہے ناخن کا ہر خراش اب…
مرا دل پیر و مرشد ہے مجھے ہے اعتقاد اس سے
مرا دل پیر و مرشد ہے مجھے ہے اعتقاد اس سے فراموش آپ کو کرنا محبت میں ہے یاد اس سے بلا انداز ہے اس…