میر تقی میر
ہم تو مطرب پسرکے جاتے ہیں
ہم تو مطرب پسرکے جاتے ہیں گو رقیباں کچھ اور گاتے ہیں خاک میں لوٹتے تھے کل تجھ بن آج لوہو میں ہم نہاتے ہیں…
ہر لحظہ رلاتا ہے کڑھاتا ہے مجھے
ہر لحظہ رلاتا ہے کڑھاتا ہے مجھے ہر آن ستاتا ہے کھپاتا ہے مجھے کل میں جو کہا رنج سے حاصل میرے بولا ترا آزار…
ہر جا پھرا غبار ہمارا اڑا ہوا
ہر جا پھرا غبار ہمارا اڑا ہوا تیری گلی میں لائی صبا تو بجا ہوا آہ سحر نے دل کی نہ کھولی گرہ کبھی آخر…
نہیں وہ قید الفت میں گرفتاری کو کیا جانے
نہیں وہ قید الفت میں گرفتاری کو کیا جانے تکلف برطرف بے مہر ہے یاری کو کیا جانے وہی اک مندرس نالہ مبارک مرغ گلشن…
نہ خاطر پر الم تیرے نہ دل پر کچھ ستم تیرے
نہ خاطر پر الم تیرے نہ دل پر کچھ ستم تیرے محل رحم ہوویں کس طرح مظلوم ہم تیرے جو ٹک بھی سایہ گستر ہو…
نکلے ہے جنس حسن کسی کاروان میں
نکلے ہے جنس حسن کسی کاروان میں یہ وہ نہیں متاع کہ ہو ہر دکان میں جاتا ہے اک ہجوم غم عشق جی کے ساتھ…
نچیں جب ہے عاشق اگر دست پائیں
نچیں جب ہے عاشق اگر دست پائیں خدا نُہ نہ دے ان کو جو سر کھجائیں جھمکنے لگا خوں تو جائے سرشک ابھی دیکھیں آنکھیں…
ناچار ہم تو تجھ بن جی مار کر رہیں گے
ناچار ہم تو تجھ بن جی مار کر رہیں گے پر اس روش کو تیری یہ لوگ کیا کہیں گے
میلان دل ہے زلف سیہ فام کی طرف
میلان دل ہے زلف سیہ فام کی طرف جاتا ہے صید آپ سے اس دام کی طرف دل اپنا عدل داور محشر سے جمع ہے…
موئے سہتے سہتے جفا کاریاں
موئے سہتے سہتے جفا کاریاں کوئی ہم سے سیکھے وفاداریاں ہماری تو گذری اسی طور عمر یہی نالہ کرنا یہی زاریاں فرشتہ جہاں کام کرتا…
منعقد کاش مجلس مل ہو
منعقد کاش مجلس مل ہو درمیاں تو ہو سامنے گل ہو گرمیاں متصل رہیں باہم نے تساہل ہو نے تغافل ہو اب دھواں یوں جگر…
مغاں مجھ مست بن پھر خندۂ ساغر نہ ہووے گا
مغاں مجھ مست بن پھر خندۂ ساغر نہ ہووے گا مئے گلگوں کا شیشہ ہچکیاں لے لے کے رووے گا کیا ہے خوں مرا پامال…
مستانہ اگرچہ میں طاعت کو لگا جاتا
مستانہ اگرچہ میں طاعت کو لگا جاتا پر بعد نماز اٹھ کر میخانہ چلا جاتا بازار میں ہو جانا اس مہ کا تماشا تھا یوسفؑ…
مذکور میری سوختگی کا جو چل پڑا
مذکور میری سوختگی کا جو چل پڑا مجلس میں سن سپند یکایک اچھل پڑا پہنچے ہے کوئی اس تن نازک کے لطف کو گل گو…
محرم سے کسو روبرو ہوں کاشکے اب ہم
محرم سے کسو روبرو ہوں کاشکے اب ہم بے وجہ غضب رہنے کا پوچھیں جو سبب ہم تدبیریں کریں اپنے تن زار و زبوں کی…
مثال سایہ محبت میں جال اپنا ہوں
مثال سایہ محبت میں جال اپنا ہوں تمھارے ساتھ گرفتار حال اپنا ہوں سرشک سرخ کو جاتا ہوں جو پیے ہر دم لہو کا پیاسا…
لیتے ہیں سانس یوں ہم جوں تار کھینچتے ہیں
لیتے ہیں سانس یوں ہم جوں تار کھینچتے ہیں اب دل گرفتگی سے آزار کھینچتے ہیں سینہ سپر کیا تھا جن کے لیے بلا کا…
لذت سے نہیں خالی جانوں کا کھپا جانا
لذت سے نہیں خالی جانوں کا کھپا جانا کب خضر و مسیحا نے مرنے کا مزہ جانا ہم جاہ و حشم یاں کا کیا کہیے…
گئے جس دم سے ہم اس تند خو پاس
گئے جس دم سے ہم اس تند خو پاس رہے خنجر ستم ہی کے گلو پاس قیامت ہے نہ اے سرمایۂ جاں نہ ہووے وقت…
گلبرگ سی زباں سے بلبل نے کیا فغاں کی
گلبرگ سی زباں سے بلبل نے کیا فغاں کی سب جیسے اڑ گئی ہے رنگینی گلستاں کی مطلوب گم کیا ہے تب اور بھی پھرے…
گل برگ سے ہیں نازک خوبی پا تو دیکھو
گل برگ سے ہیں نازک خوبی پا تو دیکھو کیا ہے جھمک کفک کی رنگ حنا تو دیکھو ہر بات پر خشونت طرزجفا تو دیکھو…
گرچہ آتے ہیں گل ہزار ہنوز
گرچہ آتے ہیں گل ہزار ہنوز نہ گیا دل سے روئے یار ہنوز بے قراری میں ساری عمر گئی دل کو آتا نہیں قرار ہنوز…
کیونکے نکلا جائے بحر غم سے مجھ بے دل کے پاس
کیونکے نکلا جائے بحر غم سے مجھ بے دل کے پاس آ کے ڈوبی جاتی ہے کشتی مری ساحل کے پاس ہے پریشاں دشت میں…
کیا ہے عشق جب سے میں نے اس ترک سپاہی کا
کیا ہے عشق جب سے میں نے اس ترک سپاہی کا پھروں ہوں چور زخمی اس کی تیغ کم نگاہی کا اگر ہم قطعۂ شب…
کیا مصیبت زدہ دل مائل آزار نہ تھا
کیا مصیبت زدہ دل مائل آزار نہ تھا کون سے درد و ستم کا یہ طرفدار نہ تھا آدم خاکی سے عالم کو جلا ہے…
کیا کہیے کہ خوباں نے اب ہم میں ہے کیا رکھا
کیا کہیے کہ خوباں نے اب ہم میں ہے کیا رکھا ان چشم سیاہوں نے بہتوں کو سلا رکھا جلوہ ہے اسی کا سب گلشن…
کیا کہوں کیا رکھتے تھے تجھ سے ترے بیمار چشم
کیا کہوں کیا رکھتے تھے تجھ سے ترے بیمار چشم تجھ کو بالیں پر نہ دیکھا کھولی سو سو بار چشم ہجر میں پاتا نہیں…
کیا عشق سو پھر مجھے غم رہا
کیا عشق سو پھر مجھے غم رہا مژہ نم رہیں حال درہم رہا ضعیف و قوی دونوں رہتے نہیں نہ یاں زال ٹھہرا نہ رستم…
کیا چال نکالی ہے کہ جو دیکھے سو مر جائے
کیا چال نکالی ہے کہ جو دیکھے سو مر جائے بھیچک کوئی رہ جائے کوئی جی سے گذر جائے تا چند یہ خمیازہ کشی تنگ…
کی سیر ہم نے سینۂ یکسر فگار کی
کی سیر ہم نے سینۂ یکسر فگار کی اس تختے نے بھی اب کے قیامت بہار کی دریائے حسن یار تلاطم کرے کہیں خواہش ہے…
کھینچنا رنج و تعب کا دوستاں عادت کرو
کھینچنا رنج و تعب کا دوستاں عادت کرو تب کسی ناآشنائے مہر سے الفت کرو روٹھ کر منتا نہیں وہ شوخ یوں کیوں نہ کوئی…
کھنچتا ہے اس طرف ہی کو بے اختیار دل
کھنچتا ہے اس طرف ہی کو بے اختیار دل دیوانہ دل بلا زدہ دل بے قرار دل سمجھا بھی تو کہ دل کسے کہتے ہیں…
کم فرصتی گل جو کہیں کوئی نہ مانے
کم فرصتی گل جو کہیں کوئی نہ مانے ایسے گئے ایام بہاراں کہ نہ جانے تھے شہر میں اے رشک پری جتنے سیانے سب ہو…
خوار پھرایا گلیوں گلیوں سر مارے دیواروں سے
خوار پھرایا گلیوں گلیوں سر مارے دیواروں سے کیا کیا ان نے سلوک کیے ہیں شہر کے عزت داروں سے دور اس سے تو اپنے…
کعبے کے در پہ تھے ہم یا دیر میں در آئے
کعبے کے در پہ تھے ہم یا دیر میں در آئے آوارگی تو دیکھو کیدھر سے کیدھر آئے دیوانگی ہے میری اب کے کوئی تماشا…
کروں جو آہ زمین و زمان جل جاوے
کروں جو آہ زمین و زمان جل جاوے سپہر نیلی کا یہ سائبان جل جاوے دی آگ دل کو محبت نے جب سے پھرتا ہوں…
کرتا جنوں جہاں میں بے نام و ننگ آیا
کرتا جنوں جہاں میں بے نام و ننگ آیا اک جمع لڑکوں کا بھی لے لے کے سنگ آیا شب شمع کی بھی جھپکی مجلس…
کچھ بات ہے کہ گل ترے رنگیں دہاں سا ہے
کچھ بات ہے کہ گل ترے رنگیں دہاں سا ہے یا رنگ لالہ شوخ ترے رنگ پاں سا ہے آیا ہے زیر زلف جو رخسار…
کب سے صحبت بگڑ رہی ہے کیونکر کوئی بناوے اب
کب سے صحبت بگڑ رہی ہے کیونکر کوئی بناوے اب ناز و نیاز کا جھگڑا ایسا کس کے کنے لے جاوے اب سوچتّے آتے ہیں…
کام پل میں مرا تمام کیا
کام پل میں مرا تمام کیا غرض اس شوخ نے بھی کام کیا سرو و شمشاد خاک میں مل گئے تو نے گلشن میں کیوں…
قد کھینچے ہے جس وقت تو ہے طرفہ بلا تو
قد کھینچے ہے جس وقت تو ہے طرفہ بلا تو کہتا ہے ترا سایہ پری سے کہ ہے کیا تو گر اپنی روش راہ چلا…
فائدہ مصر میں یوسفؑ رہے زندان کے بیچ
فائدہ مصر میں یوسفؑ رہے زندان کے بیچ بھیج دے کیوں نہ زلیخا اسے کنعان کے بیچ تو نہ تھا مردن دشوار میں عاشق کے…
غم سے یہ راہ میں نے نکالی نجات کی
غم سے یہ راہ میں نے نکالی نجات کی سجدہ اس آستاں کا کیا پھر وفات کی نسبت تو دیتے ہیں ترے لب سے پر…
عہد اس کا غلط قرار عبث
عہد اس کا غلط قرار عبث دل ہمارا ہے بے قرار عبث ہم گلا کاٹتے ہی تھے اپنا تو گلے کا ہوا ہے ہار عبث…
عشق میں نے خوف و خطر چاہیے
عشق میں نے خوف و خطر چاہیے جان کے دینے کو جگر چاہیے قابل آغوش ستم دیدگاں اشک سا پاکیزہ گہر چاہیے حال یہ پہنچا…
عشق کو جرأت و جگر ہے شرط
عشق کو جرأت و جگر ہے شرط زردی رنگ و چشم تر ہے شرط بے خبر حال سے نہ رہ میرے میں کہے رکھتا ہوں…
عشاق کے تئیں ہے عجز و نیاز واجب
عشاق کے تئیں ہے عجز و نیاز واجب ہے فرض عین رونا دل کا گداز واجب یوں سرفرو نہ لاوے ناداں کوئی وگرنہ رہنا سجود…
ظلم و ستم کیا جور و جفا کیا جو کچھ کہیے اٹھاتا ہوں
ظلم و ستم کیا جور و جفا کیا جو کچھ کہیے اٹھاتا ہوں خفت کھینچ کے جاتا ہوں رہتا نہیں دل پھر آتا ہوں گھر…
طلب ہے کام دل کی اس کے بالوں کی اسیری میں
طلب ہے کام دل کی اس کے بالوں کی اسیری میں گدائی رات کو کرتا ہوں خجلت سے فقیری میں نگہ عزلت میں اس ابرو…
صورت پھرے نہ یار کی کیوں چشم تر کے بیچ
صورت پھرے نہ یار کی کیوں چشم تر کے بیچ تاثیر ہے گی اہل وفا کے ہنر کے بیچ خوش سیرتی ہے جس سے کہ…