میر تقی میر
ہجر کی اک آن میں دل کا ٹھکانا ہو گیا
ہجر کی اک آن میں دل کا ٹھکانا ہو گیا ہر زماں ملتے تھے باہم سو زمانہ ہو گیا واں تعلل ہی تجھے کرتے گئے…
نہیں تبخال لعل دلربا میں
نہیں تبخال لعل دلربا میں گہر پہنچا بہم آب بقا میں غریبانہ کوئی شب روز کر یاں ہمیشہ کون رہتا ہے سرا میں اٹھاتے ہاتھ…
نہ پایا دل ہوا روز سیہ سے جس کا جا لٹ پٹ
نہ پایا دل ہوا روز سیہ سے جس کا جا لٹ پٹ کسو کی زلف ڈھونڈی مو بہ مو کا کل کو سب لٹ لٹ…
نظر کیوں گئی رو و مو کی طرف
نظر کیوں گئی رو و مو کی طرف کھنچا جائے ہے دل کسو کی طرف نہ دیکھو کبھی موتیوں کی لڑی جو دیکھو مری گفتگو…
ناگہ جو وہ صنم ستم ایجاد آ گیا
ناگہ جو وہ صنم ستم ایجاد آ گیا دیکھے سے طور اس کے خدا یاد آ گیا پھوڑا تھا سر تو ہم نے بھی پر…
میں کون ہوں اے ہم نفساں سوختہ جاں ہوں
میں کون ہوں اے ہم نفساں سوختہ جاں ہوں اک آگ مرے دل میں ہے جو شعلہ فشاں ہوں لایا ہے مرا شوق مجھے پردے…
میرؔ کل صحبت میں اس کی حرف سرکر رہ گیا
میرؔ کل صحبت میں اس کی حرف سرکر رہ گیا پیش جاتے کچھ نہ دیکھی چشم تر کر رہ گیا خوبی اپنے طالع بد کی…
منھ دھوتے اس کے آتا تو ہے اکثر آفتاب
منھ دھوتے اس کے آتا تو ہے اکثر آفتاب کھاوے گا آفتابہ کوئی خودسر آفتاب سر صدقے تیرے ہونے کی خاطر بہت ہے گرم مارا…
ملا یا رب کہیں اس صید افگن سربسر کیں کو
ملا یا رب کہیں اس صید افگن سربسر کیں کو کہ افشاں کیجے خون اپنے سے اس کے دامن زیں کو گئے وے سابقے سارے…
مشہور چمن میں تری گل پیرہنی ہے
مشہور چمن میں تری گل پیرہنی ہے قرباں ترے ہر عضو پہ نازک بدنی ہے عریانی آشفتہ کہاں جائے پس از مرگ کشتہ ہے ترا…
مرتے ہیں تیری نرگس بیمار دیکھ کر
مرتے ہیں تیری نرگس بیمار دیکھ کر جاتے ہیں جی سے کس قدر آزار دیکھ کر افسوس وے کہ منتظر اک عمر تک رہے پھر…
مدت سے اب وہی ہے مرا ہم کنار دل
مدت سے اب وہی ہے مرا ہم کنار دل آزردہ دل ستم زدہ و بے قرار دل جو کہیے ہے فسردہ و مردہ ضعیف و…
مجھ سا بیتاب ہووے جب کوئی
مجھ سا بیتاب ہووے جب کوئی بے قراری کو جانے تب کوئی ہاں خدا مغفرت کرے اس کو صبر مرحوم تھا عجب کوئی جان دے…
مباد کینے پہ اس بت کی طبع آئی ہو
مباد کینے پہ اس بت کی طبع آئی ہو پھر ایک بس ہے وہی گو ادھر خدائی ہو مدد نہ اتنی بھی کی بخت ناموافق…
لطف ہے کیا انواع ستم جو اس کے کوئی بیان کرے
لطف ہے کیا انواع ستم جو اس کے کوئی بیان کرے گوش زد اک دن ہوویں کہیں تو بے لطفی سے زبان کرے ہم تو…
گئے قیدی ہو ہم آواز جب صیاد آ لوٹا
گئے قیدی ہو ہم آواز جب صیاد آ لوٹا یہ ویراں آشیانے دیکھنے کو ایک میں چھوٹا مرا رنگ اڑ گیا جس وقت سنگ محتسب…
گو میرؔ کہ احوال نہایت ہے سقیم
گو میرؔ کہ احوال نہایت ہے سقیم کہتے ہیں اسے شافی و کافی و حکیم وہ غیر کرم بندے کے حق میں نہ کرے یہ…
گل کیا جسے کہیں کہ گلے کا تو ہار کر
گل کیا جسے کہیں کہ گلے کا تو ہار کر ہم پھینک دیں اسے ترے منھ پر نثار کر آغوشیں جیسے موجیں الٰہی کشادہ ہیں…
گردن کش زمانہ تو تیرا اسیر ہے
گردن کش زمانہ تو تیرا اسیر ہے سلطان عصر تیری گلی کا فقیر ہے چشمک کرے ہے میری طرف کو نگاہ کر وہ طفل شوخ…
گذر جان سے اور ڈر کچھ نہیں
گذر جان سے اور ڈر کچھ نہیں رہ عشق میں پھر خطر کچھ نہیں ہے اب کام دل جس پہ موقوف تو وہ نالہ کہ…
کیسے نحس دنوں میں یارب میں نے اس سے محبت کی
کیسے نحس دنوں میں یارب میں نے اس سے محبت کی دھوم رہی ہے سر پر میرے رنج و عتاب و کلفت کی میں تو…
کیا موافق ہو دوا عشق کے بیمار کے ساتھ
کیا موافق ہو دوا عشق کے بیمار کے ساتھ جی ہی جاتے نظر آئے ہیں اس آزار کے ساتھ رات مجلس میں تری ہم بھی…
کیا کیا بیٹھے بگڑ بگڑ تم پر ہم تم سے بنائے گئے
کیا کیا بیٹھے بگڑ بگڑ تم پر ہم تم سے بنائے گئے چپکے باتیں اٹھائے گئے سر گاڑے ووہیں آئے گئے اٹھے نقاب جہان سے…
کیا کہیں پایا نہیں جاتا ہے کچھ تم کیا ہو میاں
کیا کہیں پایا نہیں جاتا ہے کچھ تم کیا ہو میاں کھو گئے دنیا سے تم ہو اور اب دنیا ہو میاں مت حنائی پاؤں…
کیا کچھ ہم سے ضد ہے تم کو بات ہماری اڑا دو ہو
کیا کچھ ہم سے ضد ہے تم کو بات ہماری اڑا دو ہو لگ پڑتے ہیں ہم تم سے تو تم اوروں کو لگا دو…
کیا زمانہ تھا کہ تھے دلدار کے یاروں میں ہم
کیا زمانہ تھا کہ تھے دلدار کے یاروں میں ہم شہرۂ عالم تھے اس کے ناز برداروں میں ہم اجڑی اجڑی بستی میں دنیا کی…
کیا پیام و سلام ہے موقوف
کیا پیام و سلام ہے موقوف رسم ظاہر تمام ہے موقوف حیرت حسن یار سے چپ ہیں سب سے حرف و کلام ہے موقوف روز…
کون کہتا ہے منھ کو کھولو تم
کون کہتا ہے منھ کو کھولو تم کاشکے پردے ہی میں بولو تم حکم آب رواں رکھے ہے حسن بہتے دریا میں ہاتھ دھولو تم…
کھوویں ہیں نیند میری مصیبت بیانیاں
کھوویں ہیں نیند میری مصیبت بیانیاں تم بھی تو ایک رات سنو یہ کہانیاں کیا آگ دے کے طور کو کی ترک سرکشی اس شعلے…
کہتا ہے کون میرؔ کہ بے اختیار رو
کہتا ہے کون میرؔ کہ بے اختیار رو ایسا تو رو کہ رونے پہ تیرے ہنسی نہ ہو پایا گیا وہ گوہر نایاب سہل کب…
کل میں کہا وہ طور کا شعلہ کہاں گرا
کل میں کہا وہ طور کا شعلہ کہاں گرا دل نے جگر کی اور اشارت کی یاں گرا منظر خراب ہونے کو ہے چشم تر…
کل چمن میں گل و سمن دیکھا
کل چمن میں گل و سمن دیکھا آج دیکھا تو باغ بن دیکھا کیا ہے گلشن میں جو قفس میں نہیں عاشقوں کا جلاوطن دیکھا…
کس طور تو نے باغ میں آنکھوں کے تیں ملا
کس طور تو نے باغ میں آنکھوں کے تیں ملا نرگس کا جس سے رنگ شکستہ بھی اڑ چلا
کرتے ہی نہیں ترک بتاں طور جفا کا
کرتے ہی نہیں ترک بتاں طور جفا کا شاید ہمیں دکھلاویں گے دیدار خدا کا ہے ابر کی چادر شفقی جوش سے گل کے میخانے…
کچھ نہ کی ان نے جس کو چاہا ہے
کچھ نہ کی ان نے جس کو چاہا ہے جوں توں اپنا کیا نباہا ہے سدھ خبر اپنے غمزدے کی لے صبح تک رات کو…
کبھو میرؔ اس طرف آ کر جو چھاتی کوٹ جاتا ہے
کبھو میرؔ اس طرف آ کر جو چھاتی کوٹ جاتا ہے خدا شاہد ہے اپنا تو کلیجا ٹوٹ جاتا ہے خرابی دل کی کیا انبوہ…
کب تک بھلا بتاؤ گے یوں صبح و شام روز
کب تک بھلا بتاؤ گے یوں صبح و شام روز آؤ کہیں کہ رہتے ہیں رفتہ تمام روز وہ سرکشی سے گو متوجہ نہ ہو…
قصہ کہیں تو کیا کہیں ملنے کی رات کا
قصہ کہیں تو کیا کہیں ملنے کی رات کا پہروں چواؤ ان نے رکھا بات بات کا جرأت سے گرچہ زرد ہوں پر مانتا ہے…
فرہاد ہاتھ تیشے پہ ٹک رہ کے ڈالتا میر تقی میر
فرہاد ہاتھ تیشے پہ ٹک رہ کے ڈالتا پتھر تلے کا ہاتھ ہی اپنا نکالتا بگڑا اگر وہ شوخ تو سنیو کہ رہ گیا خورشید…
غنچہ ہی وہ دہان ہے گویا
غنچہ ہی وہ دہان ہے گویا ہونٹ پر رنگ پان ہے گویا میرے مردے سے بھی وہ چونکے ہے اب تلک مجھ میں جان ہے…
غزل میرؔ کی کب پڑھائی نہیں
غزل میرؔ کی کب پڑھائی نہیں کہ حالت مجھے غش کی آئی نہیں زباں سے ہماری ہے صیاد خوش ہمیں اب امید رہائی نہیں کتابت…
عشق ہمارا خون کرے ہے جی نہیں رہتا یار بغیر
عشق ہمارا خون کرے ہے جی نہیں رہتا یار بغیر وہ گھر سے نہیں اپنے نکلتا دم بھر بھی تلوار بغیر جان عزیز کی جاں…
عشق کیا ہے اس گل کا یا آفت لائے سرپرہم
عشق کیا ہے اس گل کا یا آفت لائے سرپرہم جھانکتے اس کو ساتھ صبا کے صبح پھریں ہیں گھر گھر ہم روز و شب…
عشق خدائی خراب ہے ایسا جس سے گئے ہیں گھر کے گھر
عشق خدائی خراب ہے ایسا جس سے گئے ہیں گھر کے گھر کعبہ و دیر کے ایوانوں کے گرے پڑے ہیں در کے در حج…
عام حکم شراب کرتا ہوں
عام حکم شراب کرتا ہوں محتسب کو کباب کرتا ہوں ٹک تو رہ اے بنائے ہستی تو تجھ کو کیسا خراب کرتا ہوں بحث کرتا…
طفل مطرب جو میرے ہاتھ آتا
طفل مطرب جو میرے ہاتھ آتا چٹکیوں میں رقیب اڑ جاتا خواب میں بھی رہا تو آنے سے دیکھنے ہی کا تھا یہ سب ناتا…
ضبط کرتا نہیں کنارہ ہنوز
ضبط کرتا نہیں کنارہ ہنوز ہے گریبان پارہ پارہ ہنوز آتش دل نہیں بجھی شاید قطرۂ اشک ہے شرارہ ہنوز خاک میں ہے وہ طفل…
صبر کہاں جو تم کو کہیے لگ کے گلے سے سو جاؤ
صبر کہاں جو تم کو کہیے لگ کے گلے سے سو جاؤ بولو نہ بولو بیٹھو نہ بیٹھو کھڑے کھڑے ٹک ہو جاؤ برسے ہے…
شوریدہ سر رکھا ہے جب سے اس آستاں پر
شوریدہ سر رکھا ہے جب سے اس آستاں پر میرا دماغ تب سے ہے ہفتم آسماں پر گھائل گرا رہا ہے فتراک سے بندھا ہے…
شب گئے تھے باغ میں ہم ظلم کے مارے ہوئے
شب گئے تھے باغ میں ہم ظلم کے مارے ہوئے جان کو اپنی گل مہتاب انگارے ہوئے گور پر میری پس از مدت قدم رنجہ…