میر تقی میر
سنتا نہیں اگرچہ ہمارا نگار بات
سنتا نہیں اگرچہ ہمارا نگار بات پر منھ پہ آ ہی جاتی ہے بے اختیار بات بلبل کے بولنے سے ہے کیوں بے دماغ گل…
سر کاٹ کے ڈلوا دیے انداز تو دیکھو
سر کاٹ کے ڈلوا دیے انداز تو دیکھو پامال ہے سب خلق جہاں ناز تو دیکھو کچھ سوجھ نہیں پڑتی تمھیں بے خبری سے ٹک…
سب شرم جبین یار سے پانی ہے
سب شرم جبین یار سے پانی ہے ہرچند کہ گل شگفتہ پیشانی ہے سمجھے نہ کہ بازیچۂ اطفال ہوئے لڑکوں سے ملاقات ہی نادانی ہے…
زمیں اور ہے آسماں اور ہے
زمیں اور ہے آسماں اور ہے تب آناً فآناً سماں اور ہے نہ وے لوگ ہیں اب نہ اجماع وہ جہاں وہ نہیں یہ جہاں…
رونا ٹک اک تھما تو غم بیکراں سہا
رونا ٹک اک تھما تو غم بیکراں سہا دس دن رہے جہان میں ہم سو رہا دہا پہلو میں اک گرہ سی تہ خاک ساتھ…
رہا ہونا نہیں امکان ان ترکیب والوں سے
رہا ہونا نہیں امکان ان ترکیب والوں سے کہ بل دے باندھتے ہیں پیچ پگڑی کے بھی بالوں سے تجھے نسبت جو دیتے ہیں شرار…
رمق ایک جان وبال ہے کوئی دم جو ہے تو عذاب ہے
رمق ایک جان وبال ہے کوئی دم جو ہے تو عذاب ہے دل داغ گشتہ کباب ہے جگر گداختہ آب ہے مری خلق محو کلام…
رشتہ کیا ٹھہرے گا یہ جیسے کہ مو نازک ہے
رشتہ کیا ٹھہرے گا یہ جیسے کہ مو نازک ہے چاک دل پلکوں سے مت سی کہ رفو نازک ہے شاخ گل کاہے کو اس…
ڈول لگائے بہتیرے پر ڈھب پہ کبھو نہیں آتے تم
ڈول لگائے بہتیرے پر ڈھب پہ کبھو نہیں آتے تم آنا یک سو کب دیکھو ہو ایدھر آتے جاتے تم ہر صورت کو دیکھ رہو…
دیکھا کروں تجھی کو منظور ہے تو یہ ہے
دیکھا کروں تجھی کو منظور ہے تو یہ ہے آنکھیں نہ کھولوں تجھ بن مقدور ہے تو یہ ہے نزدیک تجھ سے سب ہے کیا…
دوستی نے تو ہماری جاں گدازی خوب کی
دوستی نے تو ہماری جاں گدازی خوب کی آہ اس دشمن نے یہ عاشق نوازی خوب کی گور پر آیا سمند ناز کو جولاں کیے…
دن گذرتا ہے مجھے فکر ہی میں تا کیا ہو
دن گذرتا ہے مجھے فکر ہی میں تا کیا ہو رات جاتی ہے اسی غم میں کہ فردا کیا ہو سب ہیں دیدار کے مشتاق…
دل کے معمورے کی مت کر فکر فرصت چاہیے
دل کے معمورے کی مت کر فکر فرصت چاہیے ایسے ویرانے کے اب بسنے کو مدت چاہیے عشق و مے خواری نبھے ہے کوئی درویشی…
دل کہے میں ہوں تو کاہے کو کوئی بیتاب ہو
دل کہے میں ہوں تو کاہے کو کوئی بیتاب ہو آنکھ کا لگنا نہ ہو تو اشک کیوں خوناب ہو وہ نہیں چھڑکاؤ سا میں…
دل صاف ہو تو جلوہ گہ یار کیوں نہ ہو
دل صاف ہو تو جلوہ گہ یار کیوں نہ ہو آئینہ ہو تو قابل دیدار کیوں نہ ہو عالم تمام اس کا گرفتار کیوں نہ…
دل جو زیر غبار اکثر تھا
دل جو زیر غبار اکثر تھا کچھ مزاج ان دنوں مکدر تھا اس پہ تکیہ کیا تو تھا لیکن رات دن ہم تھے اور بستر…
دل پر تو چوٹ تھی ہی زخمی ہوا جگر سب
دل پر تو چوٹ تھی ہی زخمی ہوا جگر سب ہر دم بھری رہے ہے لوہو سے چشم تر سب حیف اس سے حال میرا…
درونے کو کوئی آہوں سے یوں کب تک ہوا دیوے
درونے کو کوئی آہوں سے یوں کب تک ہوا دیوے مبادا عشق کی گرمی جگر میرا جلا دیوے کہاں تک یوں پڑے بستر پہ رہیے…
خوں نہ ہوا دل چاہیے جیسا گو اب کام سے جاوے گا میر تقی میر
خوں نہ ہوا دل چاہیے جیسا گو اب کام سے جاوے گا کام اپنے وہ کیا آیا جو کام ہمارے آوے گا آنکھیں لگی رہتی…
فلک نے پیس کر سرمہ بنایا
فلک نے پیس کر سرمہ بنایا نظر میں اس کی میں تو بھی نہ آیا زمانے میں مرے شور جنوں نے قیامت کا سا ہنگامہ…
اب اس کے غم سے جو کوئی چاہے سو کھائے داغ
اب اس کے غم سے جو کوئی چاہے سو کھائے داغ باقی نہیں ہے چھاتی میں اپنی تو جائے داغ چشم و دل و دماغ…
حیرت طلب کو کام نہیں ہے کسو کے ساتھ
حیرت طلب کو کام نہیں ہے کسو کے ساتھ جان عزیز ابھی ہے مری آبرو کے ساتھ یک رنگ آشنا ہیں خرابات ہی کے لوگ…
حال دل میرؔ کا اے اہل وفا مت پوچھو
حال دل میرؔ کا اے اہل وفا مت پوچھو اس ستم کشتہ پہ جو گذری جفا مت پوچھو صبح سے اور بھی پاتا ہوں اسے…
چمکی ہے جب سے برق سحر گلستاں کی اور
چمکی ہے جب سے برق سحر گلستاں کی اور جی لگ رہا ہے خار و خس آشیاں کی اور وہ کیا یہ دل لگے ہے…
چپکا چپکا پھرا نہ کر تو غم سے
چپکا چپکا پھرا نہ کر تو غم سے کیا حرف و سخن عیب ہے کچھ محرم سے آخر کو رکے رہتے جنوں ہوتا ہے اے…
جیسا مزاج آگے تھا میرا سو کب ہے اب
جیسا مزاج آگے تھا میرا سو کب ہے اب ہر روز دل کو سوز ہے ہر شب تعب ہے اب سدھ کچھ سنبھالتے ہی وہ…
جوشش اشک سے ہوں آٹھ پہر پانی میں
جوشش اشک سے ہوں آٹھ پہر پانی میں گرچہ ہوتے ہیں بہت خوف و خطر پانی میں ضبط گریہ نے جلایا ہے درونہ سارا دل…
جو دیکھو مرے شعر تر کی طرف
جو دیکھو مرے شعر تر کی طرف تو مائل نہ ہو پھر گہر کی طرف کوئی داد دل آہ کس سے کرے ہر اک ہے…
جنوں کا عبث میرے مذکور ہے
جنوں کا عبث میرے مذکور ہے جوانی دوانی ہے مشہور ہے کہو چشم خوں بار کو چشم تم خدا جانے کب کا یہ ناسور ہے…
جس کو ہوا ہے اس صنم بے وفا سے ربط
جس کو ہوا ہے اس صنم بے وفا سے ربط اس کو خدا ہی ہووے تو ہو کچھ خدا سے ربط گل ہو کے برگ…
جب کہتے تھے تب تم نے تو گوش ہوش نہ کھولے ٹک
جب کہتے تھے تب تم نے تو گوش ہوش نہ کھولے ٹک چپکے چپکے کسو کو چاہا پوچھا بھی تو نہ بولے ٹک اب جو…
جب بٹھاویں مجھے جلاد جفا کار کے پاس
جب بٹھاویں مجھے جلاد جفا کار کے پاس تو بھی ٹک آن کھڑا ہو جو گنہگار کے پاس درد مندوں سے تمھیں دور پھرا کرتے…
جاگنا تھا ہم کو سو بیدار ہوتے رہ گئے
جاگنا تھا ہم کو سو بیدار ہوتے رہ گئے کارواں جاتا رہا ہم ہائے سوتے رہ گئے بوئے گل پیش از سحر گلزار سے رخصت…
تیغ ستم سے اس کی مرا سر جدا ہوا
تیغ ستم سے اس کی مرا سر جدا ہوا شکر خدا کہ حق محبت ادا ہوا قاصد کو دے کے خط نہیں کچھ بھیجنا ضرور…
تھا محبت سے کبھو ہم میں کبھو یہ غم میں تھا
تھا محبت سے کبھو ہم میں کبھو یہ غم میں تھا دل کا ہنگامہ قیامت خاک کے عالم میں تھا کیا ہوا پہلو سے دل…
تسکین درد مندوں کو یارب شتاب دے
تسکین درد مندوں کو یارب شتاب دے دل کو ہمارے چین دے آنکھوں کو خواب دے اس کا غضب سے نامہ نہ لکھنا تو سہل…
تدبیر کوئی بتاوے جو آپ کو سنبھالیں
تدبیر کوئی بتاوے جو آپ کو سنبھالیں جینے کی اپنے ہم بھی کوئی طرح نکالیں قالب میں جی نہیں ہے اس بن ہمارے گویا حیران…
تاچند ترے غم میں یوں زار رہا کیجے
تاچند ترے غم میں یوں زار رہا کیجے امید عیادت پر بیمار رہا کیجے نے اب ہے جگرکاوی نے سینہ خراشی ہے کچھ جی میں…
پند گو مشفق عبث میرا نصیحت گر ہوا
پند گو مشفق عبث میرا نصیحت گر ہوا سختیاں جو میں بہت کھینچیں سو دل پتھر ہوا گاڑ کر مٹی میں روئے عجز کیا ہم…
بیماری دلی سے زار و نزار ہیں ہم
بیماری دلی سے زار و نزار ہیں ہم اک مشت استخواں ہیں پر اپنے بار ہیں ہم مارا تڑپتے چھوڑا فتراک سے نہ باندھا بے…
بے روئے و زلف یار ہے رونے سے کام یاں
بے روئے و زلف یار ہے رونے سے کام یاں دامن ہے منھ پہ ابر نمط صبح و شام یاں آوازہ ہی جہاں میں ہمارا…
بہت مدت گئی ہے اب ٹک آ مل
بہت مدت گئی ہے اب ٹک آ مل کہاں تک خاک میں میں تو گیا مل ٹک اس بے رنگ کے نیرنگ تو دیکھ ہوا…
بغیر دل کہ یہ قیمت ہے سارے عالم کی
بغیر دل کہ یہ قیمت ہے سارے عالم کی کسو سے کام نہیں رکھتی جنس آدم کی کوئی ہو محرم شوخی ترا تو میں پوچھوں…
برسوں میں کبھو ایدھر تم ناز سے آتے ہو
برسوں میں کبھو ایدھر تم ناز سے آتے ہو پھر برسوں تئیں پیارے جی سے نہیں جاتے ہو آتے ہو کبھو یاں تو ہم لطف…
بارہا وعدوں کی راتیں آئیاں
بارہا وعدوں کی راتیں آئیاں طالعوں نے صبح کر دکھلائیاں عشق میں ایذائیں سب سے پائیاں رہ گئے آنسو تو آنکھیں آئیاں ظل حق ہم…
آئے ہو گھر سے اٹھ کر میرے مکاں کے اوپر
آئے ہو گھر سے اٹھ کر میرے مکاں کے اوپر کی تم نے مہربانی بے خانماں کے اوپر پھولوں سے اٹھ نگاہیں مکھڑے پہ اس…
ایسا ہے ماہ گو کہ وہ سب نور کیوں نہ ہو
ایسا ہے ماہ گو کہ وہ سب نور کیوں نہ ہو ویسا ہے پھول فرض کیا حور کیوں نہ ہو کھویا ہمارے ہاتھ سے آئینے…
اے گل نو دمیدہ کے مانند
اے گل نو دمیدہ کے مانند ہے تو کس آفریدہ کے مانند ہم امید وفا پہ تیری ہوئے غنچۂ دیر چیدہ کے مانند خاک کو…
آوے کہنے میں رہا ہو غم سے گر احوال کچھ
آوے کہنے میں رہا ہو غم سے گر احوال کچھ جاں بہ لب رہتے ہیں پر کہتے نہیں ہیں حال کچھ بے زری سے داغ…