میر تقی میر
نقش بیٹھے ہے کہاں خواہش آزادی کا
نقش بیٹھے ہے کہاں خواہش آزادی کا ننگ ہے نام رہائی تری صیادی کا داد دے ورنہ ابھی جان پہ کھیلوں ہوں میں دل جلانا…
نالہ مرا اگر سبب شور و شر نہ ہو
نالہ مرا اگر سبب شور و شر نہ ہو پھر مر بھی جایئے تو کسو کو خبر نہ ہو دل پر ہوا سو آہ کے…
میں گلستاں میں آ کے عبث آشیاں کیا
میں گلستاں میں آ کے عبث آشیاں کیا بلبل نے بھی نہ طور گلوں کا بیاں کیا پھر اس کے ابرواں کا خم و تاب…
میرا ہی مقلد عمل تھا
میرا ہی مقلد عمل تھا مجنوں کے دماغ میں خلل تھا دل ٹوٹ گیا تو خوں نہ نکلا شیشہ یہ بہت ہی کم بغل تھا…
مہر قیامت چاہت آفت فتنہ فساد بلا ہے عشق
مہر قیامت چاہت آفت فتنہ فساد بلا ہے عشق عشق اللہ صیاد انھیں کہیو جن لوگوں نے کیا ہے عشق عشق سے نظم کل ہے…
ملتفت ہوتا نہیں ہے گاہ تو
ملتفت ہوتا نہیں ہے گاہ تو کس قدر مغرور ہے اللہ تو مجھ سے کتنے جان سے جاتے رہے کس کی میت کے گیا ہمراہ…
مشہور ہیں دنوں کی مرے بے قراریاں
مشہور ہیں دنوں کی مرے بے قراریاں جاتی ہیں لامکاں کو دل شب کی زاریاں چہرے پہ جیسے زخم ہے ناخن کا ہر خراش اب…
مرا دل پیر و مرشد ہے مجھے ہے اعتقاد اس سے
مرا دل پیر و مرشد ہے مجھے ہے اعتقاد اس سے فراموش آپ کو کرنا محبت میں ہے یاد اس سے بلا انداز ہے اس…
مدت کے جو بعد جی بحال آتا ہے
مدت کے جو بعد جی بحال آتا ہے خاطر پہ جہاں جہاں ملال آتا ہے وے ووں گئے جان یوں چلی جاتی ہے آہ رہ…
مجھ کو پوچھا بھی نہ یہ کون ہے غم ناک ہنوز
مجھ کو پوچھا بھی نہ یہ کون ہے غم ناک ہنوز ہو چکے حشر میں پھرتا ہوں جگر چاک ہنوز اشک کی لغزش مستانہ پہ…
مت اس چمن میں غنچہ روش بود و باش کر
مت اس چمن میں غنچہ روش بود و باش کر مانند گل شگفتہ جبیں یاں معاش کر دل رکھ قوی فلک کی زبردستی پر نہ…
لعل پر کب دل مرا مائل ہوا
لعل پر کب دل مرا مائل ہوا اس لب خاموش کا قائل ہوا لڑ گئیں آنکھیں اٹھائی دل نے چوٹ یہ تماشائی عبث گھائل ہوا…
لاوے جھمکتے رخ کی آئینہ تاب کیونکر
لاوے جھمکتے رخ کی آئینہ تاب کیونکر ہو چہرہ اس کے لب سے یاقوت ناب کیونکر ہے شعر و شاعری گو کب سے شعار اپنا…
گو روکش ہفتاد و دو ملت ہم ہیں
گو روکش ہفتاد و دو ملت ہم ہیں مرآت بدن نماے وحدت ہم ہیں بے اپنے نمود اس کی اتنی معلوم معنی محبوب ہے تو…
گل گل شگفتہ مے سے ہوا ہے نگار دیکھ
گل گل شگفتہ مے سے ہوا ہے نگار دیکھ یک جرعہ ہمدم اور پلا پھر بہار دیکھ اب وہ نہیں کرم کہ بھرن پڑنے لگ…
گرفتہ دل ہوں سر ارتباط مجھ کو نہیں
گرفتہ دل ہوں سر ارتباط مجھ کو نہیں کسو سے شہر میں کچھ اختلاط مجھ کو نہیں جہاں ہو تیغ بکف کوئی سادہ جا لگنا…
گذرا یہ کہ شکوہ و شکایت کیجے
گذرا یہ کہ شکوہ و شکایت کیجے یا آگے سخن اور حکایت کیجے خوب اتنی تو مجھ پر اب رعایت کیجے دل میرا مرے تئیں…
کیسے قدم سے اس کی گلی میں صبا گئی
کیسے قدم سے اس کی گلی میں صبا گئی یوں پھونک کر کے خاک مری سب اڑا گئی کچھ تھی طپش جگر کی تو بارے…
کیا میرؔ دل شکستہ بھی وحشی مثال تھا
کیا میرؔ دل شکستہ بھی وحشی مثال تھا دنبالہ گرد چشم سیاہ غزال تھا آخر کو خواب مرگ ہمیں جا سے لے گئی جی دیتے…
کیا کیا تم نے ہم سے کہا تھا کچھ نہ کیا افسوس افسوس
کیا کیا تم نے ہم سے کہا تھا کچھ نہ کیا افسوس افسوس کیا کیا کڑھایا جی سے مارا لوہو پیا افسوس افسوس نور چراغ…
کیا کہیں کچھ کہا نہیں جاتا
کیا کہیں کچھ کہا نہیں جاتا اب تو چپ بھی رہا نہیں جاتا غم میں جاتی ہے عمر دہ روزہ اپنے ہاں سے دہا نہیں…
کیا کریں بیکس ہیں ہم بے بس ہیں ہم بے گھر ہیں ہم
کیا کریں بیکس ہیں ہم بے بس ہیں ہم بے گھر ہیں ہم کیوں کر اڑ کر پہنچیں اس تک طائر بے پر ہیں ہم…
کیا روئیے ہمیں کو یوں آن کر کے مارا
کیا روئیے ہمیں کو یوں آن کر کے مارا مہر بت دگر سے طوفان کر کے مارا تربت کا میری لوحہ آئینے سے کرے ہے…
کیا تم سے کہوں میرؔ کہاں تک روؤں
کیا تم سے کہوں میرؔ کہاں تک روؤں روؤں تو زمیں سے آسماں تک روؤں جوں ابر جہاں جہاں بھرا ہوں غم سے شائستہ ہوں…
کوئی اپنا نہ یار ہے نہ حبیب
کوئی اپنا نہ یار ہے نہ حبیب اس ستمگر کے ہم ہیں شہر غریب سر رگڑتے اس آستاں پر میرؔ یاری کرتے اگر ہمارے نصیب
کہیں آگ آہ سوزندہ نہ چھاتی میں لگا دیوے
کہیں آگ آہ سوزندہ نہ چھاتی میں لگا دیوے خبر ہوتے ہی ہوتے دل جگر دونوں جلا دیوے بہت روئے ہمارے دیدۂ تر اب نہیں…
کہتا ہے یہ اپنی آنکھوں دیکھیں گے فقیر
کہتا ہے یہ اپنی آنکھوں دیکھیں گے فقیر بینش نہیں رکھتے کیا جواں ہوں کیا پیر اندھے ہیں جہاں کے لوگ سارے اے میرؔ سوجھے…
کل میرؔ نے کیا کیا کی مے کے لیے بیتابی
کل میرؔ نے کیا کیا کی مے کے لیے بیتابی آخر کو گرو رکھا سجادۂ محرابی جاگا ہے کہیں وہ بھی شب مرتکب مے ہو…
خط منھ پہ آئے جاناں خوبی پہ جان دے گا
خط منھ پہ آئے جاناں خوبی پہ جان دے گا ناچار عاشقوں کو رخصت کے پان دے گا سارے رئیس اعضا ہیں معرض تلف میں…
کس فتنہ قد کی ایسی دھوم آنے کی پڑی ہے
کس فتنہ قد کی ایسی دھوم آنے کی پڑی ہے ہر شاخ گل چمن میں بھیچک ہوئی کھڑی ہے واشد ہوئی نہ بلبل اپنی بہار…
کرتے ہیں گفتگو سحر اٹھ کر صبا سے ہم
کرتے ہیں گفتگو سحر اٹھ کر صبا سے ہم لڑنے لگے ہیں ہجر میں اس کے ہوا سے ہم ہوتا نہ دل کا تا یہ…
کچھ میرؔ تکلف تو نہیں اپنے تئیں
کچھ میرؔ تکلف تو نہیں اپنے تئیں ان روزوں نہیں پاتے کہیں اپنے تئیں اب جی تو بہت بتنگ آیا اے کاش جاویں ہم چھوڑ…
کبھو ملے ہے سو وہ یوں کہ پھر ملا نہ کریں
کبھو ملے ہے سو وہ یوں کہ پھر ملا نہ کریں کرے ہے آپھی شکایت کہ ہم گلہ نہ کریں ہوئی یہ چاہ میں مشکل…
کب تک رہیں گے پہلو لگائے زمیں سے ہم
کب تک رہیں گے پہلو لگائے زمیں سے ہم یہ درد اب کہیں گے کسو شانہ بیں سے ہم تلواریں کتنی کھائی ہیں سجدے میں…
قیامت ہیں یہ چسپاں جامے والے
قیامت ہیں یہ چسپاں جامے والے گلوں نے جن کی خاطر خرقے ڈالے وہ کالا چور ہے خال رخ یار کہ سو آنکھوں میں دل…
فسوس ہے عمر ہم نے یوں ہی کھوئی
فسوس ہے عمر ہم نے یوں ہی کھوئی دل جس کو دیا ان نے نہ کی دلجوئی جھنجھلا کے گلا چھری سے کاٹا آخر جھل…
غیر سے اب یار ہوا چاہیے
غیر سے اب یار ہوا چاہیے ملتجی ناچار ہوا چاہیے جس کے تئیں ڈھونڈوں ہوں وہ سب میں ہے کس کا طلبگار ہوا چاہیے تاکہ…
غصے سے اٹھ چلے ہو تو دامن کو جھاڑ کر
غصے سے اٹھ چلے ہو تو دامن کو جھاڑ کر جاتے رہیں گے ہم بھی گریبان پھاڑ کر دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد…
عشق ہمارے در پئے جاں ہے آئے گھر سے نکل کر ہم
عشق ہمارے در پئے جاں ہے آئے گھر سے نکل کر ہم سر پر دیکھا یہی فلک ہے جاویں کیدھر چل کر ہم بل کھائے…
عشق کیا ہے جب سے ہم نے دل کو کوئی ملتا ہے
عشق کیا ہے جب سے ہم نے دل کو کوئی ملتا ہے اشک کی سرخی زردی چہرہ کیا کیا رنگ بدلتا ہے روز وداع لگا…
عشق رسوائی طلب نے مجھ کو سرگرداں کیا
عشق رسوائی طلب نے مجھ کو سرگرداں کیا کیا خرابی سر پہ لایا صومعہ ویراں کیا ہم سے تو جز مرگ کچھ تدبیر بن آتی…
عبرت سے دیکھ جس جا یاں کوئی گھر بنے ہے
عبرت سے دیکھ جس جا یاں کوئی گھر بنے ہے پردے میں چشم ڈھکنے دیوار و در بنے ہے ہیں دل گداز جن کے کچھ…
طوف مشہد کو کل جو جاؤں گا
طوف مشہد کو کل جو جاؤں گا تیغ قاتل کو سر چڑھاؤں گا وصل میں رنگ اڑ گیا میرا کیا جدائی کو منھ دکھاؤں گا…
طاقت نہیں ہے جان میں کڑھنا تعب ہے اور
طاقت نہیں ہے جان میں کڑھنا تعب ہے اور بے لطفیاں کرو ہو یہ تس پر غضب ہے اور ہر چند چپ ہوں لیک مرا…
صبر کر رہ جو وہ عتاب کرے
صبر کر رہ جو وہ عتاب کرے ورنہ کیا جانے کیا خطاب کرے عشق میں دل بہت ہے بے آرام چین دیوے تو کوئی خواب…
شب ہجر میں کم تظلم کیا میر تقی میر
شب ہجر میں کم تظلم کیا کہ ہمسائگاں پر ترحم کیا کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات کلی نے یہ سن کر تبسم…
سینے میں شوق میرؔ کے سب درد ہو گیا
سینے میں شوق میرؔ کے سب درد ہو گیا دل پر رکھا تھا ہاتھ سو منھ زرد ہو گیا نکلا تھا آج صبح بہت گرم…
سوز دروں نے آخر جی ہی کھپا دیا ہے
سوز دروں نے آخر جی ہی کھپا دیا ہے ٹھنڈا دل اب ہے ایسا جیسے بجھا دیا ہے اب نیند کیونکے آوے گرمی نے عاشقی…
سطح جو ہاتھوں میں تھا اس کے رخ گلفام کا
سطح جو ہاتھوں میں تھا اس کے رخ گلفام کا ہاتھ ملنا کام ہے اب عاشق بدنام کا کچھ نہیں عنقا صفت پر شہرۂ آفاق…