میر تقی میر
طریق عشق میں ہے رہنما دل
طریق عشق میں ہے رہنما دل پیمبر دل ہے قبلہ دل خدا دل قیامت تھا مروت آشنا دل موئے پر بھی مرا اس میں رہا…
صوفیاں خم وا ہوئے ہیں ہائے آنکھیں وا کرو
صوفیاں خم وا ہوئے ہیں ہائے آنکھیں وا کرو ابر آیا زور غیرت تم بھی ٹک پیدا کرو مستی و دیوانگی کا عہد ہے بازار…
صبر بہت تھا ایک سمیں میں جا سے اپنی نہ جاتے ہم
صبر بہت تھا ایک سمیں میں جا سے اپنی نہ جاتے ہم کس کس ناز سے وے آتے پر آنکھ نہ ان سے ملاتے ہم…
شور سے طائر گلزار کے بیزار ہیں ہم
شور سے طائر گلزار کے بیزار ہیں ہم دل اٹھاتا نہیں اپنا کہ گرفتار ہیں ہم
شب شمع پر پتنگ کے آنے کو عشق ہے
شب شمع پر پتنگ کے آنے کو عشق ہے اس دل جلے کے تاب کے لانے کو عشق ہے سر مار مار سنگ سے مردانہ…
سینکڑوں بیکسوں کا جان گیا
سینکڑوں بیکسوں کا جان گیا پر یہ تیرا نہ امتحان گیا وائے احوال اس جفا کش کا عاشق اپنا جسے وہ جان گیا داغ حرماں…
سنیو جب وہ کبھو سوار ہوا میر تقی میر
سنیو جب وہ کبھو سوار ہوا تا بہ روح الامیں شکار ہوا اس فریبندہ کو نہ سمجھے آہ ہم نے جانا کہ ہم سے یار…
سر مارنا پتھر سے یا ٹکڑے جگر کرنا
سر مارنا پتھر سے یا ٹکڑے جگر کرنا اس عشق کی وادی میں ہر نوع بسر کرنا کہتے ہیں ادھر منھ کر وہ رات کو…
سب کھا گئے جگر تری پلکوں کے کاو کاو
سب کھا گئے جگر تری پلکوں کے کاو کاو ہم سینہ خستہ لوگوں سے بس آنکھ مت لگاؤ آنکھوں کا جھڑ برسنے سے ہتھیا کے…
زندگی ہوتی ہے اپنی غم کے مارے دیکھیے
زندگی ہوتی ہے اپنی غم کے مارے دیکھیے موند لیں آنکھیں ادھر سے تم نے پیارے دیکھیے لخت دل کب تک الٰہی چشم سے ٹپکا…
روئے کوئی کیا گئی جوانی یوں کر
روئے کوئی کیا گئی جوانی یوں کر جاتی ہے نسیم و گل کی نکہت جوں کر پیری آندھی سی میرؔ ناگہ آئی ہم برگ خزاں…
رہتے تھے ہم وے آٹھ پہر یا تو پاس پاس
رہتے تھے ہم وے آٹھ پہر یا تو پاس پاس یا اب پھٹک نہیں ہے کہیں ان کے آس پاس تا لوگ بدگماں نہ ہوں…
رنج کھینچے تھے داغ کھائے تھے
رنج کھینچے تھے داغ کھائے تھے دل نے صدمے بڑے اٹھائے تھے پاس ناموس عشق تھا ورنہ کتنے آنسو پلک تک آئے تھے وہی سمجھا…
رشک گلشن اگر تو ناز کرے
رشک گلشن اگر تو ناز کرے رنگ رو کو چمن نیاز کرے تیری ابرو جدھر کو مائل ہے ایک عالم ادھر نماز کرے
رات پیاسا تھا میرے لوہو کا
رات پیاسا تھا میرے لوہو کا ہوں دوانہ ترے سگ کو کا شعلۂ آہ جوں توں اب مجھ کو فکر ہے اپنے ہر بن مو…
دیکھیے کب ہو وصال اب تو لگے ہے ڈر بہت
دیکھیے کب ہو وصال اب تو لگے ہے ڈر بہت کوفت گذرے ہے فراق یار میں جی پر بہت دل کی ویسی ہے خرابی کثرت…
دوری میں اس کی گور کنارے ہم آ رہے
دوری میں اس کی گور کنارے ہم آ رہے جی رات دن جنھوں کے کھپیں ان میں کیا رہے اس آفتاب حسن کے ہم داغ…
دن فصل گل کے اب کے بھی جاتے ہیں باؤ سے
دن فصل گل کے اب کے بھی جاتے ہیں باؤ سے دل داغ ہو رہا ہے چمن کے سبھاؤ سے پہنچی نہ باس گل کی…
دل کی لاگ بری ہے ہوتی چنگے بھلے مر جاتے ہیں
دل کی لاگ بری ہے ہوتی چنگے بھلے مر جاتے ہیں آپ میں ہم سے بے خود و رفتہ پھر پھر بھی کیا آتے ہیں…
دل کو کہیں لگنے دو میرے کیا کیا رنگ دکھاؤں گا
دل کو کہیں لگنے دو میرے کیا کیا رنگ دکھاؤں گا چہرے سے خونناب ملوں گا پھولوں سے گل کھاؤں گا عہد کیے جاؤں ہوں…
دل غم سے خوں ہوا تو بس اب زندگی ہوئی
دل غم سے خوں ہوا تو بس اب زندگی ہوئی جان امیدوار سے شرمندگی ہوئی خدمت میں اس صنم کے گئی عمر پر ہمیں گویا…
دل جو ناگاہ بے قرار ہوا
دل جو ناگاہ بے قرار ہوا اس سے کیا جانوں کیا قرار ہوا شب کا پہنا جو دن تلک ہے مگر ہار اس کے گلے…
دل پہلو میں ناتواں بہت ہے
دل پہلو میں ناتواں بہت ہے بیمار مرا گراں بہت ہے ہر آن شکیب میں کمی ہے بیتابی زماں زماں بہت ہے مقصود کو دیکھیں…
درویشی کی جو سوختگی ہے سو ہے لذیذ
درویشی کی جو سوختگی ہے سو ہے لذیذ نان و نمک ہے داغ کا بھی ایک شے لذیذ
خیال چھوڑ دے واعظ تو بے گناہی کا
خیال چھوڑ دے واعظ تو بے گناہی کا رکھے ہے شوق اگر رحمت الٰہی کا سیاہ بخت سے میرے مجھے کفایت تھی لیا ہے داغ…
فلک نے گر کیا رخصت مجھے سیر بیاباں کو
فلک نے گر کیا رخصت مجھے سیر بیاباں کو نکالا سر سے میرے جائے مو خار مغیلاں کو وہ ظالم بھی تو سمجھے کہہ رکھا…
اب آنکھوں میں خوں دم بہ دم دیکھتے ہیں
اب آنکھوں میں خوں دم بہ دم دیکھتے ہیں نہ پوچھو جو کچھ رنگ ہم دیکھتے ہیں جو بے اختیاری یہی ہے تو قاصد ہمیں…
حیرت کی یہ معرکے کی جا ہے بارے
حیرت کی یہ معرکے کی جا ہے بارے کیا پوچھتے ہو مرتے ہیں عاشق سارے مشہور ہے عشق نے لڑائی ماری اس پر کہ گئے…
حال دل میرؔ کا رو رو کے سب اے ماہ سنا میر تقی میر
حال دل میرؔ کا رو رو کے سب اے ماہ سنا شب کو القصہ عجب قصۂ جانکاہ سنا نابلد ہو کے رہ عشق میں پہنچوں…
چمن میں گل نے جو کل دعوی جمال کیا میر تقی میر
چمن میں گل نے جو کل دعوی جمال کیا جمال یار نے منھ اس کا خوب لال کیا فلک نے آہ تری رہ میں ہم…
چپکے کھڑا ٹکڑے ہوتا ہوں ساری ہے الفت کی بات
چپکے کھڑا ٹکڑے ہوتا ہوں ساری ہے الفت کی بات تیغ نے اس کی کیا ہے قسمت یہ بھی ہے قسمت کی بات جان مسافر…
جیسے اندوہ محرم عشق کب تک دل ملے
جیسے اندوہ محرم عشق کب تک دل ملے عید سی ہو جائے اپنے ہاں لگے جو تو گلے دین و مذہب عاشقوں کا قابل پرسش…
جوں ابرقبلہ دل ہے نہایت ہی بھر رہا
جوں ابرقبلہ دل ہے نہایت ہی بھر رہا رونا مرا سنو گے کہ طوفان کر رہا شب میکدے سے وارد مسجد ہوا تھا میں پر…
جو رہے یوں ہی غم کے مارے ہم
جو رہے یوں ہی غم کے مارے ہم تو یہی آج کل سدھارے ہم مرتے رہتے تھے اس پہ یوں پر اب جا لگے گور…
جہاں میں روز ہے آشوب اس کی قامت سے
جہاں میں روز ہے آشوب اس کی قامت سے اٹھے ہے فتنہ ہر اک شوخ تر قیامت سے موا ہوں ہو کے دل افسردہ رنج…
جس وقت شروع یہ حکایت ہوگی
جس وقت شروع یہ حکایت ہوگی رنجیدگی یک دگر نہایت ہوگی احوال وفا کا اپنے ہرگز مجھ سے مت پوچھ کہ کہنے میں شکایت ہوگی
جب نام ترا لیجیے تب چشم بھر آوے
جب نام ترا لیجیے تب چشم بھر آوے اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے تلوار کا بھی مارا خدا رکھے ہے ظالم یہ…
جب تک کڑی اٹھائی گئی ہم کڑے رہے
جب تک کڑی اٹھائی گئی ہم کڑے رہے ایک ایک سخت بات پہ برسوں اڑے رہے اب کیا کریں نہ صبر ہے دل کو نہ…
جامۂ مستی عشق اپنا مگر کم گھیر تھا میر تقی میر
جامۂ مستی عشق اپنا مگر کم گھیر تھا دامن تر کا مرے دریا ہی کا سا پھیر تھا دیر میں کعبے گیا میں خانقہ سے…
تیغ کی اپنی صفت لکھتے جو کل وہ آ گیا
تیغ کی اپنی صفت لکھتے جو کل وہ آ گیا ہنس کے اس پرچے کو میرے ہی گلے بندھوا گیا دست و پا گم کرنے…
تھا مستعار حسن سے اس کے جو نور تھا میر تقی میر
تھا مستعار حسن سے اس کے جو نور تھا خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا ہنگامہ گرم کن جو دل ناصبور تھا…
تظلم کہ کھینچے الم پر الم
تظلم کہ کھینچے الم پر الم ترحم کہ مت کر ستم پر ستم علم بازی آہ جانکاہ ہے رہے ٹوٹتے ہی علم پر علم جو…
ترا اے ناتوانی جو کوئی عالم میں رسوا ہے
ترا اے ناتوانی جو کوئی عالم میں رسوا ہے توانائی کا منھ دیکھا نہیں ان نے کہ کیسا ہے نیاز ناتواں کیا ناز سرو قد…
تابوت مرا دیر اٹھا اس کی گلی سے
تابوت مرا دیر اٹھا اس کی گلی سے اثبات ہوا جرم محبت کا اسی سے تم چھیڑتے ہو بزم میں مجھ کو تو ہنسی سے…
پیری میں بے دنداں ہو بیٹھے پر افسوس یہ ہم کو رہا
پیری میں بے دنداں ہو بیٹھے پر افسوس یہ ہم کو رہا دانت تمھارے منھ میں کے ہیں اس مغرور نے یوں نہ کہا کیا…
پھر اب چلو چمن میں کھلے غنچے رک گئے
پھر اب چلو چمن میں کھلے غنچے رک گئے شاخوں سمیت پھول نہالوں کے جھک گئے چندیں ہزار دیدۂ گل رہ گئے کھلے افسوس ہے…
بیگانہ وضع برسوں اس شہر میں رہا ہوں
بیگانہ وضع برسوں اس شہر میں رہا ہوں بھاگوں ہوں دور سب سے میں کس کا آشنا ہوں پوچھا کیے ہیں مجھ سے گل برگ…
بے کلی بے خودی کچھ آج نہیں
بے کلی بے خودی کچھ آج نہیں ایک مدت سے وہ مزاج نہیں درد اگر یہ ہے تو مجھے بس ہے اب دوا کی کچھ…
بہتوں کو آگے تھا یہی آزار عشق کا
بہتوں کو آگے تھا یہی آزار عشق کا جیتا رہا ہے کوئی بھی بیمار عشق کا بے پردگی بھی چاہ کا ہوتا ہے لازمہ کھلتا…
بلبل نے کل کہا کہ بہت ہم نے کھائے گل
بلبل نے کل کہا کہ بہت ہم نے کھائے گل لیکن ہزار حیف نہ ٹھہری ہوائے گل رعنا جوان شہر کے رہتے ہیں گل بسر…