میر تقی میر
اس چہرے کی خوبی سے عبث گل کو جتایا
اس چہرے کی خوبی سے عبث گل کو جتایا یہ کون شگوفہ سا چمن زار میں لایا وہ آئینہ رخسار دم بازپس آیا جب حس…
آرام ہو چکا مرے جسم نزار کو
آرام ہو چکا مرے جسم نزار کو رکھے خدا جہاں میں دل بے قرار کو پانی پہ جیسے غنچۂ لالہ پھرے بہا دیکھا میں آنسوؤں…
آج ہمارا سر دکھتا ہے صندل کا بھی نام نہ لو
آج ہمارا سر دکھتا ہے صندل کا بھی نام نہ لو رنگ اس کا کہیں یاد نہ دے زنہار اس سے کچھ کام نہ لو…
اتنے بھی نہ ہم خراب ہوتے رہتے
اتنے بھی نہ ہم خراب ہوتے رہتے کاہے کو غم و الم سے روتے رہتے سب خواب عدم سے چونکنے کے ہیں وبال بہتر تھا…
اب یار دوپہر کو کھڑا ٹک جو یاں رہا
اب یار دوپہر کو کھڑا ٹک جو یاں رہا حیرت سے آفتاب جہاں کا تہاں رہا جو قافلے گئے تھے انھوں کی اٹھی بھی گرد…
اب کے بھی سیر باغ کی جی میں ہوس رہی
اب کے بھی سیر باغ کی جی میں ہوس رہی اپنی جگہ بہار میں کنج قفس رہی میں پا شکستہ جا نہ سکا قافلے تلک…
یہ دل نے کیا کیا کہ اسیر بلا کیا
یہ دل نے کیا کیا کہ اسیر بلا کیا اس زلف پر شکن نے مجھے مبتلا کیا گو بے کسی سے عشق کی آتش میں…
یاں سرکشاں جو صاحب تاج و لوا ہوئے
یاں سرکشاں جو صاحب تاج و لوا ہوئے پامال ہو گئے تو نہ جانا کہ کیا ہوئے دیکھی نہ ایک چشمک گل بھی چمن میں…
یار صد حیف کہ بیگانہ رہا اپنے ساتھ
یار صد حیف کہ بیگانہ رہا اپنے ساتھ آشنایانہ نہ کی کوئی ادا اپنے ساتھ اتحاد اتنا ہے اس سے کہ ہمیشہ ہے وصال اپنے…
وہی مجھ پہ غصہ وہی یاں سے جاتو
وہی مجھ پہ غصہ وہی یاں سے جاتو وہی دور ہو تو وہی پھر نہ آ تو مرے اس کے وعدہ ملاقات کا ہے کوئی…
وہ جو پی کر شراب نکلے گا
وہ جو پی کر شراب نکلے گا کس طرح آفتاب نکلے گا محتسب میکدے سے جاتا نہیں یاں سے ہو کر خراب نکلے گا یہی…
واں وہ تو گھر سے اپنے پی کر شراب نکلا
واں وہ تو گھر سے اپنے پی کر شراب نکلا یاں شرم سے عرق میں ڈوب آفتاب نکلا آیا جو واقعے میں درپیش عالم مرگ…
ہے عشق میں صبر ناگوارا
ہے عشق میں صبر ناگوارا پھر صبر بن اور کیا ہے چارا ان بالوں سے مشک مت خجل ہو عنبر تو عرق عرق ہے سارا…
ہونے لگا گذار غم یار بے طرح
ہونے لگا گذار غم یار بے طرح رہنے لگا ہے دل کو اب آزار بے طرح اب کچھ طرح نہیں ہے کہ ہم غم زدے…
ہو آدمی اے چرخ ترک گردش ایام کر
ہو آدمی اے چرخ ترک گردش ایام کر خاطر سے ہی مجھ مست کی تائید دور جام کر دنیا ہے بے صرفہ نہ ہو رونے…
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے جن کی خاطر کی استخواں شکنی سو ہم ان کے نشان…
ہم سے تو تم کو ضد سی پڑی ہے خواہ نخواہ رلاتے ہو
ہم سے تو تم کو ضد سی پڑی ہے خواہ نخواہ رلاتے ہو آنکھ اٹھا کر جب دیکھے ہیں اوروں میں ہنستے جاتے ہو جب…
ہم پہ رہتے ہو کیا کمر کستے
ہم پہ رہتے ہو کیا کمر کستے اچھے ہوتے نہیں جگر خستے ہنستے کھینچا نہ کیجیے تلوار ہم نہ مر جائیں ہنستے ہی ہنستے شوق…
ہر روز نیا ایک تماشا دیکھا
ہر روز نیا ایک تماشا دیکھا ہر کوچے میں سو جوان رعنا دیکھا دلی تھی طلسمات کہ ہر جاگہ میرؔ ان آنکھوں سے ہم نے…
ہائے جوانی وصل میں اس کے کیا کیا لذت پاتے تھے
ہائے جوانی وصل میں اس کے کیا کیا لذت پاتے تھے بوسۂ کنج لب سے پھر بھی ذائقے اپنے بناتے تھے کیا کیا تم نے…
نہ میرے باعث شور و فغاں ہو
نہ میرے باعث شور و فغاں ہو ابھی کیا جانیے یاں کیا سماں ہو یہی مشہور عالم ہیں دو عالم خدا جانے ملاپ اس سے…
نہ پھر رکھیں گے تیری رہ میں پا ہم
نہ پھر رکھیں گے تیری رہ میں پا ہم گئے گذرے ہیں آخر ایسے کیا ہم کھنچے گی کب وہ تیغ ناز یارب رہے ہیں…
نظر میں آوے گا جب جی کا کھونا
نظر میں آوے گا جب جی کا کھونا ملے گا نیند بھر تب مجھ کو سونا تماشے دیکھتے ہنستا چلا آ کرے ہے شیشہ بازی…
نالہ تا آسمان جاتا ہے
نالہ تا آسمان جاتا ہے شور سے جیسے بان جاتا ہے دل عجب جائے ہے ولیکن مفت ہاتھ سے یہ مکان جاتا ہے گاہے آتا…
میں نالہ کش تھا صبح کو یادحبیب میں
میں نالہ کش تھا صبح کو یادحبیب میں سوراخ پڑ گئے جگر عندلیب میں سر مارتے ہیں سنگ سے فرہاد کے سے رنگ دیکھیں تو…
میرؔ گم کردہ چمن زمزمہ پرداز ہے ایک
میرؔ گم کردہ چمن زمزمہ پرداز ہے ایک جس کی لے دام سے تا گوش گل آواز ہے ایک کچھ ہو اے مرغ قفس لطف…
مہیا جس کنے اسباب ملکی اور مالی تھے
مہیا جس کنے اسباب ملکی اور مالی تھے وہ اسکندر گیا یاں سے تو دونوں ہاتھ خالی تھے کلاہ کج سے ہر غنچے کی پیدا…
ملیے اس شخص سے جو آدم ہووے
ملیے اس شخص سے جو آدم ہووے ناز اس کو کمال پر بہت کم ہووے ہو گرم سخن تو گرد آوے یک خلق خاموش رہے…
مصرع کوئی کوئی کبھو موزوں کروں ہوں میں
مصرع کوئی کوئی کبھو موزوں کروں ہوں میں کس خوش سلیقگی سے جگر خوں کروں ہوں میں بات اپنے ڈھب کی کوئی کرے وہ تو…
مرتے ہیں ہم تو آدم خاکی کی شان پر
مرتے ہیں ہم تو آدم خاکی کی شان پر اللہ رے دماغ کہ ہے آسمان پر چرکہ تھا دل میں لالہ رخوں کے خیال سے…
مدت ہجر میں کیا کریے بیاں یار کے پاس
مدت ہجر میں کیا کریے بیاں یار کے پاس حال پرسی بھی نہ کی آن کے بیمار کے پاس حق یہ ہے خواہش دل ہے…
مجھ کو قفس میں سنبل و ریحاں کی کیا خبر
مجھ کو قفس میں سنبل و ریحاں کی کیا خبر کہہ اے نسیم صبح گلستاں کی کیا خبر رہتا ہے ایک نشہ انھیں جن کو…
مت پوچھو کچھ اپنی باتیں کہیے تو تم کو ندامت ہو
مت پوچھو کچھ اپنی باتیں کہیے تو تم کو ندامت ہو قد قامت یہ کچھ ہے تمھارا لیکن قہر قیامت ہو ربط اخلاص اے دیدہ…
لو یار ستمگر نے لڑائی کی ہے
لو یار ستمگر نے لڑائی کی ہے اک ہی تلوار میں صفائی کی ہے اس کوچے کی راہ نعش میری جاوے واں میرؔ بہت میں…
لائق نہیں تمھیں کہ ہمیں ناسزا کہو
لائق نہیں تمھیں کہ ہمیں ناسزا کہو پر ہے یہی ہمارے کیے کی سزا کہو چپکے رہے بھی چین نہیں تب کہے ہے یوں لب…
گوش ہر یک کا اسی کی اور ہے
گوش ہر یک کا اسی کی اور ہے کیا قیامت کا قیامت شور ہے پوچھنا اس ناتواں کا خوب تھا پر نہ پوچھا ان نے…
گل گشت کی ہوس تھی سو تو بگیر آئے
گل گشت کی ہوس تھی سو تو بگیر آئے آئے جو ہم چمن میں ہو کر اسیر آئے فرصت میں یک نفس کی کیا درد…
گرم ہیں شور سے تجھ حسن کے بازار کئی
گرم ہیں شور سے تجھ حسن کے بازار کئی رشک سے جلتے ہیں یوسف کے خریدار کئی کب تلک داغ دکھاوے گی اسیری مجھ کو…
گر روزگار ہے یہی ہجران یار میں
گر روزگار ہے یہی ہجران یار میں تو کیا رہیں گے جیتے ہم اس روزگار میں کچھ ڈر نہیں جو داغ جنوں ہو گئے سیاہ…
کیسے ناز و تبختر سے ہم اپنے یار کو دیکھا ہے
کیسے ناز و تبختر سے ہم اپنے یار کو دیکھا ہے نوگل جیسے جلوہ کرے اس رشک بہار کو دیکھا ہے چال زمانے کی ہے…
کیا میں بھی پریشانی خاطر سے قریں تھا میر تقی میر
کیا میں بھی پریشانی خاطر سے قریں تھا آنکھیں تو کہیں تھیں دل غم دیدہ کہیں تھا کس رات نظر کی ہے سوے چشمک انجم…
کیا کیا جہاں اثر تھا سو اب واں عیاں نہیں
کیا کیا جہاں اثر تھا سو اب واں عیاں نہیں جن کے نشاں تھے فیلوں پر ان کا نشاں نہیں دفتر بنے کہانی بنی مثنوی…
کیا کہیے ادا بتوں سے کیا ہوتی ہے
کیا کہیے ادا بتوں سے کیا ہوتی ہے جو دل زدگاں پہ یہ جفا ہوتی ہے یہ کیا کہ سجود میں نہ دیکھا بگڑے اک…
کیا کریں تدبیر دل مقدور سے باہر ہے اب
کیا کریں تدبیر دل مقدور سے باہر ہے اب ناامید اس زندگانی کرنے سے اکثر ہے اب جن دنوں ہم کافروں سے ربط تھا وے…
کیا ظلم کیا تعدی کیا جور کیا جفائیں
کیا ظلم کیا تعدی کیا جور کیا جفائیں اس چرخ نے کیاں ہیں ہم سے بہت ادائیں دیکھا کہاں وہ نسخہ اک روگ میں بساہا…
کیا تن نازک ہے جاں کو بھی حسد جس تن پہ ہے
کیا تن نازک ہے جاں کو بھی حسد جس تن پہ ہے کیا بدن کا رنگ ہے تہ جس کی پیراہن پہ ہے گرد جب…
کوئی فقیر یہ اے کاشکے دعا کرتا
کوئی فقیر یہ اے کاشکے دعا کرتا کہ مجھ کو اس کی گلی کا خدا گدا کرتا کبھو جو آن کے ہم سے بھی تو…
کھینچتا ہے دلوں کو صحرا کچھ
کھینچتا ہے دلوں کو صحرا کچھ ہے مزاجوں میں اپنے سودا کچھ دل نہیں جمع چشم تر سے اب پھیلتا سا چلا یہ دریا کچھ…
کہتے ہو تم کہ یکسر مجھ میں وفا ہے شاید
کہتے ہو تم کہ یکسر مجھ میں وفا ہے شاید متروک رسم جور و ظلم و جفا ہے شاید کم ناز سے ہے کس کے…
کل لے گئے تھے یار ہمیں بھی چمن کے بیچ
کل لے گئے تھے یار ہمیں بھی چمن کے بیچ اس کی سی بو نہ آئی گل و یاسمن کے بیچ کشتہ ہوں میں تو…