میر تقی میر
اس مغل زا سے نہ تھی ہر بات کی تکرار خوب
اس مغل زا سے نہ تھی ہر بات کی تکرار خوب بدزبانی بھی کی ان نے تو کہا بسیار خوب لگ نہیں پڑتے ہیں لے…
اس کا خرام دیکھ کے جایا نہ جائے گا
اس کا خرام دیکھ کے جایا نہ جائے گا اے کبک پھر بحال بھی آیا نہ جائے گا ہم کشتگان عشق ہیں ابرو و چشم…
اس بستر افسردہ کے گل خوشبو ہیں مرجھائے ہنوز
اس بستر افسردہ کے گل خوشبو ہیں مرجھائے ہنوز اس نکہت سے موسم گل میں پھول نہیں یاں آئے ہنوز اس زلف و کاکل کو…
ادھر آ کر شکار افگن ہمارا
ادھر آ کر شکار افگن ہمارا مشبک کر گیا ہے تن ہمارا گریباں سے رہا کوتہ تو پھر ہے ہمارے ہاتھ میں دامن ہمارا گئے…
آج کل سے کچھ نہ طوفاں زا ہے چشم گریہ ناک
آج کل سے کچھ نہ طوفاں زا ہے چشم گریہ ناک موجزن برسوں سے ہے دریا ہے چشم گریہ ناک یوں نہ روؤ تو نہ…
آتا ہے دل میں حال بد اپنا بھلا کہوں
آتا ہے دل میں حال بد اپنا بھلا کہوں پھر آپھی آپ سوچ کے کہتا ہوں کیا کہوں پروانہ پھر نہ شمع کی خاطر جلا…
اب ہم فقیر جی سے دل کو اٹھا کے بیٹھے
اب ہم فقیر جی سے دل کو اٹھا کے بیٹھے اس خصم جاں کے در پر تکیہ بنا کے بیٹھے مرتے ہوئے بھی ہم کو…
اب سوکھی ہی جاتی ہے سب کشت ہوس ظالم
اب سوکھی ہی جاتی ہے سب کشت ہوس ظالم اے ابر تر آ کر ٹک ایدھر بھی برس ظالم صیاد بہار اب کے سب لوٹوں…
یوں کب ہوا ہے پیارے پاس اپنے تم بلا لو
یوں کب ہوا ہے پیارے پاس اپنے تم بلا لو دو باتیں گر لکھوں میں دل کو ٹک اک لگا لو اب جو نصیب میں…
یہ ترک ہوکے خشن کج اگر کلاہ کریں
یہ ترک ہوکے خشن کج اگر کلاہ کریں تو بوالہوس نہ کبھو چشم کو سیاہ کریں تمھیں بھی چاہیے ہے کچھ تو پاس چاہت کا…
یاروں کو کدورتیں ہیں اب تو ہم سے
یاروں کو کدورتیں ہیں اب تو ہم سے جس روز کہ ہم جائیں گے اس عالم سے اس روز کھلے گی صاف سب پر یہ…
یاد خط میں اس کے جی بھر آ کے گھبراتا رہا
یاد خط میں اس کے جی بھر آ کے گھبراتا رہا رات کا بھی کیا ہی مینھ آیا تھا پر جاتا رہا کیا قیامت ہوتی…
وہی جانے جو حیا کشتہ وفا رکھتا ہو
وہی جانے جو حیا کشتہ وفا رکھتا ہو اور رسوائی کا اندیشہ جدا رکھتا ہو کام لے یار سے جو جذب رسا رکھتا ہو یا…
وہ اک روش سے کھولے ہوئے بال ہو گیا میر تقی میر
وہ اک روش سے کھولے ہوئے بال ہو گیا سنبل چمن کا مفت میں پامال ہو گیا الجھاؤ پڑ گیا جو ہمیں اس کے عشق…
ہیں گوکہ سبھی تمھاری پیاری باتیں
ہیں گوکہ سبھی تمھاری پیاری باتیں پر جی سے نہ جائیں گی تمھاری باتیں آنکھیں ہیں ادھر روے سخن اور طرف یاروں کی نظر میں…
ہے خاک جیسے ریگ رواں سب نہ آب ہے
ہے خاک جیسے ریگ رواں سب نہ آب ہے دریائے موج خیز جہاں کا سراب ہے روز شمار میں بھی محاسب ہے گر کوئی تو…
ہوتی نہیں تسلی دل گلستاں سے بھی
ہوتی نہیں تسلی دل گلستاں سے بھی تسکیں نہیں ہے جان کو آب رواں سے بھی تا یہ گرفتہ وا ہو کہاں لے کے جائیے…
ہنستے ہو روتے دیکھ کر غم سے
ہنستے ہو روتے دیکھ کر غم سے چھیڑ رکھی ہے تم نے کیا ہم سے مند گئی آنکھ ہے اندھیرا پاک روشنی ہے سو یاں…
ہم میرؔ برے اتنے ہیں وہ اتنا خوب
ہم میرؔ برے اتنے ہیں وہ اتنا خوب متروک جہاں ہم ہیں وہ سب کا محبوب ہم ممکن اسے وجوب کا ہے رتبہ ہے کچھ…
ہم سے اسے نفاق ہوا ہے وفاق میں
ہم سے اسے نفاق ہوا ہے وفاق میں کم اتفاق پڑتے ہیں یہ اتفاق میں شاید کہ جان و تن کی جدائی بھی ہے قریب…
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
ہستی اپنی حباب کی سی ہے یہ نمائش سراب کی سی ہے نازکی اس کے لب کی کیا کہیے پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے…
ہر شب جہاں میں جلتے گذرتی ہے اے نسیم
ہر شب جہاں میں جلتے گذرتی ہے اے نسیم گویا چراغ وقف ہوں میں اس دیار کا
نئے طور سیکھے نکالے ڈھب اور
نئے طور سیکھے نکالے ڈھب اور مگر اور تھے تب ہوئے ہو اب اور ادا کچھ ہے انداز کچھ ناز کچھ تہ دل ہے کچھ…
نہ گلشن میں چمن پر ان نے بلبل تجھ کو جا دی ہے
نہ گلشن میں چمن پر ان نے بلبل تجھ کو جا دی ہے سپاس ایزد کے کر جن نے کہ یہ ڈالی نوادی ہے نہیں…
نہ اک یعقوبؑ رویا اس الم میں
نہ اک یعقوبؑ رویا اس الم میں کنواں اندھا ہوا یوسفؑ کے غم میں کہوں کب تک دم آنکھوں میں ہے میری نظر آوے ہی…
نظر کیا کروں اس کے گھر کی طرف
نظر کیا کروں اس کے گھر کی طرف نگاہیں ہیں میری نظر کی طرف چھپاتے ہیں منھ اپنا کامل سے سب نہیں کوئی کرتا ہنر…
نازچمن وہی ہے بلبل سے گو خزاں ہے
نازچمن وہی ہے بلبل سے گو خزاں ہے ٹہنی جو زرد بھی ہے سو شاخ زعفراں ہے گر اس چمن میں وہ بھی اک ہی…
میں جوانی میں مے پرست رہا
میں جوانی میں مے پرست رہا گردن شیشہ ہی میں دست رہا در میخانہ میں مرے سر پر ظل ممدود دار بست رہا سر پہ…
میرؔ ایک دم نہ اس بن تو تو جیا پیارے
میرؔ ایک دم نہ اس بن تو تو جیا پیارے کیا کہہ کے تجھ کو روویں یہ کیا کیا پیارے رنگین ہم تو تجھ کو…
مہوشاں پوچھیں نہ ٹک ہجراں میں گر مر جایئے
مہوشاں پوچھیں نہ ٹک ہجراں میں گر مر جایئے اب کہو اس شہر نا پرساں سے کیدھر جایئے کام دل کا کچھ ٹھکانا ہی نہیں…
ملا غیر سے جا جفا کیا نکالی
ملا غیر سے جا جفا کیا نکالی اکت لے کے آخر ادا کیا نکالی طبیبوں نے تجویز کی مرگ عاشق مناسب مرض کے دوا کیا…
مشتاق ان لبوں کے ہیں سب مرد و زن تمام
مشتاق ان لبوں کے ہیں سب مرد و زن تمام دفتر لکھے گئے نہ ہوا پر سخن تمام اب چھیڑیے جہاں وہیں گویا ہے درد…
مر ہی جاویں گے بہت ہجر میں ناشاد رہے
مر ہی جاویں گے بہت ہجر میں ناشاد رہے بھول تو ہم کو گئے ہو یہ تمھیں یاد رہے ہم سے دیوانے رہیں شہر میں…
محمل نشیں ہیں کتنے خدام یار میں یاں
محمل نشیں ہیں کتنے خدام یار میں یاں لیلیٰ کا ایک ناقہ سو کس قطار میں یاں سن شور کل قفس میں دل داغ سب…
مجھ سوز بعد مرگ سے آگاہ کون ہے
مجھ سوز بعد مرگ سے آگاہ کون ہے شمع مزار میرؔ بجز آہ کون ہے بیکس ہوں مضطرب ہوں مسافر ہوں بے وطن دوری راہ…
مایوس وصل اس کا چتون میں مت کہو تم
مایوس وصل اس کا چتون میں مت کہو تم جو ہو شمار دم میں اس کی امید کیا ہے
لوگ بہت پوچھا کرتے ہیں کیا کہیے میاں کیا ہے عشق
لوگ بہت پوچھا کرتے ہیں کیا کہیے میاں کیا ہے عشق کچھ کہتے ہیں سر الٰہی کچھ کہتے ہیں خدا ہے عشق عشق کی شان…
گئے عشق کی راہ سر کر قدم
گئے عشق کی راہ سر کر قدم بلا پر چلے آئے ہر ہر قدم عجب راہ پرخوف و مشکل گذر اٹھایا گیا ہم سے مر…
گو جان کر تجھے سب تعبیر کر رہے ہیں
گو جان کر تجھے سب تعبیر کر رہے ہیں ہم لوگ تیرے اوپر سو جی سے مر رہے ہیں کھنچتا چلا ہے اب تو تصدیق…
گل کو ہوتا صبا قرار اے کاش
گل کو ہوتا صبا قرار اے کاش رہتی ایک آدھ دن بہار اے کاش یہ جو دو آنکھیں مند گئیں میری اس پہ وا ہوتیں…
گردش دنوں کی کم نہ ہوئی کچھ کڑے ہوئے
گردش دنوں کی کم نہ ہوئی کچھ کڑے ہوئے روزے رکھے غریبوں نے تو دن بڑے ہوئے نرمی سے کوئے یار میں جاوے تو جا…
گذار خوش نگاہاں جس میں ہے میرا بیاباں ہے
گذار خوش نگاہاں جس میں ہے میرا بیاباں ہے سواد بر مجنوں تو چراگاہ غزالاں ہے کرے ہے خندۂ دنداں نما تو میں بھی روؤں…
کیا منھ لگے گلوں کے شگفتہ دماغ ہے
کیا منھ لگے گلوں کے شگفتہ دماغ ہے پھولا پھرے ہے مرغ چمن باغ باغ ہے وہ دل نہیں رہا ہے نہ اب وہ دماغ…
کیا کوفتیں اٹھائیں ہجراں کے درد وغم میں
کیا کوفتیں اٹھائیں ہجراں کے درد وغم میں تڑپا ہزار نوبت دل ایک ایک دم میں گو قیس منھ کو نوچے فرہاد سر کو چیرے…
کیا کہیں اپنی اس کی شب کی بات
کیا کہیں اپنی اس کی شب کی بات کہیے ہووے جو کچھ بھی ڈھب کی بات اب تو چپ لگ گئی ہے حیرت سے پھر…
کیا کروں شرح خستہ جانی کی
کیا کروں شرح خستہ جانی کی میں نے مر مر کے زندگانی کی حال بد گفتنی نہیں میرا تم نے پوچھا تو مہربانی کی سب…
کیا خور ہو طرف یار کے روشن گہری سے
کیا خور ہو طرف یار کے روشن گہری سے مانا ہے حضور اس کے چراغ سحری سے سبزان چمن ہوویں برابر ترے کیوں کر لگتا…
کیا تو نمود کس کی کیسا کمال تیرا
کیا تو نمود کس کی کیسا کمال تیرا اے نقش وہم آیا کیدھر خیال تیرا کیا ہے جو ہو زنخ زن مہ پاس کا ستارہ…
کوفت سے جان لب پہ آئی ہے
کوفت سے جان لب پہ آئی ہے ہم نے کیا چوٹ دل پہ کھائی ہے لکھتے رقعہ لکھے گئے دفتر شوق نے بات کیا بڑھائی…