میر تقی میر
بات کہوں کیا چپکے چپکے دیکھو ہو آئینے کو
بات کہوں کیا چپکے چپکے دیکھو ہو آئینے کو دیکھتے ہو تو دیکھو ہمارے جلتے توے سے سینے کو کیا جانو تم قدر ہماری مہر…
ایک نہ خواہش بر آئی تا جی کا غبار نکل جاتا
ایک نہ خواہش بر آئی تا جی کا غبار نکل جاتا کاشکے آہو چشم اپنا آنکھوں کو پاؤں سے مل آتش دل کی لپٹوں کا…
آیا کمال نقص مرے دل کی تاب میں
آیا کمال نقص مرے دل کی تاب میں جاتا ہے جی چلا ہی مرا اضطراب میں دوزخ کیا ہے سینہ مرا سوز عشق سے اس…
اے رشک برق تجھ سے مشکل ہے کار عاشق
اے رشک برق تجھ سے مشکل ہے کار عاشق اک جھمکے میں کہاں پھر صبر و قرار عاشق خاک سیہ سے یکساں تیرے لیے ہوا…
آہ کے تیں دل حیران و خفا کو سونپا
آہ کے تیں دل حیران و خفا کو سونپا میں نے یہ غنچۂ تصویر صبا کو سونپا تیرے کوچے میں مری خاک بھی پامال ہوئی…
انکھڑیوں کو اس کی خاطر خواہ کیونکر دیکھیے
انکھڑیوں کو اس کی خاطر خواہ کیونکر دیکھیے سو طرف جب دیکھ لیجے تب ٹک اودھر دیکھیے گرچہ زردی رنگ کی بھی ہجر ہی سے…
امیروں تک رسائی ہو چکی بس
امیروں تک رسائی ہو چکی بس مری بخت آزمائی ہو چکی بس بہار اب کے بھی جو گذری قفس میں تو پھر اپنی رہائی ہو…
اگر ہنستا اسے سیرچمن میں اب کے پاؤں گا
اگر ہنستا اسے سیرچمن میں اب کے پاؤں گا تو بلبل آشیاں تیرا ہی میں پھولوں سے چھاؤں گا مجھے گل اس کے آگے خوش…
آغشتہ خون دل سے سخن تھے زبان پر
آغشتہ خون دل سے سخن تھے زبان پر رکھے نہ تم نے کان ٹک اس داستان پر کچھ ہو رہے گا عشق و ہوس میں…
اس کی دوری میں کڑھا کرتے ہیں ہم حد سے زیاد
اس کی دوری میں کڑھا کرتے ہیں ہم حد سے زیاد جی گیا آخر رہا دل کو جو غم حد سے زیاد چھاتی پھٹ جاتی…
اس رنگ سے جو زرد زبوں زار ہیں ہم لوگ
اس رنگ سے جو زرد زبوں زار ہیں ہم لوگ دل کے مرض عشق سے بیمار ہیں ہم لوگ کیا اپنے تئیں پستی بلندی سے…
آج ہمارے گھر آیا تو کیا ہے یاں جو نثار کریں
آج ہمارے گھر آیا تو کیا ہے یاں جو نثار کریں الا کھینچ بغل میں تجھ کو دیر تلک ہم پیار کریں خاک ہوئے برباد…
آتے ہی آتے تیرے یہ ناکام ہو چکا
آتے ہی آتے تیرے یہ ناکام ہو چکا واں کام ہی رہا تجھے یاں کام ہو چکا یا خط چلے ہی آتے تھے یا حرف…
ابر جب مجھ خاک پر سے ہو گیا
ابر جب مجھ خاک پر سے ہو گیا ایک دو دم زار باراں رو گیا کیا کہوں میں میرؔ اپنی سرگذشت ابتدا ہی قصے میں…
اب کچھ مزے پر آیا شاید وہ شوخ دیدہ
اب کچھ مزے پر آیا شاید وہ شوخ دیدہ آب اس کے پوست میں ہے جوں میوۂ رسیدہ آنکھیں ملا کبھو تو کب تک کیا…
یہی عشق ہے جی کھپا جانتا ہے
یہی عشق ہے جی کھپا جانتا ہے کہ جاناں سے بھی جی ملا جانتا ہے بدی میں بھی کچھ خوبی ہووے گی تب تو برا…
یاں ہم برائے بیت جو بے خانماں رہے
یاں ہم برائے بیت جو بے خانماں رہے سو یوں رہے کہ جیسے کوئی میہماں رہے تھا ملک جن کے زیر نگیں صاف مٹ گئے…
یار نے ہم سے بے ادائی کی
یار نے ہم سے بے ادائی کی وصل کی رات میں لڑائی کی بال و پر بھی گئے بہار کے ساتھ اب توقع نہیں رہائی…
وے دن اب سالتے ہیں جن میں پھرے یار کے ساتھ
وے دن اب سالتے ہیں جن میں پھرے یار کے ساتھ لطف سے حرف و سخن تھے نگہ اک پیار کے ساتھ رو بہ پس…
وہ جو گلشن میں جلوہ ناک ہوا
وہ جو گلشن میں جلوہ ناک ہوا پھول غیرت سے جل کے خاک ہوا اس کے دامن تلک نہ پہنچا ہاتھ تھا سر دست جیب…
وحشت ہے ہمیں بھی وہی گھر بار سے اب تک
وحشت ہے ہمیں بھی وہی گھر بار سے اب تک سر مارے ہیں اپنے در و دیوار سے اب تک مرتے ہی سنا ان کو…
ہے آگ کا سا نالۂ کاہش فزا کا رنگ
ہے آگ کا سا نالۂ کاہش فزا کا رنگ کچھ اور صبح دم سے ہوا ہے ہوا کا رنگ دیکھے ادھر تو مجھ سے نہ…
ہو کوئی اس بے وفا دلدار سے کیا آشنا
ہو کوئی اس بے وفا دلدار سے کیا آشنا آشنا رہ برسوں جو اک دم میں ہو ناآشنا قدر جانو کچھ ہماری ورنہ پچھتاؤ گے…
ہم نے جانا تھا سخن ہوں گے زباں پر کتنے
ہم نے جانا تھا سخن ہوں گے زباں پر کتنے پر قلم ہاتھ جو آئی لکھے دفتر کتنے میں نے اس قطعۂ صناع سے سر…
ہم سے کچھ آگے زمانے میں ہوا کیا کیا کچھ
ہم سے کچھ آگے زمانے میں ہوا کیا کیا کچھ تو بھی ہم غافلوں نے آ کے کیا کیا کیا کچھ دل جگر جان یہ…
ہم تم سے چشم رکھتے تھے دلداریاں بہت
ہم تم سے چشم رکھتے تھے دلداریاں بہت سو التفات کم ہے دل آزاریاں بہت دیکھیں تو کیا دکھائے یہ افراط اشتیاق لگتی ہیں تیری…
ہر صبح شام تو پئے ایذائے میرؔ ہو
ہر صبح شام تو پئے ایذائے میرؔ ہو ایسا نہ ہو کہ کام ہی اس کا اخیر ہو ہو کوئی بادشاہ کوئی یاں وزیر ہو…
ہجر تا چند ہم اب وصل طلب کرتے ہیں
ہجر تا چند ہم اب وصل طلب کرتے ہیں لگ گیا ڈھب تو اسی شوخ سے ڈھب کرتے ہیں روز اک ظلم نیا کرتے ہیں…
نہیں ایسا کوئی میرا جو ماتم دار ہوئے گا
نہیں ایسا کوئی میرا جو ماتم دار ہوئے گا مگر اک غم ترا اے شوخ بے کس ہوکے روئے گا اگر اگتے رہے اے ناامیدی…
نہ تنہا داغ نو سینے پہ میرے اک چمن نکلے
نہ تنہا داغ نو سینے پہ میرے اک چمن نکلے ہر اک لخت جگر کے ساتھ سو زخم کہن نکلے گماں کب تھا یہ پروانے…
نالۂ شب نے کیا ہے جو اثر مت پوچھو
نالۂ شب نے کیا ہے جو اثر مت پوچھو ٹکڑے ٹکڑے ہوا جاتا ہے جگر مت پوچھو پوچھتے کیا ہو مرے دل کا تم احوال…
ناخن سے بوالہوس کا گلا یوں ہی چھل گیا
ناخن سے بوالہوس کا گلا یوں ہی چھل گیا لوہو لگا کے وہ بھی شہیدوں میں مل گیا دل جمع تھا جو غنچہ کے رنگوں…
میں آگے نہ تھا دیدۂ پر آب سے واقف
میں آگے نہ تھا دیدۂ پر آب سے واقف پلکیں نہ ہوئی تھیں مری خوناب سے واقف پتھر تو بہت لڑکوں کے کھائے ہیں ولیکن…
موسم گل آیا ہے یارو کچھ میری تدبیر کرو
موسم گل آیا ہے یارو کچھ میری تدبیر کرو یعنی سایۂ سرو و گل میں اب مجھ کو زنجیر کرو پیش سعایت کیا جائے ہے…
ملنے کے دن جب یاد آتے ہیں سدھ بدھ بھولے جاتے ہیں
ملنے کے دن جب یاد آتے ہیں سدھ بدھ بھولے جاتے ہیں بے خود ہو جاتے ہیں ہم تو دیر بخود پھر آتے ہیں
مطرب نے پڑھی تھی غزل اک میرؔ کی شب کو
مطرب نے پڑھی تھی غزل اک میرؔ کی شب کو مجلس میں بہت وجد کی حالت رہی سب کو پھرتے ہیں چنانچہ لیے خدام سلاتے…
مرے اس رک کے مر جانے سے وہ غافل ہے کیا جانے
مرے اس رک کے مر جانے سے وہ غافل ہے کیا جانے گذرنا جان سے آساں بہت مشکل ہے کیا جانے کوئی سر سنگ سے…
مدت ہوئی کہ تاب و تواں جی چھپا گئے
مدت ہوئی کہ تاب و تواں جی چھپا گئے بیتاب کر کے خاک میں ہم کو ملا گئے وے دن گئے کہ آٹھ پہر اس…
مجھے تو درد سے اک انس ہے وفا کی قسم
مجھے تو درد سے اک انس ہے وفا کی قسم یہی سبب ہے جو کھائی ہے میں دوا کی قسم کل ان نے تیغ رکھی…
مت سہل سمجھو ایسے ہیں ہم کیا ورے دھرے
مت سہل سمجھو ایسے ہیں ہم کیا ورے دھرے ظاہر تو پاس بیٹھے ہیں پر ہیں بہت پرے سختی بہت ہے پاس و مراعات عشق…
لے عشق میں گئے دل پر اپنی جان سے
لے عشق میں گئے دل پر اپنی جان سے خالی ہوا جہاں جو گئے ہم جہان سے دل میں مسودے تھے بہت پر حضور یار…
لب ترے لعل ناب ہیں دونوں
لب ترے لعل ناب ہیں دونوں پر تمامی عتاب ہیں دونوں رونا آنکھوں کا رویئے کب تک پھوٹنے ہی کے باب ہیں دونوں ہے تکلف…
گیا حسن خوبان بد راہ کا
گیا حسن خوبان بد راہ کا ہمیشہ رہے نام اللہ کا پشیماں ہوا دوستی کر کے میں بہت مجھ کو ارمان تھا چاہ کا جگر…
گل منعکس ہوئے ہیں بہت آب جو کے بیچ
گل منعکس ہوئے ہیں بہت آب جو کے بیچ جائے شراب پانی بھریں گے سبو کے بیچ ستھراؤ کر دیا ہے تمنائے وصل نے کیا…
گرمی سے عاشقی کی آخر کو ہو رہا کچھ
گرمی سے عاشقی کی آخر کو ہو رہا کچھ پانی ہوا ہے کچھ تو میرا جگر جلا کچھ آزردہ دل ہزاروں مرتے ہی ہم سنے…
گر کچھ ہو درد آئینہ یوں چرخ زشت میں
گر کچھ ہو درد آئینہ یوں چرخ زشت میں ان صورتوں کو صرف کرے خاک و خشت میں رکھتا ہے سوز عشق سے دوزخ میں…
کیفی ہو کیوں تو ناز سے پھر گرم رہ ہوا
کیفی ہو کیوں تو ناز سے پھر گرم رہ ہوا برسوں سے صوفیوں کا مصلیٰ تو تہ ہوا معلوم تیرے چہرۂ پرنور کا سا لطف…