میر تقی میر
میں آگے نہ تھا دیدۂ پر آب سے واقف
میں آگے نہ تھا دیدۂ پر آب سے واقف پلکیں نہ ہوئی تھیں مری خوناب سے واقف پتھر تو بہت لڑکوں کے کھائے ہیں ولیکن…
موسم گل آیا ہے یارو کچھ میری تدبیر کرو
موسم گل آیا ہے یارو کچھ میری تدبیر کرو یعنی سایۂ سرو و گل میں اب مجھ کو زنجیر کرو پیش سعایت کیا جائے ہے…
ملنے کے دن جب یاد آتے ہیں سدھ بدھ بھولے جاتے ہیں
ملنے کے دن جب یاد آتے ہیں سدھ بدھ بھولے جاتے ہیں بے خود ہو جاتے ہیں ہم تو دیر بخود پھر آتے ہیں
مطرب نے پڑھی تھی غزل اک میرؔ کی شب کو
مطرب نے پڑھی تھی غزل اک میرؔ کی شب کو مجلس میں بہت وجد کی حالت رہی سب کو پھرتے ہیں چنانچہ لیے خدام سلاتے…
مرے اس رک کے مر جانے سے وہ غافل ہے کیا جانے
مرے اس رک کے مر جانے سے وہ غافل ہے کیا جانے گذرنا جان سے آساں بہت مشکل ہے کیا جانے کوئی سر سنگ سے…
مدت ہوئی کہ تاب و تواں جی چھپا گئے
مدت ہوئی کہ تاب و تواں جی چھپا گئے بیتاب کر کے خاک میں ہم کو ملا گئے وے دن گئے کہ آٹھ پہر اس…
مجھے تو درد سے اک انس ہے وفا کی قسم
مجھے تو درد سے اک انس ہے وفا کی قسم یہی سبب ہے جو کھائی ہے میں دوا کی قسم کل ان نے تیغ رکھی…
مت سہل سمجھو ایسے ہیں ہم کیا ورے دھرے
مت سہل سمجھو ایسے ہیں ہم کیا ورے دھرے ظاہر تو پاس بیٹھے ہیں پر ہیں بہت پرے سختی بہت ہے پاس و مراعات عشق…
لے عشق میں گئے دل پر اپنی جان سے
لے عشق میں گئے دل پر اپنی جان سے خالی ہوا جہاں جو گئے ہم جہان سے دل میں مسودے تھے بہت پر حضور یار…
لب ترے لعل ناب ہیں دونوں
لب ترے لعل ناب ہیں دونوں پر تمامی عتاب ہیں دونوں رونا آنکھوں کا رویئے کب تک پھوٹنے ہی کے باب ہیں دونوں ہے تکلف…
گیا حسن خوبان بد راہ کا
گیا حسن خوبان بد راہ کا ہمیشہ رہے نام اللہ کا پشیماں ہوا دوستی کر کے میں بہت مجھ کو ارمان تھا چاہ کا جگر…
گل منعکس ہوئے ہیں بہت آب جو کے بیچ
گل منعکس ہوئے ہیں بہت آب جو کے بیچ جائے شراب پانی بھریں گے سبو کے بیچ ستھراؤ کر دیا ہے تمنائے وصل نے کیا…
گرمی سے عاشقی کی آخر کو ہو رہا کچھ
گرمی سے عاشقی کی آخر کو ہو رہا کچھ پانی ہوا ہے کچھ تو میرا جگر جلا کچھ آزردہ دل ہزاروں مرتے ہی ہم سنے…
گر کچھ ہو درد آئینہ یوں چرخ زشت میں
گر کچھ ہو درد آئینہ یوں چرخ زشت میں ان صورتوں کو صرف کرے خاک و خشت میں رکھتا ہے سوز عشق سے دوزخ میں…
کیفی ہو کیوں تو ناز سے پھر گرم رہ ہوا
کیفی ہو کیوں تو ناز سے پھر گرم رہ ہوا برسوں سے صوفیوں کا مصلیٰ تو تہ ہوا معلوم تیرے چہرۂ پرنور کا سا لطف…
کیا نیچی آنکھوں دیکھو ہو تلوار کی طرف
کیا نیچی آنکھوں دیکھو ہو تلوار کی طرف دیکھو کنکھیوں ہی سے گنہگار کی طرف آوارگی کے محو ہیں ہم خانماں خراب مطلق نہیں نظر…
کیا کیا نہ لوگ کھیلتے جاتے ہیں جان پر
کیا کیا نہ لوگ کھیلتے جاتے ہیں جان پر اطفال شہر لائے ہیں آفت جہان پر کچھ ان دنوں اشارۂ ابرو ہیں تیز تیز کیا…
کیا کہیے کچھ بن نہیں آتی جنگل جنگل ہو آئے
کیا کہیے کچھ بن نہیں آتی جنگل جنگل ہو آئے چھانہہ میں جا کے ببولوں کی ہم عشق و جنوں کو رو آئے دل کی…
کیا کریے بیاں مصیبت اپنی پیارے
کیا کریے بیاں مصیبت اپنی پیارے دن عمر کے میرے غم میں گذرے سارے رنج و ضعف و بلا اذیت محنت پنپا ہی نہ میں…
کیا عبث مجنوں پئے محمل ہے میاں
کیا عبث مجنوں پئے محمل ہے میاں یہ دوانہ باؤلا عاقل ہے میاں قند کا کون اس قدر مائل ہے میاں جو ہے ان ہونٹوں…
کیا جو عرض کہ دل سا شکار لایا ہوں
کیا جو عرض کہ دل سا شکار لایا ہوں کہا کہ ایسے تو میں مفت مار لایا ہوں کہے تو نخل صنوبر ہوں اس چمن…
کوئی نہیں جہاں میں جو اندوہگیں نہیں
کوئی نہیں جہاں میں جو اندوہگیں نہیں اس غم کدے میں آہ دل خوش کہیں نہیں کرتا ہے ابر دعوی دریا دلی عبث دامن نہیں…
کہے ہے کوہکن کر فکر میری خستہ حالی میں
کہے ہے کوہکن کر فکر میری خستہ حالی میں الٰہی شکر کرتا ہوں تری درگاہ عالی میں میں وہ پژمردہ سبزہ ہوں کہ ہو کر…
کہتے نہ تھے ہم تم سے دل ہاتھ سے مت دیجو
کہتے نہ تھے ہم تم سے دل ہاتھ سے مت دیجو مت کھائیو غم اپنا اپنا نہ لہو پیجو ان پلکوں کی کاوش سے زخمی…
کن نے کہا کہ مجھ سے بہت کم ملا کرو
کن نے کہا کہ مجھ سے بہت کم ملا کرو منت بھی میں کروں تو نہ ہرگز منا کرو بندے سے کی ہے جن نے…
خنجر بہ کف وہ جب سے سفاک ہو گیا ہے
خنجر بہ کف وہ جب سے سفاک ہو گیا ہے ملک ان ستم زدوں کا سب پاک ہو گیا ہے جس سے اسے لگاؤں روکھا…
کل بارے ہم سے اس سے ملاقات ہو گئی
کل بارے ہم سے اس سے ملاقات ہو گئی دو دو بچن کے ہونے میں اک بات ہو گئی کن کن مصیبتوں سے ہوئی صبح…
کڑھتے جو رہے ہجر میں بیمار ہوئے ہم
کڑھتے جو رہے ہجر میں بیمار ہوئے ہم بستر پہ گرے رہتے ہیں ناچار ہوئے ہم بہلانے کو دل باغ میں آئے تھے سو بلبل…
کر صرف دید عمر پھرے ہے تو یاں کہاں
کر صرف دید عمر پھرے ہے تو یاں کہاں ہے سیر مفت میرؔ تجھے پھر جہاں کہاں
کجی اس کی جو میں جتانے لگا
کجی اس کی جو میں جتانے لگا مجھے سیدھیاں وہ سنانے لگا تحمل نہ تھا جس کو ٹک سو وہ میں ستم کیسے کیسے اٹھانے…
کب تلک جی رکے خفا ہووے
کب تلک جی رکے خفا ہووے آہ کریے کہ ٹک ہوا ہووے جی ٹھہر جائے یا ہوا ہووے دیکھیے ہوتے ہوتے کیا ہووے کر نمک…
کاش اٹھیں ہم بھی گنہگاروں کے بیچ
کاش اٹھیں ہم بھی گنہگاروں کے بیچ ہوں جو رحمت کے سزاواروں کے بیچ جی سدا ان ابروؤں ہی میں رہا کی بسر ہم عمر…
فلک کا منھ نہیں اس فتنے کے اٹھانے کا
فلک کا منھ نہیں اس فتنے کے اٹھانے کا ستم شریک ترا ناز ہے زمانے کا ہمارے ضعف کی حالت سے دل قوی رکھیو کہیں…
غم ابھی کیا محشر مشہور کا
غم ابھی کیا محشر مشہور کا شور سا ہے تو ولیکن دور کا حق تو سب کچھ ہی ہے تو ناحق نہ بول بات کہتے…
عمر بھر ہم رہے شرابی سے
عمر بھر ہم رہے شرابی سے دل پر خوں کی اک گلابی سے جی ڈھہا جائے ہے سحر سے آہ رات گذرے گی کس خرابی…
عشق میں اے طبیب ہاں ٹک سوچ
عشق میں اے طبیب ہاں ٹک سوچ پائے جاں درمیاں ہے یاں ٹک سوچ بے تامل ادائے کیں مت کر قتل میں میرے مہرباں ٹک…
عشق صمد میں جان چلی وہ چاہت کا ارمان گیا
عشق صمد میں جان چلی وہ چاہت کا ارمان گیا تازہ کیا پیمان صنم سے دین گیا ایمان گیا میں جو گدایانہ چلایا در پر…
عجب نہیں ہے نہ جانے جو میرؔ چاہ کی ریت
عجب نہیں ہے نہ جانے جو میرؔ چاہ کی ریت سنا نہیں ہے مگر یہ کہ جوگی کس کے میت مت ان نمازیوں کو خانہ…
ظالم یہ کیا نکالی رفتار رفتہ رفتہ
ظالم یہ کیا نکالی رفتار رفتہ رفتہ اس چال پر چلے گی تلوار رفتہ رفتہ ہر آن ہم کو تجھ بن ایک اک برس ہوئی…
طائر دل کی طپش سینے میں جانو تم بسمل کا رقص
طائر دل کی طپش سینے میں جانو تم بسمل کا رقص ان ہی رنگوں ہوتا ہے اس صید طرفہ دل کا رقص
صبر و طاقت کو کڑھوں یا خوش دلی کا غم کروں
صبر و طاقت کو کڑھوں یا خوش دلی کا غم کروں اس میں حیراں ہوں بہت کس کس کا میں ماتم کروں موسم حیرت ہے…
شیخ حرم سے لڑکے چلا ہوں اب کعبے میں نہ آؤں گا
شیخ حرم سے لڑکے چلا ہوں اب کعبے میں نہ آؤں گا تا بت خانہ ہر قدم اوپر سجدہ کرتا جاؤں گا بہر پرستش پیش…
شعر کچھ میں نے کہے بالوں کی اس کے یاد میں
شعر کچھ میں نے کہے بالوں کی اس کے یاد میں سو غزل پڑھتے پھرے ہیں لوگ فیض آباد میں سرخ آنکھیں خشم سے کیں…
شاید اس سادہ نے رکھا ہے خط
شاید اس سادہ نے رکھا ہے خط کہ ہمیں متصل لکھا ہے خط شوق سے بات بڑھ گئی تھی بہت دفتر اس کو لکھیں ہیں…
سوز دروں سے آخر بھسمنت دل کو پایا
سوز دروں سے آخر بھسمنت دل کو پایا اس آگ نے بھڑک کر دربست گھر جلایا جی دے کے لیتے ایسے معشوق بے بدل کو…
سمندر کا میں کیوں احساں سہوں گا
سمندر کا میں کیوں احساں سہوں گا نہیں کیا سیل اشک اس پر بہوں گا نہ تو آوے نہ جاوے بے قراری یوں ہی اک…
سختیاں کھینچیں سو کھینچیں پھر بھی جو اٹھ کر چلے
سختیاں کھینچیں سو کھینچیں پھر بھی جو اٹھ کر چلے چلتے اس کوچے سے ہم پر سینکڑوں پتھر چلے مارگیری سے زمانے کی نہ دل…
سال میں ابر بہاری تجھ سے اک باری ہے فیض
سال میں ابر بہاری تجھ سے اک باری ہے فیض چشم نم دیدہ سے عاشق کی سدا جاری ہے فیض
زخم جھیلے داغ بھی کھائے بہت
زخم جھیلے داغ بھی کھائے بہت دل لگا کر ہم تو پچھتائے بہت جب نہ تب جاگہ سے تم جایا کیے ہم تو اپنی اور…