میر تقی میر
کہاں یاد قیس اب جو دنیا کرے ہے
کہاں یاد قیس اب جو دنیا کرے ہے کبھو قدر داں عشق پیدا کرے ہے یہ طفلان بازار جی کے ہیں گاہک وہی جانتا ہے…
خواہ مجھ سے لڑ گیا اب خواہ مجھ سے مل گیا
خواہ مجھ سے لڑ گیا اب خواہ مجھ سے مل گیا کیا کہوں اے ہم نشیں میں تجھ سے حاصل دل گیا اپنے ہی دل…
خط لکھ کے کوئی سادہ نہ اس کو ملول ہو
خط لکھ کے کوئی سادہ نہ اس کو ملول ہو ہم تو ہوں بدگمان جو قاصد رسول ہو چاہوں تو بھرکے کولی اٹھا لوں ابھی…
کس تازہ مقتل پہ کشندے تیرا ہوا ہے گذارا آج
کس تازہ مقتل پہ کشندے تیرا ہوا ہے گذارا آج زہ دامن کی بھری ہے لہو سے کس کو تو نے مارا آج کل تک…
کرتا ہے کب سلوک وہ اہل نیاز سے
کرتا ہے کب سلوک وہ اہل نیاز سے گفتار اس کی کبر سے رفتار ناز سے یوں کب ہمارے آنسو پچھیں ہیں کہ تو نے…
کچھ کرو فکر مجھ دوانے کی
کچھ کرو فکر مجھ دوانے کی دھوم ہے پھر بہار آنے کی دل کا اس کنج لب سے دے ہیں نشاں بات لگتی تو ہے…
کب سے ہے باغ کے پس دیوار باش و بود
کب سے ہے باغ کے پس دیوار باش و بود مشکل کریں ہیں جیسے گرفتار باش و بود دنیا میں اپنے رہنے کا کیا طور…
کام میرا بھی ترے غم میں کہوں ہو جائے گا
کام میرا بھی ترے غم میں کہوں ہو جائے گا جب یہ کہتا ہوں تو کہتا ہے کہ ہوں ہو جائے گا خون کم کر…
قفس تو یاں سے گئے پر مدام ہے صیاد
قفس تو یاں سے گئے پر مدام ہے صیاد چمن کی صبح کوئی دم کو شام ہے صیاد بہت ہیں ہاتھ ہی تیرے نہ کر…
فراق آنکھ لگنے کی جا ہی نہیں
فراق آنکھ لگنے کی جا ہی نہیں پلک سے پلک آشنا ہی نہیں گلہ عشق کا بدو خلقت سے ہے غم دل کو کچھ انتہا…
غم کھنچا رائیگاں دریغ دریغ
غم کھنچا رائیگاں دریغ دریغ ہم ہوئے خستہ جاں دریغ دریغ عشق میں جی بھی ہم گنوا بیٹھے ہو گیا کیا زیاں دریغ دریغ سب…
غالب کہ یہ دل خستہ شب ہجر میں مرجائے
غالب کہ یہ دل خستہ شب ہجر میں مرجائے یہ رات نہیں وہ جو کہانی میں گذر جائے ہے طرفہ مفتن نگہ اس آئینہ رو…
عشق نے ہم کو مار رکھا ہے جی میں اپنے تاب نہیں
عشق نے ہم کو مار رکھا ہے جی میں اپنے تاب نہیں دل کو خیال صبر نہیں آنکھوں کو میل خواب نہیں کوئی سبب ایسا…
عشق کیا سو جان جلی ہے الفت تھی یا کلفت تھی
عشق کیا سو جان جلی ہے الفت تھی یا کلفت تھی کوٹے گئے ہیں سب اعضا یہ محبت تھی یا محنت تھی اب تو نڈھال…
عشق تو بن رسوائی عالم باعث ہے رسوائی کا
عشق تو بن رسوائی عالم باعث ہے رسوائی کا میل دلی اس خودسر سے ہے جو پایہ ہے خدائی کا ہے جو سیاہی جرم قمر…
عالم میں کوئی دل کا طلبگار نہ پایا
عالم میں کوئی دل کا طلبگار نہ پایا اس جنس کا یاں ہم نے خریدار نہ پایا حق ڈھونڈنے کا آپ کو آتا نہیں ورنہ…
طرفہ خوش رو دم خوں ریز ادا کرتے ہیں
طرفہ خوش رو دم خوں ریز ادا کرتے ہیں وار جب کرتے ہیں منھ پھیر لیا کرتے ہیں عشق کرنا نہیں آسان بہت مشکل ہے…
صید افگنوں سے ملنے کی تدبیر کریں گے
صید افگنوں سے ملنے کی تدبیر کریں گے اس دل کے تئیں پیش کش تیر کریں گے فریاد اسیران محبت نہیں بے ہیچ یہ نالے…
صبح سے بن علاج تو خوش ہے
صبح سے بن علاج تو خوش ہے تیرا بیمار آج تو خوش ہے میرؔ پھر کہیو سرگذشت اپنی بارے یہ کہہ مزاج تو خوش ہے
شوخ عاشق قد کو تیرے سرو یا طوبیٰ کہے
شوخ عاشق قد کو تیرے سرو یا طوبیٰ کہے کچھ ٹھہرتی ہی نہیں کوئی کہے تو کیا کہے کیا تفاوت ہے بڑے چھوٹے میں گر…
شب درد و غم سے عرصہ مرے جی پہ تنگ تھا میر تقی میر
شب درد و غم سے عرصہ مرے جی پہ تنگ تھا آیا شب فراق تھی یا روز جنگ تھا کثرت میں درد و غم کی…
سیر کی ہم نے ہر کہیں پیارے
سیر کی ہم نے ہر کہیں پیارے پھر جو دیکھا تو کچھ نہیں پیارے خشک سال وفا میں اک مدت پلکیں لوہو میں تر رہیں…
سنتا نہیں اگرچہ ہمارا نگار بات
سنتا نہیں اگرچہ ہمارا نگار بات پر منھ پہ آ ہی جاتی ہے بے اختیار بات بلبل کے بولنے سے ہے کیوں بے دماغ گل…
سر کاٹ کے ڈلوا دیے انداز تو دیکھو
سر کاٹ کے ڈلوا دیے انداز تو دیکھو پامال ہے سب خلق جہاں ناز تو دیکھو کچھ سوجھ نہیں پڑتی تمھیں بے خبری سے ٹک…
سب شرم جبین یار سے پانی ہے
سب شرم جبین یار سے پانی ہے ہرچند کہ گل شگفتہ پیشانی ہے سمجھے نہ کہ بازیچۂ اطفال ہوئے لڑکوں سے ملاقات ہی نادانی ہے…
زمیں اور ہے آسماں اور ہے
زمیں اور ہے آسماں اور ہے تب آناً فآناً سماں اور ہے نہ وے لوگ ہیں اب نہ اجماع وہ جہاں وہ نہیں یہ جہاں…
رونا ٹک اک تھما تو غم بیکراں سہا
رونا ٹک اک تھما تو غم بیکراں سہا دس دن رہے جہان میں ہم سو رہا دہا پہلو میں اک گرہ سی تہ خاک ساتھ…
رہا ہونا نہیں امکان ان ترکیب والوں سے
رہا ہونا نہیں امکان ان ترکیب والوں سے کہ بل دے باندھتے ہیں پیچ پگڑی کے بھی بالوں سے تجھے نسبت جو دیتے ہیں شرار…
رمق ایک جان وبال ہے کوئی دم جو ہے تو عذاب ہے
رمق ایک جان وبال ہے کوئی دم جو ہے تو عذاب ہے دل داغ گشتہ کباب ہے جگر گداختہ آب ہے مری خلق محو کلام…
رشتہ کیا ٹھہرے گا یہ جیسے کہ مو نازک ہے
رشتہ کیا ٹھہرے گا یہ جیسے کہ مو نازک ہے چاک دل پلکوں سے مت سی کہ رفو نازک ہے شاخ گل کاہے کو اس…
ڈول لگائے بہتیرے پر ڈھب پہ کبھو نہیں آتے تم
ڈول لگائے بہتیرے پر ڈھب پہ کبھو نہیں آتے تم آنا یک سو کب دیکھو ہو ایدھر آتے جاتے تم ہر صورت کو دیکھ رہو…
دیکھا کروں تجھی کو منظور ہے تو یہ ہے
دیکھا کروں تجھی کو منظور ہے تو یہ ہے آنکھیں نہ کھولوں تجھ بن مقدور ہے تو یہ ہے نزدیک تجھ سے سب ہے کیا…
دوستی نے تو ہماری جاں گدازی خوب کی
دوستی نے تو ہماری جاں گدازی خوب کی آہ اس دشمن نے یہ عاشق نوازی خوب کی گور پر آیا سمند ناز کو جولاں کیے…
دن گذرتا ہے مجھے فکر ہی میں تا کیا ہو
دن گذرتا ہے مجھے فکر ہی میں تا کیا ہو رات جاتی ہے اسی غم میں کہ فردا کیا ہو سب ہیں دیدار کے مشتاق…
دل کے معمورے کی مت کر فکر فرصت چاہیے
دل کے معمورے کی مت کر فکر فرصت چاہیے ایسے ویرانے کے اب بسنے کو مدت چاہیے عشق و مے خواری نبھے ہے کوئی درویشی…
دل کہے میں ہوں تو کاہے کو کوئی بیتاب ہو
دل کہے میں ہوں تو کاہے کو کوئی بیتاب ہو آنکھ کا لگنا نہ ہو تو اشک کیوں خوناب ہو وہ نہیں چھڑکاؤ سا میں…
دل صاف ہو تو جلوہ گہ یار کیوں نہ ہو
دل صاف ہو تو جلوہ گہ یار کیوں نہ ہو آئینہ ہو تو قابل دیدار کیوں نہ ہو عالم تمام اس کا گرفتار کیوں نہ…
دل جو زیر غبار اکثر تھا
دل جو زیر غبار اکثر تھا کچھ مزاج ان دنوں مکدر تھا اس پہ تکیہ کیا تو تھا لیکن رات دن ہم تھے اور بستر…
دل پر تو چوٹ تھی ہی زخمی ہوا جگر سب
دل پر تو چوٹ تھی ہی زخمی ہوا جگر سب ہر دم بھری رہے ہے لوہو سے چشم تر سب حیف اس سے حال میرا…
درونے کو کوئی آہوں سے یوں کب تک ہوا دیوے
درونے کو کوئی آہوں سے یوں کب تک ہوا دیوے مبادا عشق کی گرمی جگر میرا جلا دیوے کہاں تک یوں پڑے بستر پہ رہیے…
خوں نہ ہوا دل چاہیے جیسا گو اب کام سے جاوے گا میر تقی میر
خوں نہ ہوا دل چاہیے جیسا گو اب کام سے جاوے گا کام اپنے وہ کیا آیا جو کام ہمارے آوے گا آنکھیں لگی رہتی…
فلک نے پیس کر سرمہ بنایا
فلک نے پیس کر سرمہ بنایا نظر میں اس کی میں تو بھی نہ آیا زمانے میں مرے شور جنوں نے قیامت کا سا ہنگامہ…
اب اس کے غم سے جو کوئی چاہے سو کھائے داغ
اب اس کے غم سے جو کوئی چاہے سو کھائے داغ باقی نہیں ہے چھاتی میں اپنی تو جائے داغ چشم و دل و دماغ…
حیرت طلب کو کام نہیں ہے کسو کے ساتھ
حیرت طلب کو کام نہیں ہے کسو کے ساتھ جان عزیز ابھی ہے مری آبرو کے ساتھ یک رنگ آشنا ہیں خرابات ہی کے لوگ…
حال دل میرؔ کا اے اہل وفا مت پوچھو
حال دل میرؔ کا اے اہل وفا مت پوچھو اس ستم کشتہ پہ جو گذری جفا مت پوچھو صبح سے اور بھی پاتا ہوں اسے…
چمکی ہے جب سے برق سحر گلستاں کی اور
چمکی ہے جب سے برق سحر گلستاں کی اور جی لگ رہا ہے خار و خس آشیاں کی اور وہ کیا یہ دل لگے ہے…
چپکا چپکا پھرا نہ کر تو غم سے
چپکا چپکا پھرا نہ کر تو غم سے کیا حرف و سخن عیب ہے کچھ محرم سے آخر کو رکے رہتے جنوں ہوتا ہے اے…
جیسا مزاج آگے تھا میرا سو کب ہے اب
جیسا مزاج آگے تھا میرا سو کب ہے اب ہر روز دل کو سوز ہے ہر شب تعب ہے اب سدھ کچھ سنبھالتے ہی وہ…
جوشش اشک سے ہوں آٹھ پہر پانی میں
جوشش اشک سے ہوں آٹھ پہر پانی میں گرچہ ہوتے ہیں بہت خوف و خطر پانی میں ضبط گریہ نے جلایا ہے درونہ سارا دل…
جو دیکھو مرے شعر تر کی طرف
جو دیکھو مرے شعر تر کی طرف تو مائل نہ ہو پھر گہر کی طرف کوئی داد دل آہ کس سے کرے ہر اک ہے…