فرحت عباس شاه
محرومی اور بے بسی کی گھٹن
محرومی اور بے بسی کی گھٹن کمرے میں دو چار، دس بیس بتیاں، اور ہوتیں وہ بھی جلا لیتا کھڑکیاں اور زیادہ ہوتیں وہ بھی…
محبت گرنے نہیں دیتی
محبت گرنے نہیں دیتی اُس نے، اُسی صدیوں پرانی محبت والے لڑکے نے اُسی دیواروں سے روٹھنے منانے کی باتیں کرنے والے کنارا کنارا ٹوٹتے…
محبت کا ایک یہ بھی فلسفہ
محبت کا ایک یہ بھی فلسفہ وہ دیکھو۔۔۔ وہ جو۔۔۔ وہ ہے وہ بھی تو ہے وہ دیکھو۔۔۔۔ وہ جو میں ہوں وہ بھی تو…
مجھے منزل بتائی ہوئی
مجھے منزل بتائی ہوئی محبت جتنی طاقتور ہے اس سے زیادہ کمزور بھی ہے جس سے پیار ہو اس کا دکھ برداشت کرنے کی طاقت…
مجھے تجھ سے کوئی گلہ نہیں
مجھے تجھ سے کوئی گلہ نہیں شبِ انتظار کا خوف ہے اگراپنی اپنی نطر ہے تو مجھے اپنے درد پہ زعم ہے ترے ارد گرد…
مجھ کو مرے سرابوں میں ہی آن ملو
مجھ کو مرے سرابوں میں ہی آن ملو اور نہیں تو خوابوں میں ہی آن ملو تا کہ کم کم تم کو میں محسوس کروں…
ماہ و سال
ماہ و سال سال ہم سے روز کرتے ہیں مذاق عمر کی خاکِ رواں کو دیکھ کر ہنستے ہیں کتنی دیر تک عمر ہم سے…
لہریں چھوڑ کنارا بن
لہریں چھوڑ کنارا بن اپنا آپ سہارا بن لڑ کر چھین لے اپنا حق ایسے نہ درد کا مارا بن چشم خفا سے باہر آ…
لباس
لباس آج تو جیسے تیسے وقت گزر گیا کل پھر رات اور زیادہ سیاہ ہو جائے گی دن اور زیادہ مشکل ہو جائے گا شام…
گیت میں قید
گیت میں قید محبت کا ایک اداس اور ویران گیت ایک اداس اور ویران شہر کی طرح میرے چاروں طرف پھیلا ہوا ہے لفظ اور…
گھر جانے سے اتنے خوفزدہ ہیں لوگ
گھر جانے سے اتنے خوفزدہ ہیں لوگ رات گئے تک بازاروں میں پھرتے ہیں فرحت عباس شاہ (کتاب – شام کے بعد – اول)
گلاب
گلاب () مہکے باغوں کی جھیلوں میں رخساروں کے عکس گلاب باد صبا کی لہریں آئیں کرنے لگے ہیں رقص گلاب پھولو! میرا دل نا…
گرچہ ہر گام یہاں لوگوں کے میلے ہیں بہت
گرچہ ہر گام یہاں لوگوں کے میلے ہیں بہت ہم اکیلے ہیں بہت، ہم اکیلے ہیں بہت ایک بس تو ہی نہیں شہر میں اشکوں…
کیسے ممکن ہے اداؤں کا لحاظ
کیسے ممکن ہے اداؤں کا لحاظ عشق میں کیونکر اناؤں کا لحاظ دے کے جاتی ہیں مجھے خوشبو تری کرنا پڑتا ہے ہواؤں کا لحاظ…
رونق
رونق بے سبب آنکھ سے بہے آنسو ہم نے جانا تمہارا غم لے کر کوئی آبادیوں سے آیا ہے فرحت عباس شاہ (کتاب – ملو…
کیا پتہ
کیا پتہ خود سے کہو کہ کبھی کبھی اکیلے میں تھوڑا ہنس بول لیا کرے کیا پتہ اپنے آپ سے بچھڑنے کی گھڑی کب سر…
کوئی دم بولوں گا دن ہے شب نہیں
کوئی دم بولوں گا دن ہے شب نہیں ہاتھ پتھر ہو چکے ہیں لب نہیں مستقل جکڑے ہوئے ہیں جسم و جاں اس طرح کا…
کونسا قیاس تری آس میں تحلیل نہیں
کونسا قیاس تری آس میں تحلیل نہیں کونسی سوچ ترے راز تلک پہنچی ہے کونسے دکھ نے ترا راستہ دکھلایا ہے ہر کوئی راہ سے…
کھینچ لیں نظریں مری پورے بدن سے اپنے
کھینچ لیں نظریں مری پورے بدن سے اپنے میں پریشان ہوا اس کی قد و قامت سے فرحت عباس شاہ (کتاب – مرے ویران کمرے…
کہاں دل قید سے چُھوٹا ہوا ہے
کہاں دل قید سے چُھوٹا ہوا ہے ابھی تک شہر سے رُوٹھا ہوا ہے ہمی کیسے کہیں اس دل کو سچا ہمارے سامنے جُھوٹا ہوا…
کمرے سے صحن تلک، صحن سے در تک محدود
کمرے سے صحن تلک، صحن سے در تک محدود تم سے بچھڑا تو ہوا چھوٹے سے گھر تک محدود چھاؤں سے نکلو تو موسم ہی…
کسی کا کیا پتہ، ہم کیسے ہیں
کسی کا کیا پتہ، ہم کیسے ہیں کسی کو کیا پتہ ہم کیسے ہیں ہم ایسے ہی ہیں جیسے، جلا ہوا وجود جیسے تازہ زخم…
کردار
کردار ہم فرشتے تو نہیں ہیں کہ ترے پیار سے محفوظ رہیں غیر انساں بھی نہیں ہیں کہ فقط جسم میں محصور رہیں ہم کو…
کچھ سنبھلتا ہوں تو تقدیر بدل جاتی ہے
کچھ سنبھلتا ہوں تو تقدیر بدل جاتی ہے خواب سچا ہے پہ تعبیر بدل جاتی ہے پچھلی بنیاد پہ تعمیر بدل جاتی ہے شئے بدلتی…
کبھی یوں
کبھی یوں کریں سنو! کبھی یوں کریں کہ کہیں مل بیٹھ کے کوئی اداس اور سوگوار شام دہرائیں اور بیتنے نہ دیں خود کو بھولی…
کبھی جو سیر کو وہ خوابِ خوش بدن نکلے
کبھی جو سیر کو وہ خوابِ خوش بدن نکلے تو ساتھ گھر سے ہی اس کے کوئی چمن نکلے یہ دیکھتے ہیں کہ تقدیر کس…
کاروبار
کاروبار مجھے پتہ ہے تم میری بہت ساری سوچیں اور خواب بہت پہلے ہی سے کام میں لے آتے ہو تا کہ انہیں اپنے سرکل…
قدم قدم پہ نئے سے نئے حصار میں تھا
قدم قدم پہ نئے سے نئے حصار میں تھا دلِ امیر محبت کے کاروبار میں تھا نگاہ لمحہ بہ لمحہ لرز لرز جاتی عجیب رعب…
فطرت
فطرت وصل منکر عالم تسکین کا ہجر انکاری قرار و صبر سے اے سکوں اور اے سراب اندر سراب اے ثواب رائیگاں اے بے نشاں…
غیرت و دل کے خریدار سے مانوس نہیں
غیرت و دل کے خریدار سے مانوس نہیں ہم جو اس پار ہیں اُس پار سے مانوس نہیں گھٹ کے مر جائیں گے دو چار…
عموماََ ہی یہاں
عموماََ ہی یہاں ہم ایک دوسرے کو کبھی جب پھول، خوشبو اور گیتوں کی کوئی کیسٹ یا ایسا ہی محبت کا کوئی تحفہ تمنائیں، دعائیں…
عشق میں جیت کوئی جیت نہیں
عشق میں جیت کوئی جیت نہیں عشق میں مات کوئی مات نہیں زندگی چاہیے محبت میں یہ گھڑی دو گھڑی کی بات نہیں جتنے روشن…
عزاداری
عزاداری یہ صحنِ دل میں بھلا کس یقیں کی لاش آئی یہ کن دعاؤں کے نیزے بھلا ترازو ہیں اُداس سی کسی معصومیت کے سینے…
ظہورِ حق کے علاوہ بھی ہم نے دیکھا ہے
ظہورِ حق کے علاوہ بھی ہم نے دیکھا ہے خیال خام میں پنہاں کبھی کبھی تم تھے نصیب میں نہ رہا والہانہ پن تو کیا…
صورتِ حال پر بھروسہ ہے
صورتِ حال پر بھروسہ ہے درد کی چال پر بھروسہ ہے آسمانوں سے ہم نہیں ڈرتے ہاں پرو بال پر بھروسہ ہے درد کی کاٹ…
صبر کی منزل کہاں ہے دل کی شامت ہے کہاں
صبر کی منزل کہاں ہے دل کی شامت ہے کہاں ہے کہاں باب شرف کوئے ملامت ہے کہاں جب کہیں آغاز ہی میں انتہا ہو…
شہر ہوتا تو نیا روز تماشا ہوتا
شہر ہوتا تو نیا روز تماشا ہوتا آ گیا راس ہمیں دل کا بیاباں ہونا فرحت عباس شاہ (کتاب – سوال درد کا ہے)
شہرِ برباد میں گزارتے ہیں
شہرِ برباد میں گزارتے ہیں شب تری یاد میں گزارتے ہیں فرحت عباس شاہ
شب بھر بیٹھ کے ایک عجیب کتاب سناتے رہتے ہیں
شب بھر بیٹھ کے ایک عجیب کتاب سناتے رہتے ہیں عورت سنتی ہے اور مرد سراب سناتے رہتے ہیں موسم تو ہاتھوں میں کاغذ پیلے…
شام سمے گھبرائے جیارا
شام سمے گھبرائے جیارا شام سمے گھبرائے جیارا اک پل چین نہ پائے جیارا یاد پیا کی رو رو پکارے ہجر لہو میں درد اتارے…
سوگواری بھی عجب شے ہے
سوگواری بھی عجب شے ہے سوگواری بھی عجب شے ہے کہ دل چھوٹا کیے رکھتی ہے دیوانوں کا تم نے دروازہ کبھی کھولا ہے ویرانوں…
سوائے خود محبت کے
سوائے خود محبت کے محبت کی کوئی منزل نہیں ہوتی فرحت عباس شاہ (کتاب – ملو ہم سے)
سمندر کی تہوں میں راستہ زندہ نہیں رہتا
سمندر کی تہوں میں راستہ زندہ نہیں رہتا زیادہ آنسوؤں میں سانحہ زندہ نہیں رہتا تری بے اعتنائی میں اگرچہ اِعتنائی ہے مگر یوں تو تعلق…
سفر ہی شرط ہے تو پھر یہ سن لو
سفر ہی شرط ہے تو پھر یہ سن لو ہمیں واپس پلٹنے کو نہ کہنا فرحت عباس شاہ (کتاب – جدائی راستہ روکے کھڑی ہے)
سُست رو جیون اجل کی تیزیاں
سُست رو جیون اجل کی تیزیاں کیا قیامت ہیں قیامت خیزیاں جنگلوں میں ہے بہت امن و سکوں ہو رہی ہیں شہر میں خوں ریزیاں…
سب کا سب ہے دلِ تباہ میں گم
سب کا سب ہے دلِ تباہ میں گم ہر گواہی ہوئی گواہ میں گم سانس کا نم بتا رہا ہے مجھے کتنے آنسو ہوئے ہیں…
سانوں پئے گئی عشق دی جھَسّ
سانوں پئے گئی عشق دی جھَسّ اسیں آپ وَنجا لئی چَسّ کُجھ جگ نوں واری دے نہ آپ اپنے تے ہَسّ کدیں آپ وی پَکھُّو…
ساری امیدیں ترس جاتی ہیں
ساری امیدیں ترس جاتی ہیں بارشیں دل پہ برس جاتی ہیں فرحت عباس شاہ
زندگی ادھاری ہے
زندگی ادھاری ہے اپنی تو تیاری ہے رک بھی تو نہیں سکتے راستوں سے یاری ہے دل پہ تیری دوری کا وار بھی تو کاری…