فرحت عباس شاه
ہم ہیں کھیت، پہاڑ اور جھرنے ہم سر سبز نظارے
ہم ہیں کھیت، پہاڑ اور جھرنے ہم سر سبز نظارے آنگن آنگن چاند ہیں ہم سب آنگن آنگن تارے سندھ بلوچستان ہمارا سرحد اور پنجاب…
ہم نے اپنی ہمت کے تختے پر جیون پار کیے
ہم نے اپنی ہمت کے تختے پر جیون پار کیے ورنہ کیسی کیسی کشتی ڈوب گئی ہے دریا میں فرحت عباس شاہ (کتاب – سوال…
ہم سفر بند ہیں زمانے میں
ہم سفر بند ہیں زمانے میں ورنہ کوئی تو در کھلا ہوتا فرحت عباس شاہ (کتاب – سوال درد کا ہے)
ہم جو بے چین بہت ہیں یارو
ہم جو بے چین بہت ہیں یارو ہم کہاں جائیں گے اس دنیا میں فرحت عباس شاہ (کتاب – شام کے بعد – دوم)
ہم بہت گہری اداسی کے سوا
ہم بہت گہری اداسی کے سوا جس سے بھی ملتے ہیں کم ملتے ہیں فرحت عباس شاہ
ہزار رستہ بدل کے دیکھا
ہزار رستہ بدل کے دیکھا ہمیں پتہ ہے کہ ہم نے کتنا سنبھل کے دیکھا نئی اور انجانی رہگزاروں پہ چل کے دیکھا ہزار رستہ…
ہر ایک رات مری ہو گئی وصال کی رات
ہر ایک رات مری ہو گئی وصال کی رات تنی ہوئی ہے جبیں پر ترے خیال کی رات ہے اُس کے چہرے پہ پہلی کرن…
ہجر کو ڈھونڈ کے لانا ہے ابھی
ہجر کو ڈھونڈ کے لانا ہے ابھی اور اک حشر اٹھانا ہے ابھی یہ وہی دل ہے تمہارے والا یہ وہی شہر پرانا ہے ابھی…
نیو کیمپس
نیو کیمپس نہر کے کنارے پر شام سے ذرا پہلے تتلیاں بکھرتی ہیں خوشبوؤں کی لہروں میں ڈوبتی اُبھرتی ہیں آتے جاتے پھولوں کو چھیڑ…
نہ جانے کتنا جیون گھٹ گیا ہے
نہ جانے کتنا جیون گھٹ گیا ہے چلو کچھ راستہ تو کٹ گیا ہے تمہارے معاملے میں خود مرا دل مرے مدّ مقابل ڈٹ گیا…
نزع
نزع خوف برف سے زیادہ یخ بستہ ہوتا ہے محبت آگ سے زیادہ گرم میرا سینہ گرم ہے میرے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہیں مجھ سے…
میں وطن ہوں اور مری معصومیت
میں وطن ہوں اور مری معصومیت بے سر و سامان و در بے خدو خال میں کوئی بچہ مری آنکھوں میں ریت ماں مری مجھ…
میں نے دیکھا دیوانوں کو شام کے بعد
میں نے دیکھا دیوانوں کو شام کے بعد ڈھونڈ رہے تھے ویرانوں کو شام کے بعد تاریکی پھر سارے عیب چھپا لے گی لے آنا…
میں ڈرا نہیں
میں ڈرا نہیں میں ڈرا نہیں میں ڈرا نہیں کسی کھال میں کسی اور کھا ل کو دیکھ کر بھی ڈرا نہیں کسی جال میں…
میں تھا بے چین وہ برہم سمجھا
میں تھا بے چین وہ برہم سمجھا اس قدر اس نے مجھے کم سمجھا شہر والوں نے نہ جانے کیوں کر میری خاموشی کو ماتم…
میں بہت دور ہی سہی تجھ سے
میں بہت دور ہی سہی تجھ سے تو مرے آس پاس رہتا ہے کوئی بھی شور ادھر نہیں رہتا وہ مرے آس پاس رہتا ہے…
میرے مولا کا کرم ہے یارو
میرے مولا کا کرم ہے یارو میری بنیاد میں غم ہے یارو فرحت عباس شاہ
میرا اندوہ تھک گیا تو کیا
میرا اندوہ تھک گیا تو کیا ہجر کا پھل بھی پک گیا تو کیا منزلوں کو جھٹک گیا تو کیا دل ہی تھا نا، بھٹک…
موت گر اک ذرا غنی ہوتی
موت گر اک ذرا غنی ہوتی عمر بھر یوں نہ جاں کَنی ہوتی پھر تجھے رات کا پتہ چلتا گر تِری درد سے ٹھَنی ہوتی…
منتشر لوگ ہیں جھونکوں سے بھی ڈر جاتے ہیں
منتشر لوگ ہیں جھونکوں سے بھی ڈر جاتے ہیں اتنے ہم ہوتے نہیں جتنے بکھر جاتے ہیں فرحت عباس شاہ (کتاب – جم گیا صبر…
مفلسی میں وہ دن بھی آئے ہیں
مفلسی میں وہ دن بھی آئے ہیں ہم نے اپنا ملال بیچ دیا فرحت عباس شاہ
مشکل وقت جب سمند
مشکل وقت جب سمند چنگھاڑتے ہوئے اور ہوائیں کرلاتی ہوئی ہماری سمت بڑھتی ہیں بارشیں نوکیلی اور آندھیاں منہ زور ہو کر ہم پہ حملہ…
مرے من میں آ
مرے من میں آ کبھی آ خیالوں کے سلسلوں سے نکل کے حسنِ وجود میں کبھی کواب چھوٹ کے جسم و جاں کے چلن میں…
مری جاں تم سے اپنا آپ پیارا کون کرتا ہے
مری جاں تم سے اپنا آپ پیارا کون کرتا ہے مرض دینے لگے تسکیں تو چارا کون کرتا ہے کئی گمنام خوشیاں پھوٹتی ہیں رات…
مرا دل بگولہ بنا ہوا
مرا دل بگولہ بنا ہوا مرا دل بگولہ بنا ہوا اڑا دشت دشت میں گھومتا کبھی بھاگتا، کبھی جھومتا کہیں کاغذوں کی قطار اُڑائی وَرَق…
محسوسات
محسوسات حادثات آؤ آنکھیں تلاش کریں اپنے اپنے چہرے اور پیشانیاں ٹٹولیں ہاتھ لگا لگا کر محسوس کریں اگر کر سکیں تو ورنہ۔۔۔ ورنہ اچھا…
محبت کی کہانی
محبت کی کہانی میری محبت کی کہانی انگلیوں سے ٹپکتے ہوئے لہو کی کہانی ہے جو آنکھوں کے سامنے قطرہ قطرہ کر کے ٹپکتا ہے…
محبت روپ بدلا
محبت روپ بدلا دوسرا چراغ جلا میرے اندر دوسرا چراغ جلا اور محبت نے روپ بدلا خیال نے اپنی تمام نزاکت جھاڑی سپنوں نے لطافت…
مجھے موت سے نہ ڈرایا کرو
مجھے موت سے نہ ڈرایا کرو میں تو محبت سے ڈرتا ہوں محبت موت سے نہیں ڈرتی محبت کسی بھی شے سے نہیں ڈرتی محبت…
مجھے ٹھہرے پانی سے خوف آتا ہے موت سا
مجھے ٹھہرے پانی سے خوف آتا ہے موت سا یہ شبیں یہ پھیلی ہوئی شبیں مرے آس پاس سمندروں کا گمان ہے مجھے ٹھہرے پانی…
مجھ کو معلوم ہے کہ کوئی بھی
مجھ کو معلوم ہے کہ کوئی بھی میرے Levelکا بےقرار نہیں فرحت عباس شاہ (کتاب – شام کے بعد – دوم)
ماہی ماہی کُوک دِلا
ماہی ماہی کُوک دِلا ماہی ماہی کُوک دِلا بس ماہی ماہی کُوک جنگل، شہر، سمندر، صحرا، ہر جا ہوئی اداس وحشت اندر غضب مچاوے چین…
لوٹ پڑتی رہی کھلیانوں میں
لوٹ پڑتی رہی کھلیانوں میں رزق بٹتا رہا سلطانوں میں آس بھی کیسی خلش ہے یارو گونجتی رہتی ہے شریانوں میں تم ہمیں ڈھونڈنے نکلو…
لڑنے بھڑنے کے بہانے کوئی
لڑنے بھڑنے کے بہانے کوئی کیوں نہیں آتا زمانے کوئی اب مجھے ضبط ہے خود پر یارو اب مرا حال نہ جانے کوئی ہے لگاتار…
گیت
گیت مہندی لگانے کوئی آیا سکھی ری پریت نبھانے کوئی آیا سکھی ری مہندی کا رنگ میرے آنسوؤں کا بھا گیا پلکوں کی جھالروں میں…
گھر سے گھر تک لوٹ آنے میں
گھر سے گھر تک لوٹ آنے میں یوں لگتا ہے تیری خاطر گھر سے گھر تک لوٹ آنے میں جیون بیت گیا سب کچھ شاید…
گلہ
گلہ ٹھیک ہے تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے لیکن کیا ہمیشہ تاریخ ہی اپنے آپ کو دہراتی رہے گی؟ اور کیا ہم ایسے ہی…
گرداب
گرداب دل کا آئینہ سرِ نوک خرابات جہاں اک طرف رمزو کنایہ اک طرف سب کچھ عیاں پل بہ پل مخدوش ہوتے جا رہے ہیں…
کیوں شہرِ غمِ ہجر بیابان پڑا ہے
کیوں شہرِ غمِ ہجر بیابان پڑا ہے دل عمر سے سینے میں پریشان پڑا ہے اک رستہ ہے آنکھوں میں بہت دیر سے خالی اک…
روزنِ تمنا سے
روزنِ تمنا سے آج مجھے ایک شخص نے راستہ بتایا ہے ایک نے غلط وقت پر سڑک پار کرنے سے روکا ہے بھرے بازار میں…
کیا بتلائیں کیسے کیسے جیون سہنا پڑتا ہے
کیا بتلائیں کیسے کیسے جیون سہنا پڑتا ہے اک اک شے سے ڈر لگتا ہے پھر بھی رہنا پڑتا ہے کاغذ بن کر اڑنا پڑتا…
کوئی ربط ہے کسی درد اور مرے درمیاں
کوئی ربط ہے کسی درد اور مرے درمیاں جو مجھے گھسیٹتا پھر رہا ہے زمین پر میں تو زندگی کی ریاضتوں کا امین ہوں یہ…
کونسی دھول ہے یہ جس میں اٹا ہے جیون
کونسی دھول ہے یہ جس میں اٹا ہے جیون کتنی ویرانی ہے گلیوں میں مری۔۔۔ کتنی بیابانی ہے شہر محدود ہے خاموشی تک لوگ محصور…
کہیں جذبوں کی یورش ہے
کہیں جذبوں کی یورش ہے محبت میں نہ جانے فاصلوں کی ریت کیسی ہے کہیں الفاظ کے انبار ہیں پر لکھ نہیں سکتے کہیں جذبوں…
کہاں ہو تم
کہاں ہو تم کہاں ہو تم تجھے ملنے، تجھے پانے کی خواہش میں نہ جانے ہم نے اپنی زندگی کے کیسے کیسے دن بتائے ہیں…
کمالِ ہجر بھی دیکھا ہے وصل بھی دیکھا
کمالِ ہجر بھی دیکھا ہے وصل بھی دیکھا مجھے لگا ہے کوئی تیسرا بھی عالم ہے فرحت عباس شاہ (کتاب – محبت گمشدہ میری)
کسی کائنات کا گیند ہے
کسی کائنات کا گیند ہے کسی کائنات کا گیند ہے مرے سر پہ گھوم رہا ہے خبطِ خیال سے ہے پڑی ہوئی اسی کائنات کے…
کربلا کربلا پکارتے ہیں
کربلا کربلا پکارتے ہیں آؤ زخموں سے دل گزارتے ہیں دوستو ماتم حسینؑ سے ہم اپنے سینوں میں غم اتارتے ہیں ہم تو اس بے…
کچھ تو بولو
کچھ تو بولو بولو مولا! کیا ہم ہر اک آتی جاتی سانس کی دھار سے پل پل کٹتی گردن دیکھ کے نام نہاد سکھوں کے…
کتنے صحرا کتنے طوق اور کتنی مہریں
کتنے صحرا کتنے طوق اور کتنی مہریں رونے والی آنکھ تمہاری آنکھوں میں کتنے صحرا باری باری پھیلیں گے چیخنے والے ہونٹ تمہارے ہونٹوں پر…