ہم جب اپنے سارے سپنے بانٹ چکے

ہم جب اپنے سارے سپنے بانٹ چکے آنکھ کنارے اک خاموشی اتری تھی فرحت عباس شاہ (کتاب – ہم جیسے آوارہ دل)

ادامه مطلب

ہم بھی کیا کیا کرتے تھے نادانی میں

ہم بھی کیا کیا کرتے تھے نادانی میں شہر بسایا کرتے تھے ویرانی میں رستے جیسے بھوک مٹانے نکلے ہوں بینائی تک چاٹ گئے سنسانی…

ادامه مطلب

ہزار دکھ مجھے دینا مگر خیال رہے

ہزار دکھ مجھے دینا مگر خیال رہے مرے خدا مرا ہر حوصلہ بحال رہے وہ جانتا ہی نہیں غم ہے کیا تسلی کیا وہ غم…

ادامه مطلب

ہر ایک اپنی اذیت کےشور میں گم ہے

ہر ایک اپنی اذیت کےشور میں گم ہے جسے خبر کوئی چیخا کوئی کراہا کیوں جو خود ہماری ستائش کے بل پہ زندہ ہے اسے…

ادامه مطلب

ہجر بے موت کو تسلیم کیے لیتے ہیں

ہجر بے موت کو تسلیم کیے لیتے ہیں ہم خیالات کی تجسیم کیے لیتے ہیں بات تو سجدہءِ جذباتِ جنوں خیز کی ہے یار کے…

ادامه مطلب

نیندوں نے ستایا تو سفر چھوڑ گیا ہے

نیندوں نے ستایا تو سفر چھوڑ گیا ہے اک خواب کی دہلیز پہ سر چھوڑ گیا ہے ٹھہرا ہوا اک دھوپ نگر چھوڑ گیا ہے…

ادامه مطلب

نہ کہا تھا کہ کبھی دور نہ جانا مجھ سے

نہ کہا تھا کہ کبھی دور نہ جانا مجھ سے اب تری یاد بھی چھینے گا زمانہ مجھ سے فرحت عباس شاہ

ادامه مطلب

ناگہاں آن گری دل کو بجھانے کی ہوا

ناگہاں آن گری دل کو بجھانے کی ہوا اور پھر ختم ہوئی جان بچانے کی ہوا تم بھی اب ملتے ہو مغرور مسیحا کی طرح…

ادامه مطلب

میں جس کی راہ پہ ہوں ہر جگہ پہ ہے موجود

میں جس کی راہ پہ ہوں ہر جگہ پہ ہے موجود میں جس سفر پہ ہوں خود باعثِ سفر ہے مجھے فرحت عباس شاہ (کتاب –…

ادامه مطلب

میں نہیں انتظار سے خائف

میں نہیں انتظار سے خائف ہوں دل سوگوار سے خائف جانے ہے غم کا آسماں فرحت کن پرندوں کی ڈار سے خائف تو مری جیت…

ادامه مطلب

میں سناتا ہوں کہانی موت کی

میں سناتا ہوں کہانی موت کی میں نے دیکھی ہے جوانی موت کی سیدھا ہو جاتا ہے دل کے آر پار ہجر بھی تو ہے…

ادامه مطلب

میں جان لونگا کہ آنسو مرے قبول ہوئے

میں جان لونگا کہ آنسو مرے قبول ہوئے مِرا لہو جو مرے آنسوؤں میں آجائے فرحت عباس شاہ (کتاب – جدائی راستہ روکے کھڑی ہے)

ادامه مطلب

میں بہت اکیلا کھڑا رہا ترا منتظر

میں بہت اکیلا کھڑا رہا ترا منتظر سبھی چھوڑ چھاڑ کے چل دیے ترا راستہ مجھے آرزوؤں پہ شک گزرتا ہے رات دن کسی لمحہ…

ادامه مطلب

میری روح کی شریانوں میں جب تو پھیل گئی

میری روح کی شریانوں میں جب تو پھیل گئی آنکھ جھپکتے بستی بھر میں خوشبو پھیل گئی فرحت عباس شاہ (کتاب – تیرے کچھ خواب)

ادامه مطلب

موم کا چہرہ

موم کا چہرہ موم کا چہرہ پل پل رنگ بدلتی آنکھیں جیون سہا نہ جائے گورے کالے نیلے پیلے دنیا کے سو موسم باہر سورج…

ادامه مطلب

موت کا وقت گزر جائے گا

موت کا وقت گزر جائے گا یہ بھی سیلاب اتر جائے گا آ گیا ہے جو کسی سکھ کا خیال مجھ کو چھو لے گا…

ادامه مطلب

من مندر کا شاہ نرالا

من مندر کا شاہ نرالا تن لاگے من بھائے عشق نگر کی تنہائی میں روئے اور رلائے ہجر عبادت بن جاتا ہے کونج کونج کرلائے…

ادامه مطلب

معرفت

معرفت سات سمندر گہرائی میں اتر کے دیکھا پھر بھی لاگے ایک سمندر اور ابھی ہے ایک سمندر اور فرحت عباس شاہ (کتاب – من…

ادامه مطلب

مستقل مات سے نکلتا ہوں

مستقل مات سے نکلتا ہوں میں تری ذات سے نکلتا ہوں ڈھونڈتا ہوں کوئی نیا رستہ درد کی رات سے نکلتا ہوں میں ستارہ سا…

ادامه مطلب

مری زندگی بھی ہے گھومتی

مری زندگی بھی ہے گھومتی ترے گرد باد کے سحر میں مجھے سانس لینے دے کچھ ذرا شبِ غم کے سینے پہ ہاتھ رکھ مری…

ادامه مطلب

مرے چار سو

مرے چار سو مرے چار سو تری جستجو تری جستجو کے سراب پھیلے ہیں چار سُو تری آرزو کے نصاب پھیلے ہیں چار سُو مرے…

ادامه مطلب

مرا خیال تری یاد سے بیاہا ہے

مرا خیال تری یاد سے بیاہا ہے خدا یہ جوڑی سلامت رکھے قیامت تک فرحت عباس شاہ

ادامه مطلب

محرومی اور بے بسی کی گھٹن

محرومی اور بے بسی کی گھٹن کمرے میں دو چار، دس بیس بتیاں، اور ہوتیں وہ بھی جلا لیتا کھڑکیاں اور زیادہ ہوتیں وہ بھی…

ادامه مطلب

محبت گرنے نہیں دیتی

محبت گرنے نہیں دیتی اُس نے، اُسی صدیوں پرانی محبت والے لڑکے نے اُسی دیواروں سے روٹھنے منانے کی باتیں کرنے والے کنارا کنارا ٹوٹتے…

ادامه مطلب

محبت کا ایک یہ بھی فلسفہ

محبت کا ایک یہ بھی فلسفہ وہ دیکھو۔۔۔ وہ جو۔۔۔ وہ ہے وہ بھی تو ہے وہ دیکھو۔۔۔۔ وہ جو میں ہوں وہ بھی تو…

ادامه مطلب

مجھے منزل بتائی ہوئی

مجھے منزل بتائی ہوئی محبت جتنی طاقتور ہے اس سے زیادہ کمزور بھی ہے جس سے پیار ہو اس کا دکھ برداشت کرنے کی طاقت…

ادامه مطلب

مجھے تجھ سے کوئی گلہ نہیں

مجھے تجھ سے کوئی گلہ نہیں شبِ انتظار کا خوف ہے اگراپنی اپنی نطر ہے تو مجھے اپنے درد پہ زعم ہے ترے ارد گرد…

ادامه مطلب

مجھ کو مرے سرابوں میں ہی آن ملو

مجھ کو مرے سرابوں میں ہی آن ملو اور نہیں تو خوابوں میں ہی آن ملو تا کہ کم کم تم کو میں محسوس کروں…

ادامه مطلب

ماہ و سال

ماہ و سال سال ہم سے روز کرتے ہیں مذاق عمر کی خاکِ رواں کو دیکھ کر ہنستے ہیں کتنی دیر تک عمر ہم سے…

ادامه مطلب

لہریں چھوڑ کنارا بن

لہریں چھوڑ کنارا بن اپنا آپ سہارا بن لڑ کر چھین لے اپنا حق ایسے نہ درد کا مارا بن چشم خفا سے باہر آ…

ادامه مطلب

لباس

لباس آج تو جیسے تیسے وقت گزر گیا کل پھر رات اور زیادہ سیاہ ہو جائے گی دن اور زیادہ مشکل ہو جائے گا شام…

ادامه مطلب

گیت میں قید

گیت میں قید محبت کا ایک اداس اور ویران گیت ایک اداس اور ویران شہر کی طرح میرے چاروں طرف پھیلا ہوا ہے لفظ اور…

ادامه مطلب

گھر جانے سے اتنے خوفزدہ ہیں لوگ

گھر جانے سے اتنے خوفزدہ ہیں لوگ رات گئے تک بازاروں میں پھرتے ہیں فرحت عباس شاہ (کتاب – شام کے بعد – اول)

ادامه مطلب

گلاب

گلاب () مہکے باغوں کی جھیلوں میں رخساروں کے عکس گلاب باد صبا کی لہریں آئیں کرنے لگے ہیں رقص گلاب پھولو! میرا دل نا…

ادامه مطلب

گرچہ ہر گام یہاں لوگوں کے میلے ہیں بہت

گرچہ ہر گام یہاں لوگوں کے میلے ہیں بہت ہم اکیلے ہیں بہت، ہم اکیلے ہیں بہت ایک بس تو ہی نہیں شہر میں اشکوں…

ادامه مطلب

کیسے ممکن ہے اداؤں کا لحاظ

کیسے ممکن ہے اداؤں کا لحاظ عشق میں کیونکر اناؤں کا لحاظ دے کے جاتی ہیں مجھے خوشبو تری کرنا پڑتا ہے ہواؤں کا لحاظ…

ادامه مطلب

رونق

رونق بے سبب آنکھ سے بہے آنسو ہم نے جانا تمہارا غم لے کر کوئی آبادیوں سے آیا ہے فرحت عباس شاہ (کتاب – ملو…

ادامه مطلب

کیا پتہ

کیا پتہ خود سے کہو کہ کبھی کبھی اکیلے میں تھوڑا ہنس بول لیا کرے کیا پتہ اپنے آپ سے بچھڑنے کی گھڑی کب سر…

ادامه مطلب

کوئی دم بولوں گا دن ہے شب نہیں

کوئی دم بولوں گا دن ہے شب نہیں ہاتھ پتھر ہو چکے ہیں لب نہیں مستقل جکڑے ہوئے ہیں جسم و جاں اس طرح کا…

ادامه مطلب

کونسا قیاس تری آس میں تحلیل نہیں

کونسا قیاس تری آس میں تحلیل نہیں کونسی سوچ ترے راز تلک پہنچی ہے کونسے دکھ نے ترا راستہ دکھلایا ہے ہر کوئی راہ سے…

ادامه مطلب

کھینچ لیں نظریں مری پورے بدن سے اپنے

کھینچ لیں نظریں مری پورے بدن سے اپنے میں پریشان ہوا اس کی قد و قامت سے فرحت عباس شاہ (کتاب – مرے ویران کمرے…

ادامه مطلب

کہاں دل قید سے چُھوٹا ہوا ہے

کہاں دل قید سے چُھوٹا ہوا ہے ابھی تک شہر سے رُوٹھا ہوا ہے ہمی کیسے کہیں اس دل کو سچا ہمارے سامنے جُھوٹا ہوا…

ادامه مطلب

کمرے سے صحن تلک، صحن سے در تک محدود

کمرے سے صحن تلک، صحن سے در تک محدود تم سے بچھڑا تو ہوا چھوٹے سے گھر تک محدود چھاؤں سے نکلو تو موسم ہی…

ادامه مطلب

کسی کا کیا پتہ، ہم کیسے ہیں

کسی کا کیا پتہ، ہم کیسے ہیں کسی کو کیا پتہ ہم کیسے ہیں ہم ایسے ہی ہیں جیسے، جلا ہوا وجود جیسے تازہ زخم…

ادامه مطلب

کردار

کردار ہم فرشتے تو نہیں ہیں کہ ترے پیار سے محفوظ رہیں غیر انساں بھی نہیں ہیں کہ فقط جسم میں محصور رہیں ہم کو…

ادامه مطلب

کچھ سنبھلتا ہوں تو تقدیر بدل جاتی ہے

کچھ سنبھلتا ہوں تو تقدیر بدل جاتی ہے خواب سچا ہے پہ تعبیر بدل جاتی ہے پچھلی بنیاد پہ تعمیر بدل جاتی ہے شئے بدلتی…

ادامه مطلب

کبھی یوں

کبھی یوں کریں سنو! کبھی یوں کریں کہ کہیں مل بیٹھ کے کوئی اداس اور سوگوار شام دہرائیں اور بیتنے نہ دیں خود کو بھولی…

ادامه مطلب

کبھی جو سیر کو وہ خوابِ خوش بدن نکلے

کبھی جو سیر کو وہ خوابِ خوش بدن نکلے تو ساتھ گھر سے ہی اس کے کوئی چمن نکلے یہ دیکھتے ہیں کہ تقدیر کس…

ادامه مطلب

کاروبار

کاروبار مجھے پتہ ہے تم میری بہت ساری سوچیں اور خواب بہت پہلے ہی سے کام میں لے آتے ہو تا کہ انہیں اپنے سرکل…

ادامه مطلب

قدم قدم پہ نئے سے نئے حصار میں تھا

قدم قدم پہ نئے سے نئے حصار میں تھا دلِ امیر محبت کے کاروبار میں تھا نگاہ لمحہ بہ لمحہ لرز لرز جاتی عجیب رعب…

ادامه مطلب