فرحت عباس شاه
تڑپ اٹھے جو کبھی دل تو سر دھڑکتا ہے
تڑپ اٹھے جو کبھی دل تو سر دھڑکتا ہے جلے جو خون تو آنکھیں بھی جلنے لگتی ہیں میں چل تو دوں تری یادوں کے…
تری بھول ہے
تری بھول ہے بڑی دور دور تلک فضاؤں میں دھول ہے مرے بد نصیب سنبھل کے آ تری بھول ہے کہ یہ راستے ترے پاؤں…
تجھے ڈھونڈ ڈھونڈ کے تھک گیا
تجھے ڈھونڈ ڈھونڈ کے تھک گیا تجھے ڈھونڈ ڈھونڈ کے، ڈھونڈ ڈھونڈ کے تھک گیا ہوں لبِ سڑک کوئی قافلہ ترا رازدار نہیں ملا کبھی…
پیپل
پیپل تم بھی تو کوئی پیل کے درخت ہو اور میرے دل کی دیوار میں اُگ آئے ہو کئی پھٹی دیوار اور وریدیں اور ان…
پہلے تو نسب لائیں مری جد سے زیادہ
پہلے تو نسب لائیں مری جد سے زیادہ جو خود کو سمجھتے ہیں مرے قد سے زیادہ اونچا بھی ہے ، سچا بھی ھے ،…
پُشت پہ بندھے ہاتھ
پُشت پہ بندھے ہاتھ ہم اکڑی ہوئی گردنوں اور تنے ہوئے سینوں والے کبھی اپنی آنکھوں سے ٹپکتی ہوئی رعونت کم نہیں ہونے دیتے ہم…
پرانے زخم
پرانے زخم نئے زخموں کی نسبت پرانے زخم زیادہ قیمتی ہوتے ہیں اگر محبت میں لگے ہوں نوادرات اور آثار قدیمہ کی طرح تم نے…
بیڈ روم
بیڈ روم بلا جواز رفاقت اور بے تعلق قربت در و دیوار میں چنی ہوئی روح تمہارے ہجر کا بدل نہیں ہو سکتی اور بستر…
بے کنار
بے کنار عشق سمندر ساحل کیسا کوئی آر نہ پار چاروں سمت بھنور اٹھلائیں بن بن درد کے مور لہریں اونچا نیچا کھیلیں کشتی بے…
بے سرو ساماں
بے سرو ساماں بربادی آئے تو مزا بھی آئے ہمارے پاس آخری بربادی سے پہلے تک کے لیے کچھ ہے ہی نہیں تو خوف کیسا…
بے چین مزاجی میں عجب کچھ بھی نہیں تھا
بے چین مزاجی میں عجب کچھ بھی نہیں تھا سوچا تو بچھڑنے کا سبب کچھ بھی نہیں تھا اس بخت میں اب لاکھ زمانہ تجھے…
بول سہیلی کس نے دل بے چین کیا
بول سہیلی کس نے دل بے چین کیا ہجر نے اندر دور کہیں پر بین کیا بول سہیلی کس نے پلکیں لرزائی ہیں اک آنسو…
بھٹی
بھٹی جانے کیا کچھ جلتا ہو گا سینے میں اتنا تلخ دھواں تھا آنکھیں خون ہوئیں فرحت عباس شاہ (کتاب – خیال سور ہے ہو…
بنام عشق وغیرہ وکیل کوئی نہیں
بنام عشق وغیرہ وکیل کوئی نہیں عدالتوں میں کھڑے ہیں اپیل کوئی نہیں سبھی کی آنکھوں میں دل ہے، دعا نہیں کوئی سبھی کے ہونٹوں…
بس اک تمہاری ذات پر مرکوز تھی چاہت مری
بس اک تمہاری ذات پر مرکوز تھی چاہت مری تم جو گئے تو ٹوٹ کے بکھری کئی اطراف میں فرحت عباس شاہ
بچھڑے ہوئے لوگوں کی اک اک بات رلا دیتی ہے
بچھڑے ہوئے لوگوں کی اک اک بات رلا دیتی ہے ہم کو تو ہر جانے والی بات رلا دیتی ہے ویسے تو ہم دل کے…
بالڑے بُڈھڑے
بالڑے بُڈھڑے سانوں تھاں نہ لبھّے کوئی وے اَج سانوں تھاں نہ لبھّے کوئی اسیں کالیاں نیل اخباراں پڑھ پڑھ اکھیوں انھّے ہوگئے ساڈے مُڑوی…
بارشوں کی ترنگ کیا کرتے
بارشوں کی ترنگ کیا کرتے بے وفاؤں کے سنگ کیا کرتے اس لیے خود کو کر دیا آزاد بے سہاروں سے جنگ کیا کرتے وہ…
آئے تھے بہت آگ کے دریا سے گزرنے
آئے تھے بہت آگ کے دریا سے گزرنے اس دن سے کئی شہر کنارے پہ ہیں آباد ہم تیرے لیے خون کے دریا سے گزر…
ایک طویل رات
ایک طویل رات اور ایک طویل دکھ اور ایک طویل خاموشی اور ایک طویل ویرانی اور ایک طویل جدائی ایک ہی بات ہے ایک طویل…
ایک جنگل سے دوسرے جنگل تک
ایک جنگل سے دوسرے جنگل تک شہر چھوڑنے سے کیا ہوتا ہے نہ خوف پیچھا چھوڑتے ہیں اور نہ بدنصیبی نہ یادیں، نہ فریادیں اور…
ایسے میں جب چاند ستارے سو جاتے ہیں
ایسے میں جب چاند ستارے سو جاتے ہیں ہم بھی تیری یاد سہارے سو جاتے ہیں اے دل رات بھی بیت چلی ہے نیند بھی…
اے محبت اے مری راہِ حیات
اے محبت اے مری راہِ حیات اے محبت اے مری راہِ حیات کھینچ لو واپس مجھے ان بے حس و پتھر قبیلہ راستوں سے کھینچ…
اے حسنِ گم تمہیں دیکھے ہوئے زمانہ ہوا
اے حسنِ گم تمہیں دیکھے ہوئے زمانہ ہوا کہاں ہو تم تمہیں دیکھے ہوئے زمانہ ہوا فرحت عباس شاہ (کتاب – تیرے کچھ خواب)
آوارگی
آوارگی شب و روز میں نے سوچا تمہیں دل لکھ بھیجوں کبھی سوچا بے چینی تمہیں یاد تو ہوگا میں کتنا ٹھکرایا ہوا ہوں لیکن…
انگلی کوئی کس طرح اٹھاتا کبھی تم پر
انگلی کوئی کس طرح اٹھاتا کبھی تم پر ہم سینہ سپر منتظرِ وقتِ جدل تھے کہنے کو تو اک عالمِ احساس ہے اندر ممکن ہے…
آنکھ کی بھول بھلیوں میں کہیں
آنکھ کی بھول بھلیوں میں کہیں جس قدر رنگ تھے محصور ہوئے فرحت عباس شاہ (کتاب – جدائی راستہ روکے کھڑی ہے)
اندھے کالے سورج کی پیشانی پر
اندھے کالے سورج کی پیشانی پر تیرا ماتھا جا چمکا ویرانی پر فرحت عباس شاہ (کتاب – اک بار کہو تم میرے ہو)
امریکہ مائی فرینڈ
امریکہ مائی فرینڈ امریکہ! میرے دوست تمہیں معلوم ہے زندگی دن بدن بیک وقت آگ اور برف کی طرف بڑھ رہی ہے آگ سے بنے…
اگرچہ لاکھ جتن سے نکال لایا تھا
اگرچہ لاکھ جتن سے نکال لایا تھا میں اپنا آپ تھکن سے نکال لایا تھا اسے خبر تھی کہ کس طرح روح کھینچتے ہیں وہ…
آکسیجن ہو گھر میں کم شاید
آکسیجن ہو گھر میں کم شاید ڈوب جائے ہمارا دَم شاید اس لیے اس کو کچھ بتاتا نہیں آنکھ ہو جائے اس کی نم شاید…
اک دل ہے کہ دیوانہ و غمناک بہت ہے
اک دل ہے کہ دیوانہ و غمناک بہت ہے اور اس پہ زمانہ ہے کہ چالاک بہت ہے اب جانے تجھے دیکھ کے پہچان بھی…
اک ارادہ کیا ترا ہم نے
اک ارادہ کیا ترا ہم نے مر گئے سانپ آستینوں میں فرحت عباس شاہ (کتاب – چاند پر زور نہیں)
اُسے مجھ سے محبت نہیں تھی
اُسے مجھ سے محبت نہیں تھی اُسے مجھ سے محبت نہیں تھی پھر بھی میں نے تسلیم کیا کہ میں اس کا آنے والا وقت…
اسرائیلی اور امریکی صدر
اسرائیلی اور امریکی صدر لوگ کہتے ہیں اسرائیل اور امریکہ کے صدرجینئس ہیں وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں اس کا ثبوت نہیں چھوڑتے لوگ…
اس نے خوش ہو کے جب سہے آنسو
اس نے خوش ہو کے جب سہے آنسو پھر تو ایسے مرے بہے آنسو کیا کوئی لب کہیں گے یوں الفاظ جیسے اس آنکھ نے…
اس کو موسم بھی بدلنے کی ادا آتی ہے
اس کو موسم بھی بدلنے کی ادا آتی ہے زلف لہرائے تو ساون کی گھٹا آتی ہے شہر جاتی ہے تو ڈرتا ہوں کہ ہر…
اس قدر برف پڑی صدموں کی
اس قدر برف پڑی صدموں کی جم گیا صبر مری آنکھوں میں شام ہوتی ہے تو جل اٹھتی ہے ہجر کی قبر مری آنکھوں میں…
اِس پار
اِس پار اُس پار مجھے لگتا ہے تمہیں کھوئے ہوؤں کی تلاش رہتی ہے کھوئے ہوئے جو بہت دور رہتے ہیں جنہیں کبھی واپس نہیں آنا…
آرائش
آرائش یہ جو چاند کا ہالہ ہے رات کے کان میں بالا ہے فرحت عباس شاہ (کتاب – ملو ہم سے)
اُداسی ٹھہر جاتی ہے
اُداسی ٹھہر جاتی ہے اداسی کا اگرچہ اپنا کوئی گھر نہیں ہوتا مگر جب بھی نگاہوں میں گزر گاہوں کا سونا پن کھٹکتا ہے کسی…
آخر کار
آخر کار جلد یا بدیر اس لمحے کو آنا ہی تھا کہ میں تمھارے دل کی پشت پر رکھا ہوا ہاتھ اٹھا لوں فرحت عباس…
آج سال کی آخری رات
آج سال کی آخری رات ہے مجھے یاد ہے پچھلے سال انہی دنوں میں میں نے تمہیں اپنے اندر ساتویں بار قتل کر کے وہیں…
اتنا تو ہوتا نہیں کوئی کھنڈر شام کے بعد
اتنا تو ہوتا نہیں کوئی کھنڈر شام کے بعد جتنا ویران ہوا جاتا ہے گھر شام کے بعد ٹوٹ پڑتی ہے نئی روز خبر شام…
اپنی حالت تجھے نہ بتلائیں
اپنی حالت تجھے نہ بتلائیں اتنا تو اختیار ہے دل پر فرحت عباس شاہ (کتاب – جم گیا صبر مری آنکھوں میں)
اپنا اپنا رُوپ
اپنا اپنا رُوپ یک طرفہ چاہت لاحاصل بھلے دکھائے رُوپ نا چھاؤں نا دھوپ فرحت عباس شاہ (کتاب – من پنچھی بے چین)
ابھی سنبھل ہی رہے تھے کہ جال ڈوب گیا
ابھی سنبھل ہی رہے تھے کہ جال ڈوب گیا کسی کی چشمِ خفا میں سوال ڈوب گیا ہمارے ساتھ ہمیشہ یہی ہوا ہے یہاں کہ…
اب لوٹے ہو
اب لوٹے ہو کمرہ چہرے بھول چکا ہے شیشہ کرچی کرچی ہو کر شریانوں میں بکھر گیا ہے بستر تھک کے سناٹوں میں پھیل گیا…
یوں مرے ساتھ رہا ہے دریا
یوں مرے ساتھ رہا ہے دریا جیسے غمخوار رہا ہے دریا اس نے پوچھی ہے محبت جب بھی ہم نے ہر بار کہا ہے دریا…
یہاں دل اور نظر دونوں نہیں ہیں
یہاں دل اور نظر دونوں نہیں ہیں سفر اور ہمسفر دونوں نہیں ہیں میں ایسے شہر میں رہتا ہوں فرحت جہاں دیوار و در دونوں…