کشتیاں ساحلوں پہ لوٹ آئیں

کشتیاں ساحلوں پہ لوٹ آئیں اس طرف دور تک سمندر تھا کیا کریں ہم تمہارے آوارہ بند گلیاں اگر نصیب میں ہوں طائران قفس نصیب…

ادامه مطلب

کسی بارے نہیں ہوا معلوم

کسی بارے نہیں ہوا معلوم اب کہاں ہے کوئی خدا معلوم زندگی مخمصہ ہے جینے کا سانس ہے گمشدہ ہوا معلوم اس کو بھی مجھ…

ادامه مطلب

کچھ نہ کچھ شور مچائیں گے ضرور

کچھ نہ کچھ شور مچائیں گے ضرور درد چپ چاپ تو جانے سے رہے زندگی تیرے یہی طور ہیں تو ہم ترا ساتھ نبھانے سے…

ادامه مطلب

کتنے ساون میرے ہر سو آجاتے ہیں

کتنے ساون میرے ہر سو آجاتے ہیں ہنستے ہنستے آنکھ میں آنسو آجاتے ہیں تیرا عکس نظر آتا ہے پانی میں تو چاند ستارے آپ…

ادامه مطلب

کبھی فاصلوں پہ کبھی قیام پہ زندگی

کبھی فاصلوں پہ کبھی قیام پہ زندگی میں نے ہنس کے لکھ دی تمہارے نام پہ زندگی میں شروع سے ہی تھا راہِ عشق پہ…

ادامه مطلب

کائنات

کائنات بس اک تجھ سانول کی ذات ہے اپنا کُل جہان باقی وہم گمان فرحت عباس شاہ (کتاب – من پنچھی بے چین)

ادامه مطلب

قلم اٹھایا اور بہت کچھ پھینک دیا

قلم اٹھایا اور بہت کچھ پھینک دیا میں نے دیکھا، فکر و ادراک اور شعور کی روشنی بانٹنے کے دعویدار اپنی اپنی پیچیدگیوں میں الجھے…

ادامه مطلب

فی زمانہ

فی زمانہ سر جھکا کر چلتے چلتے گردنیں خمیدہ ہو گئی ہیں بوجھ اٹھا اٹھا کر کمریں کچی اور ٹوٹی پھوٹی گلیوں سے آیا ہوں…

ادامه مطلب

فبئ الا ربّکما تکذّبان

فبئ الا ربّکما تکذّبان او میرے یار ہوا جب سے محبت پیار کا کاروبار ہے دل بیزار بہت بیمار کہ یہ بیوپار ہمیشہ ہی بنا…

ادامه مطلب

غم کا مارا کبھی نہ ہو کوئی

غم کا مارا کبھی نہ ہو کوئی بے سہارا کبھی نہ ہو کوئی جب ہر اک شخص ہو فقط دریا جب کنارا کبھی نہ ہو…

ادامه مطلب

عقل دے موٹے لوکاں وچ میں پھسیا جے

عقل دے موٹے لوکاں وچ میں پھسیا جے کتنے چھوٹے لوکاں وچ میں پھسیا جے جھوٹے ، چور ، منافق ، بد ، کمینے تے…

ادامه مطلب

عشق تیرے مسافروں پہ سدا

عشق تیرے مسافروں پہ سدا زندگی عمر بھر عذاب رہی فرحت عباس شاہ (کتاب – محبت گمشدہ میری)

ادامه مطلب

عجب طرح کا گھوم ہے

عجب طرح کا گھوم ہے معاشرہ ہجوم ہے گھروں میں بین گونجتے گلی گلی میں دھوم ہے یا ماہر گہن ہے خوش یا ماہر نجوم…

ادامه مطلب

صورتِ عکس محبت ہی نہ رکھا جائے

صورتِ عکس محبت ہی نہ رکھا جائے اب کوئی سنگِ ملامت ہی نہ رکھا جائے ہاتھ بڑھ آئے نہ کوئی کہیں ایوانوں تک شہر میں جرم…

ادامه مطلب

صداؤں کے بس میں کچھ نہیں ہے

صداؤں کے بس میں کچھ نہیں ہے سکوت تم ہی یہ بھید کھولو سکوت تم کوئی بات بولو کہو کہ کوئی گھٹن ہے اندر گھٹن۔۔…

ادامه مطلب

شہروں جیسی رونق ہے

شہروں جیسی رونق ہے ویرانوں کے باسی میں دھوپ اگانا چھوڑ بھی دو میری مٹی پیاسی میں کہاں تلک ساتھ آؤ گے اتنی زرد اداسی…

ادامه مطلب

شہر بے یقین

شہر بے یقین اماوَس کی آخری رات راستے بھی نصیبوں کی طرح ہوتے ہیں ممکن ہے تمہیں بھٹکا دیں میری طرح میں بھی تو بھٹکا…

ادامه مطلب

شعر چوری سے نہیں ، آتا ہے احساس کیساتھ

شعر چوری سے نہیں ، آتا ہے احساس کیساتھ تیری فطرت ہے کبھی مال کبھی ماس کیساتھ تو تعلق کو نبھاتے ہوئے مرجاتا ہے ختم…

ادامه مطلب

شام ویران ہے ہوا خاموش

شام ویران ہے ہوا خاموش کون اس شہر سے گیا خاموش ایک مدت سے لوگ بولتے ہیں ایک مدت سے ہے خدا خاموش آنکھ سے…

ادامه مطلب

شالا کِسے نُوں ناں لگّے

شالا کِسے نُوں ناں لگّے بُجھی ہوئی اَگ دا سیک فرحت عباس شاہ

ادامه مطلب

سودائی

سودائی ہر شام ڈھلے تم روز کسے گھر لے آتے ہو اس کے پیراہن کی دھجی اس کے جوتے کے تلوے سے ملتا جلتا تلوا…

ادامه مطلب

سُنو لوگو!

سُنو لوگو! اکیلا میں نہیں زخمی مرے جیسے ہزاروں ہیں جو اپنے ان گنت قاتل دکھوں کو اپنی اپنی پیٹھ پر لادے مسلسل ٹھوکریں قدموں…

ادامه مطلب

سکوتِ دل میں صدا ہو گیا کوئی نہ کوئی

سکوتِ دل میں صدا ہو گیا کوئی نہ کوئی نہ مل سکا تو دُعا ہو گیا کوئی نہ کوئی میں کس کو پوچھنے نکلوں کسے…

ادامه مطلب

سفر کا بار سفر کی اساس پر رکھا

سفر کا بار سفر کی اساس پر رکھا کہ ہم نے دل ترے دریائے پیاس پر رکھا الگ ہوا جو کبھی دکھ تری جدائی کا…

ادامه مطلب

سخت ویرانی کے ڈر سے نکلے

سخت ویرانی کے ڈر سے نکلے شام ڈھل آئی تو گھر سے نکلے تو نے اچھا ہی کیا چھوڑ دیا ہم ترے زادِ سفر سے…

ادامه مطلب

سَاون

سَاون ساون کی بنیاد میں کس کے آنسو ہیں؟ صدیوں پہلے شاید کوئی صدیوں بیٹھ کے رویا ہے فرحت عباس شاہ (کتاب – من پنچھی…

ادامه مطلب

ساری دنیا سے کٹا ہوتا ہے

ساری دنیا سے کٹا ہوتا ہے جس کا ملبوس پھٹا ہوتا ہے ہم جو سو کر بھی اٹھیں تو فرحت جسم دردوں سے اٹا ہوتا…

ادامه مطلب

زہر کے ساتھ ساتھ ہی اس میں

زہر کے ساتھ ساتھ ہی اس میں سانپ کی سی ملائمت بھی ہے جو بظاہر تھا ہم وہی سمجھے اور وہ دل میں اور کوئی…

ادامه مطلب

زندگی سہمی ہوئی بوڑھی ہے

زندگی سہمی ہوئی بوڑھی ہے ہر کسی سے ہی ڈری رہتی ہے فرحت عباس شاہ (کتاب – سوال درد کا ہے)

ادامه مطلب

زمانے میں کوئی محرم نہیں ہے

زمانے میں کوئی محرم نہیں ہے ہمیں بھی فکر تم سے کم نہیں ہے بہت ہی بھیڑ ہے بے چارگی کی اداسی کے لیے موسم…

ادامه مطلب

تو کیوں نہ آج یہ کریں کہ پھُول لیں ، پھلیں کہیں

تو کیوں نہ آج یہ کریں کہ پھُول لیں ، پھلیں کہیں سمجھ میں آگئی ہو میری بات تو چلیں کہیں نظر نہ آئیں، عشق…

ادامه مطلب

سانوں شہر اِچ شغل بنڑانا، وے بیلیا اللہ دا ناں ہئیی

سانوں شہر اِچ شغل بنڑانا، وے بیلیا اللہ دا ناں ہئیی ساڈے ناں اُتے لوک ہسانا، وے بیلیا اللہ دا ناں ہئیی اسیں اُجڑے تے…

ادامه مطلب

ساڈی دل دے ہتھ مہار

ساڈی دل دے ہتھ مہار اسیں ڈھوڈھن نکلے یار اسیں ہسدے پھل غُلاب اسیں روندے زار قطار ساڈی جِت دا راز آسان اسیں کدی نہ…

ادامه مطلب

زندگی یونہی تری رہ میں لیے پھرتی ہے

زندگی یونہی تری رہ میں لیے پھرتی ہے ورنہ یہ طفل تسلی کے سوا کچھ بھی نہیں فرحت عباس شاہ (کتاب – بارشوں کے موسم…

ادامه مطلب

زندگی اضطراب میں کیا کیا

زندگی اضطراب میں کیا کیا ڈھونڈتی ہے سراب میں کیا کیا کوئی بچھڑا ہے کیا کہ ہم اب تک لکھ رہے ہیں کتاب میں کیا…

ادامه مطلب

زخمی اور تھکا ہوا پرندہ

زخمی اور تھکا ہوا پرندہ کہاں ہو تم؟ تم کہاں ہو؟ میں نے کہا تھا میں نے تمہیں کہا تھا اس پہاڑی سلسلے کو اتنا…

ادامه مطلب

روشنی کی ایک قسم

روشنی کی ایک قسم روشنی کی جستجو میں پلکیں جلا بیٹھا اور پوریں زخمی کر بیٹھا تو پتہ چلا کہ ضروری نہیں جو روشنی آنکھوں…

ادامه مطلب

روح سے رات کہیں جاتی نہیں

روح سے رات کہیں جاتی نہیں رات میں راکھ بہت اڑتی ہے اپنے محسوس کے غمناک گھروندوں میں پڑے روتے رہے شہر کو کس نے…

ادامه مطلب

رُکا ہوا ہے عجب دھوپ چھاؤں کا موسم

رُکا ہوا ہے عجب دھوپ چھاؤں کا موسم گزر رہا ہے کوئی دل سے بادلوں کی طرح فرحت عباس شاہ (کتاب – شام کے بعد…

ادامه مطلب

رتیں بے اعتبار

رتیں بے اعتبار تمہارے آنے سے بارشیں لوٹ آئی ساون مہربان ہو گیا ہے لگتا ہے وہ موسم بہت گیا ہے جب جسم پر پھوار…

ادامه مطلب

راستہ اداسی کا

راستہ اداسی کا قافلہ اداسی کا تیز ہی تو ہوتا ہے حافظہ اداسی کا کھنچ گیا مرے دل پر دائرہ اداسی کا تم پہ بھی…

ادامه مطلب

رات میں اتنا کھو چکا ہوں میں

رات میں اتنا کھو چکا ہوں میں ایسا لگتا ہے سو چکا ہوں میں پہلے ثابت تو کر لوں میں اس کو پھر کہوں گا…

ادامه مطلب

رات جس خواب کے سائے تلے سوئے تھے تمہارا تو نہ تھا

رات جس خواب کے سائے تلے سوئے تھے تمہارا تو نہ تھا غم کی مہمیز ہمیں خواب کے پندار میں لے جاتی ہوئی کہتی ہے…

ادامه مطلب

رات آنکھوں کی طرح بھیگ چلی

رات آنکھوں کی طرح بھیگ چلی رات آنکھوں کی طرح بھیگ چلی دل کے ساحل پہ سر شام ترا غم رویا لے گئی بھر کے…

ادامه مطلب

دیوانگی

دیوانگی دل اور دل کے بیچ جو صحرا پڑتا ہے عقل کے پاس تو پیر بھی مانگے تانگے ہیں ہاں البتہ دیوانوں کی بات الگ…

ادامه مطلب

دیکھ فرحت منزلیں سر ہو گئیں

دیکھ فرحت منزلیں سر ہو گئیں ٹھوکریں اپنا مقدر ہو گئیں دشت سے نظریں ملاؤں کس طرح وحشتیں سر کے برابر ہو گئیں آج برسوں…

ادامه مطلب

دو الگ الگ موسموں کی نظمیں

دو الگ الگ موسموں کی نظمیں () وقت کی تندو تیز ہوا کی زد میں آ کر بیت چکے رستوں پر لوٹ کے آنے والے…

ادامه مطلب

دنیا داروں کا بند، گلیاں ہیں

دنیا داروں کا بند، گلیاں ہیں تیرا میرا نصیب عالم ہے جنگلوں میں تو کچھ نہیں لیکن بستیوں میں مہیب عالم ہے درمیاں روح اور…

ادامه مطلب

دل و نظر میں کئی رتجگوں کو تیر کیا

دل و نظر میں کئی رتجگوں کو تیر کیا پھر اس کے بعد کہیں جا کے غم اسیر کیا ’’خلا نصیب ‘‘ تھے عمریں گنوا…

ادامه مطلب

دل مرا مستقل مزاج رہا

دل مرا مستقل مزاج رہا عمر بھر غم کا ہی رواج رہا تیری باتوں پہ اعتماد مجھے کل رہا ہے کبھی نہ آج رہا میں…

ادامه مطلب