فرحت عباس شاه
درد سب آن پڑا ہے دل میں
درد سب آن پڑا ہے دل میں سب کا سب آن پڑا ہے دل میں ہم ہیں مصروف ہمیں علم نہیں کوئی کب آن پڑا…
دامن تار تار نم کرتے
دامن تار تار نم کرتے عمر گزری کسی کا غم کرتے ہم سراپا فقیر ہوتے ہیں کس طرح اپنے سر کو خم کرتے دوسروں کو…
خوف کا بھی تجھے ادراک کہاں
خوف کا بھی تجھے ادراک کہاں تم کہاں اور دلِ بے باک کہاں تجھ تلک کیسے پہنچ پاؤں گا میں کہاں اور تری خاک کہاں…
خوب بھڑکیلے لباسوں کے سہاروں میں رہو
خوب بھڑکیلے لباسوں کے سہاروں میں رہو حسن کے حسن کی پیمائش پیہم اگر آساں ہوتی گو مگو کے کسی عالم میں نہ ہوتی آنکھیں…
خواب آنکھوں میں اتارو تو سہی
خواب آنکھوں میں اتارو تو سہی دل کے حالات سنوارو تو سہی اس قدر دور نہیں ہے وہ بھی تم دل و جاں سے پکارو…
خدا شناسی
خدا شناسی اداس مت ہو اداس مت ہو یہی سفر ہے یہی سفر تو ڈگر ڈگر ہے نگر نگر میں تمہارے جیسے نہ جانے کتنے…
حمد
حمد مولا! میں نے تیری ذات کو اپنے غموں سے پہچانا ہے فرحت عباس شاہ (کتاب – اور تم آؤ)
چیلیں پہنچیں جونہی کاگے گزر گئے
چیلیں پہنچیں جونہی کاگے گزر گئے ہم بن ماسے سوئے نہ جاگے گزر گئے حد ہوتی ہے ظلم اور جھوٹ اور دھوکے کی مولا یہ…
چشم بے آب کی دہلیز پہ آویزاں ہے
چشم بے آب کی دہلیز پہ آویزاں ہے تو مرے خواب کی دہلیز پہ آویزاں ہے دل بھری بستی کی چوکھٹ پہ دھرا ہے یارو…
چاند کے ساتھ مری بات نہ تھی پہلی سی
چاند کے ساتھ مری بات نہ تھی پہلی سی رات آتی تھی مگر رات نہ تھی پہلی سی ہم تری یادسےکل شب بھی ملے تھے…
جیسے وہی سب کچھ ہے مری ذات سے پہلے
جیسے وہی سب کچھ ہے مری ذات سے پہلے وہ بات کرے میری ہر اک بات سے پہلے یک لخت کوئی وقت بدلتا نہیں یارو…
جو نہ جانے روح کی کس منڈیر سے جھانک لے
جو نہ جانے روح کی کس منڈیر سے جھانک لے اسی خاص حسن کی آرزو میں ہے زندگی ترے دل میں فتح دمک رہی تھی…
جہاں جہاں برسات اترتی دیکھی ہے
جہاں جہاں برسات اترتی دیکھی ہے ہر سو تیری یاد بکھرتی دیکھی ہے تم سے پہلے دل سا بزدل کوئی نہ تھا اور پھر دل…
جسے چھوڑے ہوئے مدت ہوئی شہرِ محبت میں
جسے چھوڑے ہوئے مدت ہوئی شہرِ محبت میں مجھے ہر موڑ پر وہ راستہ آواز دیتا ہے فرحت عباس شاہ (کتاب – سوال درد کا…
جز عشق کہیں سچا Relation نہیں کوئی
جز عشق کہیں سچا Relation نہیں کوئی چاہت سے بڑی Justificationنہیں کوئی یہ درد ملا ہے جو ترے پیار میں مجھ کو یہ کارِ مسلسل…
جتنا آیا ہے ترے بعد نظر بارش میں
جتنا آیا ہے ترے بعد نظر بارش میں اتنا سنسان نہ تھا پہلے نگر بارش میں دھل گیا لمحوں میں سالوں کا پڑا گرد و…
جب تری ذات نکل آتی ہے
جب تری ذات نکل آتی ہے بات سے بات نکل آتی ہے کھول کے دیکھتا ہوں دل اپنا درد کی رات نکل آتی ہے آنکھ…
جاتے جاتے اس طرح سب کچھ سوالی کر گیا
جاتے جاتے اس طرح سب کچھ سوالی کر گیا روح کا کمرہ بھرا رہتا تھا خالی کر گیا اب نہ کوئی راہ جچتی ہے نہ…
تیری رنگ بھری اس دنیا میں تیری دید کا کیوں امکان نہیں
تیری رنگ بھری اس دنیا میں تیری دید کا کیوں امکان نہیں کیا ہم تیری مخلوق نہیں کیا ہم تیرے انسان نہیں تیری چاہ سنبھال…
تو نے دیکھا ہے پیار کا دریا
تو نے دیکھا ہے پیار کا دریا میری آنکھوں کے پار کا دریا اس سے دوری میں دشت ہے کوئی لمس میں ہے قرار کا…
اب پھر کس نے بہکایا ہے
اب پھر کس نے بہکایا ہے ماتھے پر کیوں بل آیا ہے پھر کیا زخم لگا ہے دل پر پھر کیوں چہرہ کملایا ہے ساتھ…
تو کرتی ہے کس بات پہ اصرار خموشی
تو کرتی ہے کس بات پہ اصرار خموشی سب بولنے والے تو ہیں لا چار خموشی کمرے میں پڑا رہتا ہے غمناک اندھیرا آنگن میں…
تنہائی
تنہائی مری شام غم مری شام غم مرے پاس آ مجھے راس آ جو سفر پڑا مجھے روز و شب کی فصیل پر مری پور…
تمہاری ہی طرف
تمہاری ہی طرف میں تم سے جتنا بھی بھاگتا ہوں آخر کھلتا یہی ہے کہ خود تمہاری ہی طرف بھاگ رہا ہوں فرحت عباس شاہ
تمہارا غم پلٹ کر آگیا ہے
تمہارا غم پلٹ کر آگیا ہے لہو دل میں سمٹ کر آگیا ہے نہ جانے رو برو تھا کون اُس کے جو پورا چاند گھٹ…
تم نے بندوق ایجاد کر دی
تم نے بندوق ایجاد کر دی تم نے بندوق ایجاد کر دی اچھا کیا اب دشمن کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اب جنگ میں…
تم تو نہ پوچھا کرو
تم تو نہ پوچھا کرو اب کم از کم تم تو نہ پوچھا کرو کہ میں اتنا اُداس گم صُم اور غمزدہ کیوں رہتا ہوں…
تقابل
تقابل ہم سمندر سے گلہ کریں گے ہماری محبت کا تقابل کسی نو آموز کی طرح یہ تو ایک بالکل ہی بکھری ہوئی بات ہے…
تِرے معاملے میں خود مرا دل
تِرے معاملے میں خود مرا دل مرے مدِ مقابل ڈٹ گیا ہے کٹ تو جاتی ھے ہر اک رات مگر یوں کہ یہ دل ایک…
ترا وجود تو میرا گمان ڈوب گیا
ترا وجود تو میرا گمان ڈوب گیا افق میں دور کہیں آسمان ڈوب گیا بھری ہیں جس طرح آنکھیں ہماری اشکوں سے ہمیں تو لگتا…
تتلی کے پَر سے بھی دُکھ جانے والا دل
تتلی کے پَر سے بھی دُکھ جانے والا دل بچے بھی کتنے عجیب ہوتے ہیں عجیب اور معصوم معصوم اور کمزور مرضی کے خلاف، خواہش…
پیار نے دیا ہے سہارا
پیار نے دیا ہے سہارا لگنے لگا ہے جی ہمارا ورنہ تو جیون روٹھا ہوا تھا کوئی پیارا باتوں میں جاگی تازگی ہے ہونٹوں پہ…
پھر وہی آنکھ، وہی راہ، وہی ویرانی
پھر وہی آنکھ، وہی راہ، وہی ویرانی پھر وہی آنکھ، وہی راہ، وہی ویرانی اے دلِ زار کوئی خواب بدل یا کسی خواب کی تعبیر…
پڑ گیا بربادیوں سے واسطہ
پڑ گیا بربادیوں سے واسطہ راکھ کی سوداگری مہنگی پڑی کشمکش سے دور رہنا چاہئیے پڑ نہ جائیں بل کہیں احساس میں رسم و راہ…
پاؤں جما کر سوچ کی اُڑن رکابوں میں
پاؤں جما کر سوچ کی اُڑن رکابوں میں آؤ سفر کر آئیں دُور سحابوں میں فرحت عباس شاہ (کتاب – ہم جیسے آوارہ دل)
بے وفائی
بے وفائی بے وفائی پیچھا کرتی ہے راستوں کے علاوہ قدموں کے بغیر اور گزرے ہوئے کے متوازی میں نے سوچا تھا شہر بدل لوں…
بے قراری کوئی شیوہ تو نہیں ہے کہ بس اب
بے قراری کوئی شیوہ تو نہیں ہے کہ بس اب عمر بھر کے لیے اپنا ہی لیا جائے اسے دل گرفتہ کسی لمحے میں جنم…
بے سماعت چپ پہاڑی سلسلے
بے سماعت چپ پہاڑی سلسلے نرم و نازک خواب شیریں گفتگو ریشمی سوچیں، ہواؤں سے خیال خون میں پہلو بدلتی آرزوؤں کا گداز کھلکھلاتی چاہتیں…
بے بسی زندگی میں شامل ہے
بے بسی زندگی میں شامل ہے زندگی بے بسی میں شامل ہے تیرگی روشنی میں شامل ہے روشنی تیرگی میں شامل ہے میرے دکھ کا…
بوسہ دے گا کون بھلا
بوسہ دے گا کون بھلا سورج کی پیشانی پر کم ہمت انسانوں کا مشکل ساتھ نہیں دیتی اک دریا اک صحرا ہے تیرے گھر کے…
بہت کچھ سمجھ لینا
بہت کچھ سمجھ لینا ہو سکتا ہے تمہارے پاس دنیا جہاں کی دولت طاقت اور اختیارات ہوں لیکن اگر کبھی اچانک دل دھک سے رہ…
بکھر گئے سب خواب اچانک بے خبری میں
بکھر گئے سب خواب اچانک بے خبری میں گزرا عین شباب اچانک بے خبری میں اچھی خاصی ہری بھری شاخیں تھیں لیکن پھوٹے زرد گلاب اچانک…
بڑھ گئیں وحشتیں موسم کی عنایات کے بعد
بڑھ گئیں وحشتیں موسم کی عنایات کے بعد ہم کبھی روئے کبھی ہنس دیے برسات کے بعد اس طرح جیسے سبھی ہم سے ملے پیار…
بجھے ہوئے ہیں دل لیکن
بجھے ہوئے ہیں دل لیکن روشن ہیں مینار بہت آبادی کے ملتے ہیں جگہ جگہ آثار بہت بازاروں میں ہوتا ہے زخموں کا بیوپار بہت…
باغ پھولوں سے بھرے ہی کب ہیں
باغ پھولوں سے بھرے ہی کب ہیں احتیاطاً جنہیں ہم گنتے یں اور کہتے ہیں کہ ہیں لاتعداد خواب کے بوجھ سے ٹوٹی ہوئی شاخوں…
بات نرالی
بات نرالی سائیں کی ہر بات نرالی کبھی کبھی تو دانہ دُنکا چگنے والے پنچھی بھی بھٹکا دیتا ہے کبھی کبھی تو عمر کے بھولے…
ایک وحشت سی طاری ہے ماحول پر ، آسماں زرد ہے
ایک وحشت سی طاری ہے ماحول پر ، آسماں زرد ہے سبز موسم میں پیلے شجر دیکھ کر آسماں زرد ہے آج خوشیاں منانے کا…
ایک سے ایک خواب میں یارو
ایک سے ایک خواب میں یارو رہ رہا ہوں شباب میں یارو ڈر گیا ہوں بُرے زمانے سے چھُپ گیا ہوں کتاب میں یارو مجھ…
ایک بھی دل ہے گر ابھی زندہ
ایک بھی دل ہے گر ابھی زندہ ہو ہی جائیں گے ہم سبھی زندہ ویسے تو قوم ساری مُردہ ہے پر لگی ہے کبھی کبھی…
ایسی دیوانگی بھلا کب نظر آتی ہے
ایسی دیوانگی بھلا کب نظر آتی ہے عجیب و غریب نوجوان تھا بظاہر بہت کمزور اور ناتواں لیکن آہنی برداشت کا مالک اور پہاڑ عزم…