فرحت عباس شاه
آخر کار
آخر کار جلد یا بدیر اس لمحے کو آنا ہی تھا کہ میں تمھارے دل کی پشت پر رکھا ہوا ہاتھ اٹھا لوں فرحت عباس…
آج سال کی آخری رات
آج سال کی آخری رات ہے مجھے یاد ہے پچھلے سال انہی دنوں میں میں نے تمہیں اپنے اندر ساتویں بار قتل کر کے وہیں…
اتنا تو ہوتا نہیں کوئی کھنڈر شام کے بعد
اتنا تو ہوتا نہیں کوئی کھنڈر شام کے بعد جتنا ویران ہوا جاتا ہے گھر شام کے بعد ٹوٹ پڑتی ہے نئی روز خبر شام…
اپنی حالت تجھے نہ بتلائیں
اپنی حالت تجھے نہ بتلائیں اتنا تو اختیار ہے دل پر فرحت عباس شاہ (کتاب – جم گیا صبر مری آنکھوں میں)
اپنا اپنا رُوپ
اپنا اپنا رُوپ یک طرفہ چاہت لاحاصل بھلے دکھائے رُوپ نا چھاؤں نا دھوپ فرحت عباس شاہ (کتاب – من پنچھی بے چین)
ابھی سنبھل ہی رہے تھے کہ جال ڈوب گیا
ابھی سنبھل ہی رہے تھے کہ جال ڈوب گیا کسی کی چشمِ خفا میں سوال ڈوب گیا ہمارے ساتھ ہمیشہ یہی ہوا ہے یہاں کہ…
اب لوٹے ہو
اب لوٹے ہو کمرہ چہرے بھول چکا ہے شیشہ کرچی کرچی ہو کر شریانوں میں بکھر گیا ہے بستر تھک کے سناٹوں میں پھیل گیا…
یوں مرے ساتھ رہا ہے دریا
یوں مرے ساتھ رہا ہے دریا جیسے غمخوار رہا ہے دریا اس نے پوچھی ہے محبت جب بھی ہم نے ہر بار کہا ہے دریا…
یہاں دل اور نظر دونوں نہیں ہیں
یہاں دل اور نظر دونوں نہیں ہیں سفر اور ہمسفر دونوں نہیں ہیں میں ایسے شہر میں رہتا ہوں فرحت جہاں دیوار و در دونوں…
یہ کوئی تو ہے کہ جو عمر سے
یہ کوئی تو ہے کہ جو عمر سے ہمیں رکھ رہا ہے جدا جدا جو درخت ہیں یہ تو یار ہین یہ جو دھوپ ہے…
یہ جو مستقل ہی سفر میں ہوں
یہ جو مستقل ہی سفر میں ہوں میں کسی ولی کی نظر میں ہوں فرحت عباس شاہ (کتاب – ہم اکیلے ہیں بہت)
یہ بھی ممکن ہے کہ اس سہمے ہوئے
یہ بھی ممکن ہے کہ اس سہمے ہوئے وقت کے پار خدا رہتا ہو فرحت عباس شاہ (کتاب – محبت گمشدہ میری)
یاد آئی تِرے لہجے کی بیابانی ہمیں
یاد آئی تِرے لہجے کی بیابانی ہمیں آگئے اجڑی ہوئی آنکھ میں آنسو کتنے تیری آواز کی پرچھائیں نے زندہ رکھا دل میں ورنہ وہ…
وہ مجھ سے پوچھتی ہے زندگی کا دائرہ کیا ہے
وہ مجھ سے پوچھتی ہے زندگی کا دائرہ کیا ہے میں کہتا ہوں سوائے سوچ کے محدود ہے ہر شے مگر اک المیہ یہ بھی…
وہ جو کھو گئے
وہ جو کھو گئے کہاں سو گئے مری آنکھ کو ہیں بھگو گئے مرے درد بھی بڑے ہو گئے کہیں ہنس گئے کہیں رو گئے…
وہ آنکھیں جو تمہاری منتظر تھیں
وہ آنکھیں جو تمہاری منتظر تھیں بڑی مدت ہوئی پتھرا گئی ہیں کنارے لگ گیا ہے خامشی سے محبت میں بھی دل چالاک نکلا تمہاری…
وقت اور صورت حالات کی زد میں آ کر
وقت اور صورت حالات کی زد میں آ کر وہ مجھے بھول گیا، میں بھی اسے بھول گیا ۔۔۔۔۔ دل تو بانٹ آئے تھے ہم…
ورلڈ آرڈر
ورلڈ آرڈر ہم مسکراتے رہتے ہیں اپنے نیلے ہونٹوں سمیت اور کھیلتے ہیں ہاتھوں کی پشتوں پر ابھری ہوئی رگوں کے ساتھ گمان کے کھوکھلے…
ہے کسی ظالم عدو کی گھات دروازے میں ہے
ہے کسی ظالم عدو کی گھات دروازے میں ہے یا مسافت ہے نئی یا رات دروازے میں ہے اس طرف جذبے برہنہ پیٹھ ہیں اور…
ہوا میں اک نیا احساس بولا
ہوا میں اک نیا احساس بولا وہ مجھ سے دور تھا اور پاس بولا اگر پوچھا کسی نے درد کیوں ہے مجھے آتا ہے اکثر…
ہن ساڑ تروڑیا دل سائیں
ہن ساڑ تروڑیا دل سائیں اسیں رسّی دے وِچ ول سائیں ہک دریا وانگ سمندراں دے مارے اکھیں دے وچ چھَل سائیں کُجھ ایہہ جیہا…
ہماری روح پیاسی ہے کبھی ملنے چلے آؤ
ہماری روح پیاسی ہے کبھی ملنے چلے آؤ بڑی گہری اداسی ہے کبھی ملنے چلے آؤ اگر تم دیوتا ہو تو مری بے انت تنہائی…
ہم نے جس رات
ہم نے جس رات ہم نے جس رات ترے ہجر کی دہلیز پر غم رکھا ہے چاند حیران ہوا ہے کہ بھلا کون چمکتا ہے…
ہم صبا ہیں تو ذرا جھوم کے مل بھی ہم سے
ہم صبا ہیں تو ذرا جھوم کے مل بھی ہم سے تو کلی ہے تو کوئی روز میں کھل بھی ہم سے ہم کہ جب…
ہم حقیقت پسند تھے ورنہ
ہم حقیقت پسند تھے ورنہ سبز خوابوں میں کھو گئے ہوتے فرحت عباس شاہ (کتاب – سوال درد کا ہے)
ہم ترے خواب کے دروازے سے لگ کر سوئے
ہم ترے خواب کے دروازے سے لگ کر سوئے شہرِ بے تاب کے دروازے سے لگ کر سوئے آتے جاتے ہوئے سب نے ہمیں دیکھا…
ہم اپنی طرز کے جوگی ہیں اس زمانے میں
ہم اپنی طرز کے جوگی ہیں اس زمانے میں خود اپنے دل میں پڑے ہیں بنا کے ویرانے فرحت عباس شاہ
ہر غم سے صاف مکر جاؤں اور تم آؤ
ہر غم سے صاف مکر جاؤں اور تم آؤ اپنے سب آنسو دھر جاؤں اور تم آؤ اک بات چھپی ہے بچپن سے مرے سینے…
ہجر کی ماری آنکھوں کا ہر باب علیحدہ رکھنا
ہجر کی ماری آنکھوں کا ہر باب علیحدہ رکھنا سورج چاند الگ رکھنا اور خواب علیحدہ رکھنا سرخ علیحدہ رکھنا زرد گلاب علیحدہ رکھنا عشق…
ہاں یہ ہو گا کہ ذرا دل کو سنبھالے دے گا
ہاں یہ ہو گا کہ ذرا دل کو سنبھالے دے گا ورنہ یہ خواب سفر آنکھ کو چھالے دے گا کون راتوں کو جلائے گا…
نیند کا پرندہ بھی کیا عجب پرندہ ہے
نیند کا پرندہ بھی کیا عجب پرندہ ہے دیر دیر تک اپنے آشیاں میں اڑتا ہے خواب کے زمانوں میں خوب نیند آتی تھی رتجگوں…
نظر میں تُوتو ہے دل میں ترے خیال کی رُت
نظر میں تُوتو ہے دل میں ترے خیال کی رُت ٹھہر گئی ہے یہاں پر ترے وصال کی رُت یہی کہ جس میں محبت کے…
ناکر اتنا غم وے بندیا
ناکر اتنا غم وے بندیا سُک جاسی آ چَم وے بندیا یار دا سوہنا ناں پڑھ پڑھ کے دِل نُوں کیتا دَم وے بندیا اندر…
میں وسوسوں میں تھا مجھ کو گمان پلٹا رہا
میں وسوسوں میں تھا مجھ کو گمان پلٹا رہا زمین لپٹی رہی آسمان لپٹا رہا تمہارا زخم جدا ہی نہیں ہوا مجھ سے تمام عمر…
میں کہاں ہوں کہ جہاں
میں کہاں ہوں کہ جہاں مسکراتا ہی نہیں ہے کوئی فرحت عباس شاہ (کتاب – شام کے بعد – دوم)
میں خدا نہیں
میں خدا نہیں میں خدا ہوں اپنے حصار میں بڑا بے زباں سا خدا خدا کسی قبر کا مجھے جس پہ رونا ہے بیٹھ کے…
میں پیلے موسموں کا پھول ہوں
میں پیلے موسموں کا پھول ہوں وہ بولی! تم نے میری روح میں اک زرد رو سپنا اتارا ہے میں اس سپنے میں سرسوں کی…
میں اپنی تنہائی سے
میں اپنی تنہائی سے تیرا ساتھ نبھاؤں گا تیرے آنسو چوموں گا اپنی صحرا آنکھوں سے اپنی ویراں آنکھوں میں شبنم لے کر آؤں گا…
میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں
میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں اُس نے جب بھی مجھے یقین دلایا کہ وہ صرف مجھ سے محبت کرتی ہے میں نے یقین کر…
موسم تھا بے قرار تمہیں سوچتے رہے
موسم تھا بے قرار تمہیں سوچتے رہے کل رات بار بار تمہیں سوچتے رہے بارش ہوئی تو گھر کے دریچے سے لگے ہم چپ چاپ…
منزل-جو تم نہیں ہو
منزل-جو تم نہیں ہو تھکی ماندی زندگیوں سے بھرے اس شہر میں آخر کوئی کب تک گرتی ہوئی دیواروں کو تھامتا پھرے گرتی ہوئی دیواروں…
ملکِ سخن
ملکِ سخن محبت کا دوسرا عہد ابھی نظموں نے پچھلے زخم پورے طور پر گنے نہیں ابھی شعروں نے پرانی جدائیاں مکمل طور پر سمیٹی…
مصیبت دور تک پھیلی ہوئی تھی
مصیبت دور تک پھیلی ہوئی تھی قیامت دور تک پھیلی ہوئی تھی عجب اک سلسلہ تھا دوریوں کا مسافت دور تک پھیلی ہوئی تھی کبھی…
مسافر چل
مسافر چل رگِ بے جاں شبِ حیراں درِ ویراں سبھی ارماں سبھی ساماں گیا ہے جل مسافر چل نہ کوئی رنگ نہ کوئی ڈھنگ نہ…
مرے دل کے شام سویرے ہو
مرے دل کے شام سویرے ہو اک بار کہو تم میرے ہو مجھے تم بن کچھ نہ دکھائی دے کیوں اتنے گھور اندھیرے ہو میں…
مرگ برشیطان اعظم
مرگ برشیطان اعظم مرگ بر شیطان اعظم مرگ بر تیرے حسنِ مکر آلودہ کی خیر تیری کوری بے پلک آنکھوں سے ٹپکے انتہائی رازداری سے…
مدتوں بعد مرا سوگ منانے آئے
مدتوں بعد مرا سوگ منانے آئے لوگ بھولا ہوا کچھ یاد دلانے آئے بڑھ گیا دل کے جنازے میں ستاروں کا ہجوم کتنے غم ایک…
محبت میں شجر ممکن نہیں ہے
محبت میں شجر ممکن نہیں ہے سکوں میں یہ سفر ممکن نہیں ہے مرا غم سنگ ہوتا جا رہا ہے مرے غم پر اثر ممکن…
محبت کم نہیں ہو گی
محبت کم نہیں ہو گی تمہاری تلخیوں سے اور تمہارے ناتراشیدہ رویوں سے تمہاری چھوٹی چھوٹی رنجشوں سے اور بڑی ناراضگی سے بھی محبت کم…
محبت پھر ہنس پڑی
محبت پھر ہنس پڑی وہ رویا نہیں تھا لیکن زندہ تھا کچھ زیادہ ہی زندہ تھا زندہ لوگوں میں بھی بس ایک وہ زندہ لگتا…