فرحت عباس شاه
آئینہ رقص میں ہے
آئینہ رقص میں ہے عکس در عکس میں ہے اس قدر حسنِ کلام ایک ہی شخص میں ہے قلب کا ہونا صحیح درد کے نقص…
ایک علیحدہ کرب
ایک علیحدہ کرب انگارہِ شب آنکھ کی نمناک ہتھیلی پہ دھرا ہے چھالوں سے بھری آنکھ کی نمناک ہتھیلی اک خواب تھا دروازہ نما، شہر…
ایک دکھ سے دوسرے دکھ تک
ایک دکھ سے دوسرے دکھ تک پھٹی ہوئی آنکھوں فالج زدہ زبان اور مفلوج بازوؤں کا یہ سفر جو جانے کتنی صدیوں سے مجھے طے…
ایک اجاڑ بے ترتیبی
ایک اجاڑ بے ترتیبی ایک اجاڑ بے ترتیبی کتنی سنگدل ہوتی ہے سب کچھ بے ترتیب کر دیتی ہے رونا بھی اور ہنسنا بھی جہاں…
اے مری بے قرار عمرِ رواں
اے مری بے قرار عمرِ رواں اک ذرا انتظار عمرِ رواں کام آ بدنصیب لوگوں کے قرض کچھ تو اُتار عمرِ رواں عام لوگوں سے…
اے خدا
اے خدا اے خدا اے خدا کھولتا کیوں نہیں کھولتا کیوں نہیں اے خدا یہ گرہ کھولتا کیوں نہیں میری دھرتی کے سینے پہ کس…
آوارہ مزاج لوگوں کے لئے ایک نظم
آوارہ مزاج لوگوں کے لئے ایک نظم نِت نئے راستوں پر قدم آزمانے والو اور ہر نیا قدم اختیار کرنے والو راستوں سے خوف کھایا…
اَنھّ
اَنھّ سانوں آکھے کون تے پُچھے کون تے دسّے کون ساڈی وَکھری وَکھری سُونہہ اسیں تَرُٹے بھَجّے گھُوگھے جئے ساڈی اَکھّ، نہ نَک، نہ مُونہہ…
آنکھوں آنکھوں جل جاتی ہے بینائی اس موسم میں
آنکھوں آنکھوں جل جاتی ہے بینائی اس موسم میں رہ جاتے ہیں اپنا آپ اور تنہائی اس موسم میں اُس کے بنجر پن کا ایک…
انسان
انسان کسی دن تمہیں تمہارے آسمان کی زمین سے اتار لاؤں اور اپنی زمین کے آسمان پر لا بٹھاؤں اور پوچھوں یہاں بیٹھ کے کائنات…
امریکی صدر کی بیٹی
امریکی صدر کی بیٹی سنا ہے امریکی صدر کی بیٹی اسامہ سے نفرت کرتی ہے سنا ہے وہ بہت ساری شراب پی کر اپنے بوائے…
اگرچہ سدا
اگرچہ سدا اعتراف محبت بہت ہی کٹھن ہے انا مانتی ہی نہیں دن بدن اعتراف محبت کی خواہش چھپے دیمکوں کی طرح روح تک چاٹ…
اکھّیں اِچ کھُوہ گِڑدا
اکھّیں اِچ کھُوہ گِڑدا اکھّیں اِچ کھُوہ گِڑدا کوئی لاچا سہیلی دا ڈھول دی ہر گل تے شک پوے پہیلی دا اکھّیں اِچ کھُوہ گِڑدا…
اک رستہ اک غم
اک رستہ اک غم چاروں جانب پھیل گیا ہے اک رستہ اک غم جیسے کوئی دھیرے دھیرے کھینچ رہا ہو دم چاروں جانب۔۔۔ جہاں بھی…
اک آہ کے بجھنے کی سزا ساتھ ہے میرے
اک آہ کے بجھنے کی سزا ساتھ ہے میرے مدت سے کوئی سرد ہوا ساتھ ہے میرے اب میں کسی بھی غم میں اکیلا نہیں…
اشتراک
اشتراک رات ہمیں راس آجاتی ہے دُکھ سُکھ کی ہے سانجھ ہم دونوں ہیں بانجھ نصیبوں والی صدیاں صدیوں سے ہیں بانجھ فرحت عباس شاہ…
آسمان گرتا رہتا ہے
آسمان گرتا رہتا ہے میری طرف مت دیکھو مجھے میری بریدہ ٹانگوں شکستہ بازوؤں اور گھائل دل نے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے ڈسے…
اس نے بے خیالی میں کہا
اس نے بے خیالی میں کہا میں نے کہا کیا میری بیچینیاں تمہیں سنائی دیتی ہیں۔۔۔؟ کیا میری اداسیاں تمہیں دکھائی دیتی ہیں۔۔۔؟ کیا میری…
اس کے کردار پہ حیرانی ہے
اس کے کردار پہ حیرانی ہے کتنی معصوم پریشانی ہے غیر محفوظ ہے بستی دل کی جب سے چاہت کی نگہبانی ہے شام پہلے ہی…
اس طرف سے نہ جا کہ ادھر راستوں میں ہیں رستے بہت
اس طرف سے نہ جا کہ ادھر راستوں میں ہیں رستے بہت اس جگہ مت ٹھہر کہ یہاں منزلیں خود ہی دیوار ہیں ہاں مجھے…
آزمائش نہیں کرم کہیے
آزمائش نہیں کرم کہیے وہ کچھ ایسے ہی یاد کرتا ہے ایک جیسا سمے ہو تو ہم بھی اُس نرالے کو بھول جاتے ہیں پھول…
آدھی خوشیاں
آدھی خوشیاں تم نے مجھے کہا تھا تم میرے دوست ہو پکے اور مخلص دوست لیکن تم اور بھی بہت سارے لوگوں کے دوست تھے…
اداسی تم تو شاہد ہو
اداسی تم تو شاہد ہو اداسی تم تو شاہد ہو گلابی منظروں نے جب بھی میرے ہاتھ پیلے کرنا چاہے ہیں میں کیسے ہچکچایا ہوں…
آخری وقت ابھی دور سہی
آخری وقت ابھی دور سہی شام کا اپنا ہی انداز ہے دکھ دینے کا ہر نئے روز لہو رنگ شفق منظرِ خونِ سفر یاد دلا…
آج کل دستِ خیر خواہ میں ہے
آج کل دستِ خیر خواہ میں ہے زندگی درد کی پناہ میں ہے وہ مزا ہجر سے مَفَر میں کہاں جو مزا ہجر سے نباہ…
اتنا ناپید ہو گیا ہوں میں
اتنا ناپید ہو گیا ہوں میں ہجر میں قید ہو گیا ہوں میں فرحت عباس شاہ (کتاب – ہم اکیلے ہیں بہت)
اپنی قسمت سے ہارا دل
اپنی قسمت سے ہارا دل پھرتا ہے مارا مارا دل چمکے ہر روز ہمارا دل بن کے آنکھوں کا تارا دل جانے اب کیوں تیرے…
اپنا پن بھی اس بیگانے پن میں ہے
اپنا پن بھی اس بیگانے پن میں ہے پورا عالم اک دیوانے پن میں ہے یہ جو تم سے میں انجان بنا پھرتا ہوں ساری…
ابھی کچھ پل ہمارے ہاتھ میں ہیں
ابھی کچھ پل ہمارے ہاتھ میں ہیں بھی کچھ پل ہمارے ہاتھ میں ہیں کون جانے کونسا لمحہ ہمارے ہاتھ سے پھسلے، گرے اور پاؤں…
اَبد
اَبد درد لے آیا کہاں رات کا آخری ویرانہ سرِ دشتِ جنوں دن تہہِ خاک سکوں شام گم سم ہے بہ اندازِ بُتاں درد لے…
یہی نہیں ہے کہ آنسو سمیٹ لایا ہوں
یہی نہیں ہے کہ آنسو سمیٹ لایا ہوں میں اس کی آنکھ کی خوشبو سمیٹ لایا ہوں شبِ فراق کی آواز بھی تھی لیکن میں…
یہ نہ سمجھو کہ ٹل رہی ہے شام
یہ نہ سمجھو کہ ٹل رہی ہے شام اپنے تیور بدل رہی ہے شام تم نہیں آئے اور اس دن سے میرے سینے میں جل…
یہ جو موت ہے
یہ جو موت ہے یہ اصول ہے کون کوہ کن، کوئی کاریگر کسی کہکشاں میں دراز ہے کوئی کوچہ کوچہ سفر میں دور نکل گیا…
یہ پیار پریت کا جال عجب
یہ پیار پریت کا جال عجب ہے مشکل اور محال عجب تری خاطر پھر پھر آوارہ مرے گزرے سترہ سال عجب مرا سینہ ترسے بارش…
یاد
یاد تمہاری یاد مرے زخمی دل سے قطرہ قطرہ ٹپکتے ہوئے خون کی لکیر پر چلتی ہوئی ہر بار مجھے راستے ہی میں آن لیتی…
وہی ایک ہی تو بچا کھچا ہے جمال میں
وہی ایک ہی تو بچا کھچا ہے جمال میں اسے بخش دو جو ترے لیے ہے ملال میں شب خوف شدت غم بتائیں گے کس…
وہ کہتی تھی کہ تُو چاروں طرف سے دشمنوں میں ہے
وہ کہتی تھی کہ تُو چاروں طرف سے دشمنوں میں ہے میں کہتا تھا مجھے تیری دعاؤں پر بھروسہ ہے وہ کہتی تھی مجھے جانا…
وہ بات سے مُکر گیا
وہ بات سے مُکر گیا بنا ملے گزر گیا نظر سے جو گرا کبھی وہ دل سے بھی اتر گیا جو مَن میں میل آئی…
وفا کے ضابطے اچھے نہیں ہیں
وفا کے ضابطے اچھے نہیں ہیں تمھارے رابطے اچھے نہیں ہیں فرحت عباس شاہ (کتاب – اک بار کہو تم میرے ہو)
وصال
وصال سرابی چلی گئی تھی شہروں سے بھی، اور لوگوں سے بھی نہ گھروں میں تھی، نہ گلیوں میں نہ راہوں میں تھی، نہ شاہراہوں…
ہیں سرِ صحرا ستارہ آپؐ ہیں
ہیں سرِ صحرا ستارہ آپؐ ہیں بے سہاروں کا سہارا آپؐ ہیں میں تو دریاؤں میں بھی ہوں مطمئن میرا ایماں ہے کنارہ آپؐ ہیں…
ہوا میں
ہوا میں نیچے دیکھتے وقت میں نے دیکھا اب نیچے دور دور تک سمندر ہی سمندر تھا کہیں کہیں کوئی اِکّا دُکّا کشتی یا جہاز…
ہنسیں اور ایک بار خود کو ایک دھوکہ اور دیں
ہنسیں اور ایک بار خود کو ایک دھوکہ اور دیں ہنسیں اور ایک بار خود کو ایک دھوکہ اور دیں کہیں کہ شکر ہے کہ…
ہماری روح پیاسی ہے کبھی ملنے چلے آؤ
ہماری روح پیاسی ہے کبھی ملنے چلے آؤ بڑی گہری اداسی ہے کبھی ملنے چلے آؤ فرحت عباس شاہ (کتاب – اداس اداس)
ہم نے کب چاہا تھا یوں تم سے جدا ہو جائیں
ہم نے کب چاہا تھا یوں تم سے جدا ہو جائیں دیکھتے دیکھتے جنگل کی ہوا ہو جائیں یہ بھی ممکن ہےکہ وہ خوش رہیں…
ہم فقط الجھے ہوئے لوگوں تلک ہیں محدود
ہم فقط الجھے ہوئے لوگوں تلک ہیں محدود ورنہ یہ سارے ہی احداد کے شک ہیں محدود ایک منزل کہ جہاں سے ہے ہمارا آغاز…
ہم چلے ہی نہیں محبت سے
ہم چلے ہی نہیں محبت سے راستوں کی قسم سفر کیا ہے فرحت عباس شاہ (کتاب – شام کے بعد – دوم)
ہم تری محبت میں
ہم تری محبت میں سوگوار رہتے ہیں شام بھی گزاری ہے رات بھی بتائی ہے ہم نے اپنے سینے پر مات بھی بتائی ہے سانحے…
ہم المناک پرندے تیرے
ہم المناک پرندے تیرے ہم المناک پرندے تیرے پر بجاتے ہوئے جیسے کوئی ماتم کا جلوس اشک آنکھوں میں لیے۔۔ اپنی پرواز کی بے سمتی…
ہر کسے جادہ ہو گیا ہے جھوٹ
ہر کسے جادہ ہو گیا ہے جھوٹ اتنادلدادا ہو گیا ہے جھوٹ میں سجھتا ہوں آپ کی حالت آپ کو بادہ ہو گیا ہے جھوٹ…