فرحت عباس شاه
دل کے موسم بدلتے جاتے ہیں
دل کے موسم بدلتے جاتے ہیں درد پھر سے سنبھلتے جاتے ہیں تیرے بارے میں حوصلے میرے بازوؤں سے نکلتے جاتے ہیں آنسوؤں کے چراغ…
دل سے باغی پہ تجھ سے پیار کے بعد
دل سے باغی پہ تجھ سے پیار کے بعد اختیار اور بھی ہوا کم ہے فرحت عباس شاہ (کتاب – محبت گمشدہ میری)
دل پر زخم لگایا ہو گا
دل پر زخم لگایا ہو گا رات بہت یاد آیا ہوگا اس کے اک نازک سے دل نے کتنا بوجھ اٹھایا ہوگا جتنی دھوپ بھی…
دکھ تو یہ ہے کہ اپنے ہی ہاتھوں
دکھ تو یہ ہے کہ اپنے ہی ہاتھوں غیر محفوظ ہو گیا جیون سیاہ دن اور سفید گلیوں میں موت دیوانہ وار پھرتی ہے ہم…
دشت کی ایک اپنی کہانی ہے تنہائی کی
دشت کی ایک اپنی کہانی ہے تنہائی کی دل خوشی میں بھی کوئی نہ کوئی سبب ڈھونڈ لیتا ہے افسردگی کا ترے بعد اور بولتا…
درد کی لہر ہر مسام تلک
درد کی لہر ہر مسام تلک پھیل جاتی ہے صبح شام تلک اب کہاں کی محبتیں فرحت اس کا رشتہ تھا مجھ سے کام تلک…
درد بے لاگ مبصر کی طرح
درد بے لاگ مبصر کی طرح آنکھ اور یاد کی دہلیز پہ اٹکے ہوئے آنسو کی قسم ہر کوئی اپنے مراثم کا صلہ مانگتا ہے…
داغ داغ دھونا ہے
داغ داغ دھونا ہے اس طرح سے ہونا ہے اب تو آپ سوجائیں رات نے بھی سونا ہے راستوں کے ہاتھوں میں قافلہ کھلونا ہے…
خوشیاں جائیں یا غم جائیں
خوشیاں جائیں یا غم جائیں آپ کہیں تو پھر ہم جائیں یہ نا ہو آہوں کے باعث آنکھوں میں آنسو جم جائیں میری آنکھوں سے…
خواہش کے آثار نظر آئے تھے اس کی آنکھوں میں
خواہش کے آثار نظر آئے تھے اس کی آنکھوں میں جو کچھ بھی تھا پاس ہمارے ہم نے اس پر وار دیا ایک زمانہ سخت…
خط میں لکھا ہے ہم نے
خط میں لکھا ہے ہم نے ساون آنے والا ہے لوگوں کو بھی ہے معلوم سندیسہ بھجوانے کا لوگ ہنسے تھے پہلے بھی لوگ اب…
خاموشی کا ویرانہ رہا، بات کا صحرا
خاموشی کا ویرانہ رہا، بات کا صحرا کچھ ایسے بتایا ہے ملاقات کا صحرا اک شعلہِ جاں جس پہ تری یاد کا خیمہ اور چاروں…
حق نا منگیں یار فقیرا
حق نا منگیں یار فقیرا دتا جائیں گا مار فقیرا روز نکلنا کٹڑی وچوں پا کے غم دا ہار فقیرا پل دو پل دی خبر…
چھپ کر آنکھ بھگو لیتا ہوں
چھپ کر آنکھ بھگو لیتا ہوں ہولے ہولے رو لیتا ہوں زندہ لوگوں سے گھبرا کر تیری قبر کو ہو لیتا ہوں غم کے کاندھے…
چبھتی ہے سینے میں شب
چبھتی ہے سینے میں شب اور ستارے آنکھوں میں پلکوں پر شبنم شبنم پیڑوں پر بارش کے پھول جانے کیوں رک جاتا ہے گاؤں کیوں…
چاند راتوں کی کہانی بھول جا
چاند راتوں کی کہانی بھول جا پیار کی یہ بھی نشانی بھول جا اب نہ دہرا جاگتی آنکھوں کے خواب کس طرح بیتی جوانی بھول…
جیسے سب کی ذات الگ
جیسے سب کی ذات الگ اسی طرح اوقات الگ پیار پریت کی بھیڑ سہی تیری میری بات الگ ویرانی کے خوف تلے تنہائی کی رات…
جو تیرے کھوج میں نکلےگھروں سے دیوانے
جو تیرے کھوج میں نکلےگھروں سے دیوانے کسی نے بات بنائی کسی نے افسانے سحر کی جستجو بڑھتی رہی دکھوں کی طرح ہزار رات پڑی…
جنگلوں میں دھکیل جاتی ہے
جنگلوں میں دھکیل جاتی ہے آرزو کھیل کھیل جاتی ہے دل ہر اک وار ضبط کرتا ہے جان ہر زخم جھیل جاتی ہے فرحت عباس…
جس قدر ہو گا پرانا، ہے نکھرنے والا
جس قدر ہو گا پرانا، ہے نکھرنے والا زخم جو دل پہ لگا ہے نہیں بھرنے والا پھر تری یاد جنازوں کو لیے آتی ہے…
جراتِ غم نے کیا ہے پر جوش
جراتِ غم نے کیا ہے پر جوش ورنہ ہم بزدلی و خوف سے جاگے کب تھے ہم تو بے حد و کراں خوف میں یوں…
جبر و قدر
جبر و قدر راستہ پاؤں کی تقدیر میں ہے کچھ کہو پھر بھی اگر کچھ بھی نہ بولو پھر بھی ساکت و جامد و خاموش،…
جب بھی یاد کی رین پڑے
جب بھی یاد کی رین پڑے برس ہمارے نین پڑے تیرے رستے رستے میں دیکھ کنوارے نین پڑے لوگ بھی تیری آس میں ہیں ہم…
ٹوٹے ہوئے اک دل کی دعا کیوں نہیں لیتے
ٹوٹے ہوئے اک دل کی دعا کیوں نہیں لیتے خواہش ہے تو پھر مجھ کو بلا کیوں نہیں لیتے میں تھک بھی چکا، ٹوٹ چکا،…
تیرے پیار کے رنگ
تیرے پیار کے رنگ انگ انگ سے پھوٹین بیلیا تیرے پیار کے رنگ بانہوں پہ اگ آئی ہے کھیتوں کی ٹھنڈی ہوا لہراتا بل کھاتا…
تو نے چپ کا شور نہیں سنا
تو نے چپ کا شور نہیں سنا تو نے چپ کا شور نہیں سنا؟ کوئی چپ کراہی ہے زور سے میں جوان تھا تو مری…
آ لگا جنگل در و دیوار سے
آ لگا جنگل در و دیوار سے اپنے آپ کو ایک شعلہ بیاں مقرر سے بمشکل بچاتے ہوئے لوگوں اور جھانسوں کی بھیڑ سے نکل…
تو شامِ غم سے بھی کچھ بعد میں ہے
تو شامِ غم سے بھی کچھ بعد میں ہے ترا پیکر شبِ برباد میں ہے بہانہ ہے جدائی تو وگرنہ اداسی تو کہیں بنیاد میں…
تنہائی کے پار اک ایسی بستی ہے
تنہائی کے پار اک ایسی بستی ہے جس کے اک اک گھر میں سپنے رہتے ہیں تن تنہا لوگوں کو اتنا کافی ہے کسی جگہ…
تمہیں اچھی طرح پتہ ہے
تمہیں اچھی طرح پتہ ہے محبت خدشے بڑھا دیتی ہے اور شکوک پیدا ہونے لگتے ہیں اور خواہ مخواہ کی بے اعتبارہ بھی چلی آتی…
تمہارا پیار چھپ چھپ کر کئی چہرے بدلتا ہے مجھے تم یاد آتے ہو
تمہارا پیار چھپ چھپ کر کئی چہرے بدلتا ہے مجھے تم یاد آتے ہو تمہارا ہجر شدت سے مرے دل کو مسلتا ہے مجھے تم…
تم ملے تو کونسا اچھا ہوا
تم ملے تو کونسا اچھا ہوا زخم دل تو اور بھی گہرا ہوا زندگی وجہِ ملامت بن گئی میں تمہارے بن عجب رسوا ہوا راستے…
تم پہ بیتے تو میں پوچھوں تم سے
تم پہ بیتے تو میں پوچھوں تم سے رات کہتی ہے کہ ناراض نہ ہو دیر پل بھر کی ہو یا صدیوں کی بات تو…
ترے وجود سے قائم
ترے وجود سے قائم اے ارض دل مری سانسوں کی لرزشوں میں نہاں ترے لیے مری جاگی ہوئی دعا کا وجود مرے یقین میں شامل…
ترا دھیان بہت دیر تک نہیں رہتا
ترا دھیان بہت دیر تک نہیں رہتا یہ آسمان بہت دیر تک نہیں رہتا اب انتظار یا بے چینیاں یا ٹھہراؤ کوئی جہان بہت دیر…
تاکید
تاکید اجنبی بستیوں کے سفر پہ جا رہے ہو تو یاد رکھنا جہاں بھی رہو کچی پکی برساتوں میں دل کا خیال رکھنا اور منڈیروں…
پیار تم سے ہے جو ہوا جاناں
پیار تم سے ہے جو ہوا جاناں جانتا ہے مرا خدا جاناں جانے کیا ہے کہ صبح ہوتے ہی چل پڑی شام کی ہوا جاناں…
پھر تیری یاد
پھر تیری یاد پھر تیری یاد راستہ بھول آئی ہے وقت رویا ہوا چاند سابن کے ڈھلنے لگا، رت بدلنے لگی رات بادل کے پلو…
پردیس سے خیریت کی اطلاع
پردیس سے خیریت کی اطلاع ایک ہی شہر میں ہیں ہم سب اور اپنا اپنا خیال رکھتے فرحت عباس شاہ (کتاب – دکھ بولتے ہیں)
پاگل مورے نین
پاگل مورے نین پاگل مورے نین ری سجنی پاگل مورے نین گھوم گھوم مکھ ڈھونڈیں تمرا پل بھر کرناہیں پائیں جاگیں ساری رین فرحت عباس…
بے نوا قوتِ اظہار پڑی رہتی ہے
بے نوا قوتِ اظہار پڑی رہتی ہے دستِ مفلوج میں تلوار پڑی رہتی ہے موت اور ظلم کی خبروں سے تو یہ لگتا ہے میز…
بے فیض
بے فیض اپنے پیر جلیں تو دنیا پیڑ کی مانگے خیر فرحت عباس شاہ (کتاب – من پنچھی بے چین)
بے خیالی کی آڑ میں اکثر
بے خیالی کی آڑ میں اکثر ہم نے نظریں چرائی ہیں دکھ سے فرحت عباس شاہ (کتاب – شام کے بعد – دوم)
بے بسی آخری حدوں پر ہے
بے بسی آخری حدوں پر ہے زندگی آخری حدوں پر ہے جانے اب دل کا کیا بنے یارو بے کلی آخری حدوں پر ہے سنگ…
بھنور میں تھا کنارا مل گیا ہے
بھنور میں تھا کنارا مل گیا ہے مجھے انؐ کا سہارا مل گیا ہے نظر آتا ہے گنبد ہر جگہ سے ریاضت کو اشارہ مل…
بہت اندھیرا تھا
بہت اندھیرا تھا ہر طرف ہر سمت اندر بھی اور باہر بھی ہم نے سوچا آنکھیں کھولیں ہم نے اندھیرے میں سوچا اور بات اندھیرے…
بسترِ آب کے خیال میں ہوں
بسترِ آب کے خیال میں ہوں میں بھی کس خواب کے خیال میں ہوں چل رہا ہوں اندھیری راتوں میں ایک مہتاب کے خیال میں…
بدنصیبی
بدنصیبی باوردی محافظ نے بادشاہ کو آ کر بتایا کہ شہر بھر میں زہریلا دھواں پھیل رہا ہے وجہ معلوم نہیں ہو سکی اور نہ…
بجھ گئی آس تو پھر کوئی اُجالا نہ رہا
بجھ گئی آس تو پھر کوئی اُجالا نہ رہا شام کے بعد کوئی لوٹنے والا نہ رہا بس گیا جا کے کہیں دُور وہ آوارہ…