فرحت عباس شاه
ابھی کچھ پل ہمارے ہاتھ میں ہیں
ابھی کچھ پل ہمارے ہاتھ میں ہیں بھی کچھ پل ہمارے ہاتھ میں ہیں کون جانے کونسا لمحہ ہمارے ہاتھ سے پھسلے، گرے اور پاؤں…
اَبد
اَبد درد لے آیا کہاں رات کا آخری ویرانہ سرِ دشتِ جنوں دن تہہِ خاک سکوں شام گم سم ہے بہ اندازِ بُتاں درد لے…
یہی سمجھ میں آیا ہے
یہی سمجھ میں آیا ہے شہر کا شہر پرایا ہے بستی بستی میں اس کی ویرانہ ہمسایہ ہے جھوٹے رشتوں ناطوں کا برسوں بوجھ اٹھایا…
یہ میں کون ہوں
یہ میں کون ہوں دلِ شب نما کے حصار میں کئی دکھ کھڑے ہیں قطار میں ترے پیار میں گلے مل کے مجھ کو رلائیں…
یہ دل میں کون گھبرایا ہوا ہے
یہ دل میں کون گھبرایا ہوا ہے یہ دل میں کون گھبرایا ہوا ہے دھڑکنوں کے زیرو بم سے بے سروپا لرزشوں کا شور اٹھتا…
یہ تو آتا ہے سمجھ کچھ جو ستم جھیلتے ہیں
یہ تو آتا ہے سمجھ کچھ جو ستم جھیلتے ہیں اس کا کیاکہیے کہ جو لوگ کرم جھیلتے ہیں ایک مدت سے پڑے تیری عنایت…
یاداشت
یاداشت تمہیں یاد ہے؟ تم نے مجھے کبھی خط نہیں لکھا اور نہ کبھی کوئی سندیسہ بھجوایا ہے تم نے کبھی میرا انتظار نہیں کیا…
ویرانوں کے اندر بھی
ویرانوں کے اندر بھی موسم آیا کرتے ہیں میرے دل کا ویرانہ زخموں سے آباد ہوا اس کے اور مرے مابین دور تلک خاموشی تھی…
وہ رویا کرتا اور محبت ہنسا کرتی
وہ رویا کرتا اور محبت ہنسا کرتی بچے کے آنسو اتنے رخساروں پر نہیں گرتے جتنے دل پر گرتےہیں معصوم، کمزور اور دکھے ہوئے دل…
وہ بھی میرے جواب میں شاید
وہ بھی میرے جواب میں شاید پھول رکھ دے کتاب میں شاید اس لیے چھیڑتا ہوں روز اسے کچھ کہے اضطراب میں شاید نیند سے…
وقت
وقت وقت تو ایک سکوت ہے ایک عظیم سکوت جس کے اندر دنیا اور دنیا میں ہم اک بے مایہ شور ہیں بس اک لمحہ…
وسعت
وسعت عمر کی ناؤ نظر کے خبط سے ہم کو لگی دریا مگر ایک پل کی بازگشتِ ناگہاں لے کے دامن میں سمندر سو گئی…
ہیں عناصر اصول کا باعث
ہیں عناصر اصول کا باعث جیسے ہم ہیں رسول کا باعث چند باتوں نے حافظہ بخشا چند یادیں ہیں بھول کا باعث راستوں سے شکایتیں…
ہوگئے خواب کرچیاں کتنے
ہوگئے خواب کرچیاں کتنے آگئے درد درمیاں کتنے تم نے کیا سوچ کر مجھے چاہا تم نے دیکھے ہیں رائیگاں کتنے ہم تو لگتا ہے…
ہو کے اک تیری رہگذار کے ہم
ہو کے اک تیری رہگذار کے ہم منہ میں آئے ہیں خار خار کے ہم اب بلا لو ہمیں قریب کہیں تھک گئے زندگی گزار…
ہماری زندگی کی ہر مسافت
ہماری زندگی کی ہر مسافت تمہاری راہ پر لکھی ہوئی ہے سمندر بادلوں سے پوچھتا ہے پرندے کس طرف کو جا رہے ہیں درختوں کے…
ہم نے کچھ روز میں مر جانا ہے
ہم نے کچھ روز میں مر جانا ہے ہم نے کچھ روز میں مر جانا ہے ہم تو مہمان ہیں اور لوٹ کے گھر جانا…
ہم گزاریں زندگانی کس لیے
ہم گزاریں زندگانی کس لیے آخر اتنی رائیگانی کس لیے ہم نے تیرا مان توڑا کیوں نہیں ہم نے تیری بات مانی کس لیے کون…
ہم درد کے ماروں کی
ہم درد کے ماروں کی راتیں بھی نہیں اپنی پیاسے ہیں تو پیاسے ہیں دریا ہو کہ صحرا ہو جب چاہو پلٹ آنا ہم راہ…
ہم جا نہ سکے گام بھی دربان سے آگے
ہم جا نہ سکے گام بھی دربان سے آگے جس شہر میں ہر شخص تھا سلطان سے آگے صحرا میں کوئی اور نہ تھا میرے…
ہم ایسی آگہی تک آ کے بھی انجان رہتے ہیں
ہم ایسی آگہی تک آ کے بھی انجان رہتے ہیں جہاں لب سہم جاتے ہیں بدن بے جان رہتے ہیں محبت لاشعوری جبر ہے اور…
ہر گھڑی اک گونجتا وجدان ہے سنسان جنگل کی طرح
ہر گھڑی اک گونجتا وجدان ہے سنسان جنگل کی طرح بندگی بھی کونسی آسان ہے سنسان جنگل کی طرح راستے میرے بھی صحرا کی طرح…
ہجر نَس نَس میں ہے
ہجر نَس نَس میں ہے دل ترے بَس میں ہے عشق کا سارا مزا درد کے رَس میں ہے فرحت عباس شاہ (کتاب – سوال…
ہائے یہ دل کا شہر
ہائے یہ دل کا شہر ہائے یہ دل کا شہر ن مائے ہائے یہ دل کا شہر دبلی پتلی نرم و نازک ہمت اپنی انت…
نیند کا شائبہ در آیا ہے بیداری میں
نیند کا شائبہ در آیا ہے بیداری میں آپ کچھ دیر کو جاگیں تو ذرا سو جاؤں فرحت عباس شاہ (کتاب – بارشوں کے موسم…
نگر آباد کرتے ہیں کبھی ملنے چلے آؤ
نگر آباد کرتے ہیں کبھی ملنے چلے آؤ تمہیں ہم یاد کرتے ہیں کبھی ملنے چلے آؤ فرحت عباس شاہ (کتاب – اداس اداس)
ناسمجھ کبھی سنا
ناسمجھ کبھی سنا نہیں کہ کسی گرم میدانی علاقے کی سڑک پر کوئی بادل اتر آیا ہو یا برفانی علاقوں میں برف باری کے موسم…
میں ہرا بھرا تھا شجر کوئی
میں ہرا بھرا تھا شجر کوئی ترا انتظار جلا گیا فرحت عباس شاہ (کتاب – محبت گمشدہ میری)
میں مسکراؤں تو مسکائے، روؤں تو رو دے
میں مسکراؤں تو مسکائے، روؤں تو رو دے مِرے ہی سامنے میرا ہی ہو بہو کیا ہے جھنجھوڑتا ہے، تماشا کہ اہل شب دیکھو پکارتا…
میں خوش ہوا ہوں مرے دل کہ تو ذہین رہا
میں خوش ہوا ہوں مرے دل کہ تو ذہین رہا ترا رویہ مصیبت میں بہترین رہا مجھے خوشی ہے مرا یار با وفا نکلا مجھے…
میں تم سے محبت کرتا ہوں
میں تم سے محبت کرتا ہوں وہ مجھ سے محبت کرتا ہے تو میرے دل میں بستا ہے میں تیرے دل میں بستا ہوں تم…
میں اک قطرہ کیا میری اوقات سمندر میں
میں اک قطرہ کیا میری اوقات سمندر میں گم ہو جایا کرتی ہے برسات سمندر میں جنم جنم کا جیون بھی ہے اور فنا بھی…
میرے بھیگی آنکھوں والے
میرے بھیگی آنکھوں والے رونے والے ! اپنے بہنے والے آنسو ! میری آنکھوں میں دفنا دو اپنی رونے وا لی آ نکھیں میرے چہرے…
موسم کو بدلنا ہے بدل جائے گا آخر
موسم کو بدلنا ہے بدل جائے گا آخر سورج ہے کوئی شخص تو ڈھل جائے گا آخر ہر سوچ ترے سوگ میں ہو جائے گا…
منظر اور بینائی کا کھیل
منظر اور بینائی کا کھیل بہت سارے منظر دل سے پھسل کر آنکھوں میں آ پڑتے ہیں کہیں یاد نہیں آتا انہیں پہلے کہاں دیکھا…
ملی ہے ہم کو خوشی کی خبر مبارک ہو
ملی ہے ہم کو خوشی کی خبر مبارک ہو چلے ہیں آپ مدینے، سفر مبارک ہو ذرا سنیں تو بھلا کہہ رہے ہیں سب مل…
معاشرے سے تعلق بحال رکھنا تھا
معاشرے سے تعلق بحال رکھنا تھا ترے علاوہ بھی دل میں ملال رکھنا تھا تمہاری ہم سفری کے طویل عرصے میں کہیں کہیں مجھے اپنا…
مستقل جاگتا رہا ساون
مستقل جاگتا رہا ساون مستقل سوچتا رہا ساون آنکھ میں بولتے رہے آنسو دشت میں گونجتا رہا ساون دیر تک اشک آنکھ میں بھر کر…
مرے رتجگوں کو خبر کرو
مرے رتجگوں کو خبر کرو مجھے نیند آئی ہے دیکھنے میں تو اپنے آپ میں ہی نہیں مجھے میرے حال پہ چھوڑ دو بڑا سخت…
مری اداس روش کا سبب نہیں ہو تم
مری اداس روش کا سبب نہیں ہو تم اگر کہیں کبھی ہو گے تو اب نہیں ہو تم بہت نوازتے رہتے ہو دنیا داروں کو…
مرا انتظار قدیم ہے
مرا انتظار قدیم ہے مرا تم سے پیار قدیم ہے مرے پھوٹے ہوئے نصیب پر ترا اختیار قدیم ہے مرے ساتھ دکھ میں ہے آسماں…
محبتوں میں دلوں کا یہ حال رہتا ہے
محبتوں میں دلوں کا یہ حال رہتا ہے خوشی ملے بھی تو رنج و ملال رہتا ہے تمام سال بدلتا نہیں کوئی موسم تمام سال…
محبت کی آخری ادھوری نظم (رابعہ)
محبت کی آخری ادھوری نظم (رابعہ) شاعر فرحت عباس شاہ کمپوزر زین شکیل * رابعہ! او مری اجنبی رابعہ اتنی صدیوں پرانی شناسائی یوں ایک…
محبت چاند کی کرنوں کا ہالہ ہے
محبت چاند کی کرنوں کا ہالہ ہے محبت کاسنی رنگوں کا جھرمٹ ہے ذرا گہرا ہوا اور آسمانوں پر اداسی چھا گئی اک رازداری کا…
مجھے لگ رہا ہے میں غم کی کوکھ ہوں آج بھی
مجھے لگ رہا ہے میں غم کی کوکھ ہوں آج بھی مرے جسم و جاں میں کئی ہیولے ہیں راکھ کے کسی چارہ گر کی…
مجھے تم یاد نہیں رہے
مجھے تم یاد نہیں رہے یاداشت کی بہت ساری منزلیں ہوتی ہیں کچھ منزلیں سر ہو جاتی ہیں اور بہت سی نہیں تمہارے بارے میں…
مجھ کو آوارہ پھرانے کے بہانوں میں رہیں
مجھ کو آوارہ پھرانے کے بہانوں میں رہیں دیر تک تیری صدائیں مرے کانوں میں رہیں رات کی چیخ سے گھبرا کے لرزتی آنکھیں صبح…
مار دو۔۔۔۔۔ مار دو
مار دو۔۔۔۔۔ مار دو اِسے پکڑو پکڑو۔۔۔۔ گِرا دو۔۔۔۔۔ مار دو میں کسی بلند پہاڑ کی کسی ڈولتی ہوئی ہلتی جُلتی چٹان پر بڑی مشکلوں…
لگتا ہے کہ صدیوں سے خدا سوچ میں گم ہے
لگتا ہے کہ صدیوں سے خدا سوچ میں گم ہے اور سارے زمانے سے جدا سوچ میں گم ہے کشتی میں بہت چپ ہے کوئی…
لاگے نا لاگے نا جیارا
لاگے نا لاگے نا جیارا من میں آ کر بیٹھ گیا ہے کوئی عجب عجیب۔۔۔ ہلکی ہلکی آگ لگائے پاس بلائے ہاتھ نہ آئے کیسے…