فرحت عباس شاه
ایک اجاڑ بے ترتیبی
ایک اجاڑ بے ترتیبی ایک اجاڑ بے ترتیبی کتنی سنگدل ہوتی ہے سب کچھ بے ترتیب کر دیتی ہے رونا بھی اور ہنسنا بھی جہاں…
اے مری بے قرار عمرِ رواں
اے مری بے قرار عمرِ رواں اک ذرا انتظار عمرِ رواں کام آ بدنصیب لوگوں کے قرض کچھ تو اُتار عمرِ رواں عام لوگوں سے…
اے خدا
اے خدا اے خدا اے خدا کھولتا کیوں نہیں کھولتا کیوں نہیں اے خدا یہ گرہ کھولتا کیوں نہیں میری دھرتی کے سینے پہ کس…
آوارہ مزاج لوگوں کے لئے ایک نظم
آوارہ مزاج لوگوں کے لئے ایک نظم نِت نئے راستوں پر قدم آزمانے والو اور ہر نیا قدم اختیار کرنے والو راستوں سے خوف کھایا…
اَنھّ
اَنھّ سانوں آکھے کون تے پُچھے کون تے دسّے کون ساڈی وَکھری وَکھری سُونہہ اسیں تَرُٹے بھَجّے گھُوگھے جئے ساڈی اَکھّ، نہ نَک، نہ مُونہہ…
آنکھوں آنکھوں جل جاتی ہے بینائی اس موسم میں
آنکھوں آنکھوں جل جاتی ہے بینائی اس موسم میں رہ جاتے ہیں اپنا آپ اور تنہائی اس موسم میں اُس کے بنجر پن کا ایک…
انسان
انسان کسی دن تمہیں تمہارے آسمان کی زمین سے اتار لاؤں اور اپنی زمین کے آسمان پر لا بٹھاؤں اور پوچھوں یہاں بیٹھ کے کائنات…
امریکی صدر کی بیٹی
امریکی صدر کی بیٹی سنا ہے امریکی صدر کی بیٹی اسامہ سے نفرت کرتی ہے سنا ہے وہ بہت ساری شراب پی کر اپنے بوائے…
اگرچہ سدا
اگرچہ سدا اعتراف محبت بہت ہی کٹھن ہے انا مانتی ہی نہیں دن بدن اعتراف محبت کی خواہش چھپے دیمکوں کی طرح روح تک چاٹ…
اکھّیں اِچ کھُوہ گِڑدا
اکھّیں اِچ کھُوہ گِڑدا اکھّیں اِچ کھُوہ گِڑدا کوئی لاچا سہیلی دا ڈھول دی ہر گل تے شک پوے پہیلی دا اکھّیں اِچ کھُوہ گِڑدا…
اک رستہ اک غم
اک رستہ اک غم چاروں جانب پھیل گیا ہے اک رستہ اک غم جیسے کوئی دھیرے دھیرے کھینچ رہا ہو دم چاروں جانب۔۔۔ جہاں بھی…
اک آہ کے بجھنے کی سزا ساتھ ہے میرے
اک آہ کے بجھنے کی سزا ساتھ ہے میرے مدت سے کوئی سرد ہوا ساتھ ہے میرے اب میں کسی بھی غم میں اکیلا نہیں…
اشتراک
اشتراک رات ہمیں راس آجاتی ہے دُکھ سُکھ کی ہے سانجھ ہم دونوں ہیں بانجھ نصیبوں والی صدیاں صدیوں سے ہیں بانجھ فرحت عباس شاہ…
آسمان گرتا رہتا ہے
آسمان گرتا رہتا ہے میری طرف مت دیکھو مجھے میری بریدہ ٹانگوں شکستہ بازوؤں اور گھائل دل نے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے ڈسے…
اس نے بے خیالی میں کہا
اس نے بے خیالی میں کہا میں نے کہا کیا میری بیچینیاں تمہیں سنائی دیتی ہیں۔۔۔؟ کیا میری اداسیاں تمہیں دکھائی دیتی ہیں۔۔۔؟ کیا میری…
اس کے کردار پہ حیرانی ہے
اس کے کردار پہ حیرانی ہے کتنی معصوم پریشانی ہے غیر محفوظ ہے بستی دل کی جب سے چاہت کی نگہبانی ہے شام پہلے ہی…
اس طرف سے نہ جا کہ ادھر راستوں میں ہیں رستے بہت
اس طرف سے نہ جا کہ ادھر راستوں میں ہیں رستے بہت اس جگہ مت ٹھہر کہ یہاں منزلیں خود ہی دیوار ہیں ہاں مجھے…
آزمائش نہیں کرم کہیے
آزمائش نہیں کرم کہیے وہ کچھ ایسے ہی یاد کرتا ہے ایک جیسا سمے ہو تو ہم بھی اُس نرالے کو بھول جاتے ہیں پھول…
آدھی خوشیاں
آدھی خوشیاں تم نے مجھے کہا تھا تم میرے دوست ہو پکے اور مخلص دوست لیکن تم اور بھی بہت سارے لوگوں کے دوست تھے…
اداسی تم تو شاہد ہو
اداسی تم تو شاہد ہو اداسی تم تو شاہد ہو گلابی منظروں نے جب بھی میرے ہاتھ پیلے کرنا چاہے ہیں میں کیسے ہچکچایا ہوں…
آخری وقت ابھی دور سہی
آخری وقت ابھی دور سہی شام کا اپنا ہی انداز ہے دکھ دینے کا ہر نئے روز لہو رنگ شفق منظرِ خونِ سفر یاد دلا…
آج کل دستِ خیر خواہ میں ہے
آج کل دستِ خیر خواہ میں ہے زندگی درد کی پناہ میں ہے وہ مزا ہجر سے مَفَر میں کہاں جو مزا ہجر سے نباہ…
اتنا ناپید ہو گیا ہوں میں
اتنا ناپید ہو گیا ہوں میں ہجر میں قید ہو گیا ہوں میں فرحت عباس شاہ (کتاب – ہم اکیلے ہیں بہت)
اپنی قسمت سے ہارا دل
اپنی قسمت سے ہارا دل پھرتا ہے مارا مارا دل چمکے ہر روز ہمارا دل بن کے آنکھوں کا تارا دل جانے اب کیوں تیرے…
اپنا پن بھی اس بیگانے پن میں ہے
اپنا پن بھی اس بیگانے پن میں ہے پورا عالم اک دیوانے پن میں ہے یہ جو تم سے میں انجان بنا پھرتا ہوں ساری…
ابھی کچھ پل ہمارے ہاتھ میں ہیں
ابھی کچھ پل ہمارے ہاتھ میں ہیں بھی کچھ پل ہمارے ہاتھ میں ہیں کون جانے کونسا لمحہ ہمارے ہاتھ سے پھسلے، گرے اور پاؤں…
اَبد
اَبد درد لے آیا کہاں رات کا آخری ویرانہ سرِ دشتِ جنوں دن تہہِ خاک سکوں شام گم سم ہے بہ اندازِ بُتاں درد لے…
یہی سمجھ میں آیا ہے
یہی سمجھ میں آیا ہے شہر کا شہر پرایا ہے بستی بستی میں اس کی ویرانہ ہمسایہ ہے جھوٹے رشتوں ناطوں کا برسوں بوجھ اٹھایا…
یہ میں کون ہوں
یہ میں کون ہوں دلِ شب نما کے حصار میں کئی دکھ کھڑے ہیں قطار میں ترے پیار میں گلے مل کے مجھ کو رلائیں…
یہ دل میں کون گھبرایا ہوا ہے
یہ دل میں کون گھبرایا ہوا ہے یہ دل میں کون گھبرایا ہوا ہے دھڑکنوں کے زیرو بم سے بے سروپا لرزشوں کا شور اٹھتا…
یہ تو آتا ہے سمجھ کچھ جو ستم جھیلتے ہیں
یہ تو آتا ہے سمجھ کچھ جو ستم جھیلتے ہیں اس کا کیاکہیے کہ جو لوگ کرم جھیلتے ہیں ایک مدت سے پڑے تیری عنایت…
یاداشت
یاداشت تمہیں یاد ہے؟ تم نے مجھے کبھی خط نہیں لکھا اور نہ کبھی کوئی سندیسہ بھجوایا ہے تم نے کبھی میرا انتظار نہیں کیا…
ویرانوں کے اندر بھی
ویرانوں کے اندر بھی موسم آیا کرتے ہیں میرے دل کا ویرانہ زخموں سے آباد ہوا اس کے اور مرے مابین دور تلک خاموشی تھی…
وہ رویا کرتا اور محبت ہنسا کرتی
وہ رویا کرتا اور محبت ہنسا کرتی بچے کے آنسو اتنے رخساروں پر نہیں گرتے جتنے دل پر گرتےہیں معصوم، کمزور اور دکھے ہوئے دل…
وہ بھی میرے جواب میں شاید
وہ بھی میرے جواب میں شاید پھول رکھ دے کتاب میں شاید اس لیے چھیڑتا ہوں روز اسے کچھ کہے اضطراب میں شاید نیند سے…
وقت
وقت وقت تو ایک سکوت ہے ایک عظیم سکوت جس کے اندر دنیا اور دنیا میں ہم اک بے مایہ شور ہیں بس اک لمحہ…
وسعت
وسعت عمر کی ناؤ نظر کے خبط سے ہم کو لگی دریا مگر ایک پل کی بازگشتِ ناگہاں لے کے دامن میں سمندر سو گئی…
ہیں عناصر اصول کا باعث
ہیں عناصر اصول کا باعث جیسے ہم ہیں رسول کا باعث چند باتوں نے حافظہ بخشا چند یادیں ہیں بھول کا باعث راستوں سے شکایتیں…
ہوگئے خواب کرچیاں کتنے
ہوگئے خواب کرچیاں کتنے آگئے درد درمیاں کتنے تم نے کیا سوچ کر مجھے چاہا تم نے دیکھے ہیں رائیگاں کتنے ہم تو لگتا ہے…
ہو کے اک تیری رہگذار کے ہم
ہو کے اک تیری رہگذار کے ہم منہ میں آئے ہیں خار خار کے ہم اب بلا لو ہمیں قریب کہیں تھک گئے زندگی گزار…
ہماری زندگی کی ہر مسافت
ہماری زندگی کی ہر مسافت تمہاری راہ پر لکھی ہوئی ہے سمندر بادلوں سے پوچھتا ہے پرندے کس طرف کو جا رہے ہیں درختوں کے…
ہم نے کچھ روز میں مر جانا ہے
ہم نے کچھ روز میں مر جانا ہے ہم نے کچھ روز میں مر جانا ہے ہم تو مہمان ہیں اور لوٹ کے گھر جانا…
ہم گزاریں زندگانی کس لیے
ہم گزاریں زندگانی کس لیے آخر اتنی رائیگانی کس لیے ہم نے تیرا مان توڑا کیوں نہیں ہم نے تیری بات مانی کس لیے کون…
ہم درد کے ماروں کی
ہم درد کے ماروں کی راتیں بھی نہیں اپنی پیاسے ہیں تو پیاسے ہیں دریا ہو کہ صحرا ہو جب چاہو پلٹ آنا ہم راہ…
ہم جا نہ سکے گام بھی دربان سے آگے
ہم جا نہ سکے گام بھی دربان سے آگے جس شہر میں ہر شخص تھا سلطان سے آگے صحرا میں کوئی اور نہ تھا میرے…
ہم ایسی آگہی تک آ کے بھی انجان رہتے ہیں
ہم ایسی آگہی تک آ کے بھی انجان رہتے ہیں جہاں لب سہم جاتے ہیں بدن بے جان رہتے ہیں محبت لاشعوری جبر ہے اور…
ہر گھڑی اک گونجتا وجدان ہے سنسان جنگل کی طرح
ہر گھڑی اک گونجتا وجدان ہے سنسان جنگل کی طرح بندگی بھی کونسی آسان ہے سنسان جنگل کی طرح راستے میرے بھی صحرا کی طرح…
ہجر نَس نَس میں ہے
ہجر نَس نَس میں ہے دل ترے بَس میں ہے عشق کا سارا مزا درد کے رَس میں ہے فرحت عباس شاہ (کتاب – سوال…
ہائے یہ دل کا شہر
ہائے یہ دل کا شہر ہائے یہ دل کا شہر ن مائے ہائے یہ دل کا شہر دبلی پتلی نرم و نازک ہمت اپنی انت…
نیند کا شائبہ در آیا ہے بیداری میں
نیند کا شائبہ در آیا ہے بیداری میں آپ کچھ دیر کو جاگیں تو ذرا سو جاؤں فرحت عباس شاہ (کتاب – بارشوں کے موسم…