فرحت عباس شاه
اک جھیل ہے آنکھوں میں جو آباد بہت ہے
اک جھیل ہے آنکھوں میں جو آباد بہت ہے صدیوں یونہی رونے کو تری یاد بہت ہے پھرتا ہے تو پھرنے دے اسے شہرِ وفا…
اَفشا
اَفشا راز محدود نہیں سوچ کے جلتے ہوئے پر کسی مفلوک کی دانائی کا انجام بنے راکھ ہوئے عقل اک دائرہ ارض و سما، اور…
اسے بلاتا، اگر وہ ہوتا
اسے بلاتا، اگر وہ ہوتا کمرے میں دو چار، دس بیس، بتیاں اور ہوتیں تو وہ بھی جلا لیتا اور اسے بلاتا اور اپنے نصیب…
اس نے گردن تان کے جھمکے لہرائے
اس نے گردن تان کے جھمکے لہرائے چاند نے جھک کر کانوں میں سرگوشی کی چھو لیتا ہوں خوشبو کو آسانی سے پھولوں کی آوازیں…
اُس کی میری چاہت بس کچھ ایسے ہی پروان چڑھی
اُس کی میری چاہت بس کچھ ایسے ہی پروان چڑھی جیسے باہم ہمدردی بڑھ جاتی ہے بیماروں میں فرحت عباس شاہ (کتاب – آنکھوں کے…
اس قدر مل گئی ہے غم کو جِلا
اس قدر مل گئی ہے غم کو جِلا زندگی سے نہیں ہے کوئی گلہ دھوپ سے تھا بھرا ہوا جیون اک تری چھاؤں میں سکون…
اس تعلق کا کوئی نام نہیں
اس تعلق کا کوئی نام نہیں اس تعلق کو کوئی نام نہ دو شام کے ڈوبتے سورج کے سوا میری آنکھوں میں کوئی رت ہی…
اڑتے اڑتے آخر چاند
اڑتے اڑتے آخر چاند دل کی شاخ سے الجھا ہے ہم تھک ہار کے سوئے ہیں درد بھلا کب سویا ہے سرد مزاجی کا موسم…
اداسی
اداسی دل کا دکھا ہوا عالم اور غمزدہ فضا جب آنکھیں رونا چاہتی ہیں اور رو نہیں سکتیں جب ہم لمبی لمبی سانسیں کھینچتے ہیں…
آخری وقت
آخری وقت بہت ہو چکا اور ہم نے اپنے اپنے اندر مردوں کے اوپر بہت مردے دفن کر لیے لیکن اب وہ وقت آن پہنچا…
احساس شکر ہے کہ سکھ کی
احساس شکر ہے کہ سکھ کی ساری دعائیں قبول نہیں ہو جاتی ورنہ نہ تو کبھی ہم اپنے آپ کو دیکھ سکیں نہ سُن سکیں…
اتنے گنجل ہیں ہر اک انسان میں
اتنے گنجل ہیں ہر اک انسان میں کوئی آتا ہی نہیں پہچان میں وقت کی تخصیص ہی جاتی رہی دن گزرتا ہے شبِ ویران میں…
اپنی گمشدگی کے تختے پر
اپنی گمشدگی کے تختے پر سوچ کیا ہم نے کسی کو اختیار دے رکھا ہے؟ کہ وہ ہمیں ہماری بے خبری میں تھوڑا تھوڑا کر…
اپنی اپنی ظاہری اناؤں کی خاطر
اپنی اپنی ظاہری اناؤں کی خاطر اکثر سوچتا ہوں کہ تمہارے پاس جائے بغیر تم سے مل آؤں اور منہ سے کچھ بولے بغیر بہت…
آپ کی شال میں اداس رہے
آپ کی شال میں اداس رہے ہم تو ہر حال میں اداس رہے اس نے پھینکا تھا ہم پہ پیار کا جال پیار کے جال…
ابھی تک سنگ ریزے زخم سے نکلے نہیں
ابھی تک سنگ ریزے زخم سے نکلے نہیں ابھی تک سنگ ریزے زخم سے نکلے نہیں اور لرزش ناتوانی پر سراپا احتجاج بے زباں ہے…
یوں آگیا ہوں اُس کے اصولوں کے درمیاں
یوں آگیا ہوں اُس کے اصولوں کے درمیاں کاغذ اُڑے ہے جیسے بگولوں کے درمیاں آپس میں شوخیاں نہ اُلجھ جائیں بے سبب رکھا ہے…
یہ ورود ہے یا خروج ہے یا نزول ہے
یہ ورود ہے یا خروج ہے یا نزول ہے یہ عذاب جو بھی ہے، انتہا ہے عذاب کی اسے سرزنش بھی نہ کر سکا میں…
یہ زمیں اور آسماں مل کر
یہ زمیں اور آسماں مل کر اب منائیں مرا نشاں مل کر تاک میں کشتیوں کی رہتے ہیں یہ ہوا اور یہ بادباں مل کر…
یہ جو زندگی ہے یہ کون ہے
یہ جو زندگی ہے یہ کون ہے یہ جو بے بسی ہے یہ کون ہے یہ تمہارے لمس کو کیا ہوا یہ جو بے حسی…
یہ الگ کہ ٹھہرا ہے عزمِ بے کراں اپنا
یہ الگ کہ ٹھہرا ہے عزمِ بے کراں اپنا اب تو وقت لیتا ہے روز امتحاں اپنا ہم بھی غم کی چادر کو سر پہ…
یا پھر
یا پھر۔۔ خون روتی ہوئی آنکھوں کی دنیا میں تم بہت بہادر ہو مسکرا لیتے ہو ہنس لیتے ہو قہقہے لگا لیتے ہو تم بہت…
وہ کہتی ہے کہ در کھٹکا
وہ کہتی ہے کہ در کھٹکا میں کہتا ہوں ہوا ہو گی وہ کہتی ہے کوئی بولا میں کہتا ہوں قضا ہو گی وہ کہتی…
وہ بولی کیا چھپا ہے ان تری ویران آنکھوں میں
وہ بولی کیا چھپا ہے ان تری ویران آنکھوں میں میں بولا غم ہی غم ہے ان مری بے جان آنکھوں میں وہ بولی مجھ…
وقتی طور پر آؤ! ہم
وقتی طور پر آؤ! ہم اپنے دلوں کو اپنی اپنی مٹھیوں میں اتنی زور سے جکڑ لیں کہ شریانوں سے پھوٹنے والا کرب یہیں گم…
وطن میں رہ کے بھی سبھی ہیں کو بہ کو جلا وطن
وطن میں رہ کے بھی سبھی ہیں کو بہ کو جلا وطن کسی کا دل ہے تو کسی کی آرزو جلا وطن میں تیری بستیوں…
وادیِ طائف
وادیِ طائف لمحہِ مشکل ناکافی روشنی بینائی کو تنگ کرتی ہے زیادہ دھوپ زیادہ سردی کی طرح ہوتی ہے اور نا کافی اندھیرا مکمل سکون…
ہے بیگانوں کے جنگل میں اپنوں کی گھات الگ
ہے بیگانوں کے جنگل میں اپنوں کی گھات الگ وہ میری ذات الگ رکھتے ہیں اپنی ذات الگ مت پوچھو کیسے جنگیں ہاریں سرد محاذوں…
ہوا اڑا کے مجھے جس طرف بھی لے جائے
ہوا اڑا کے مجھے جس طرف بھی لے جائے ترے خیال سے بچھڑا ہوا پرندہ ہوں فرحت عباس شاہ (کتاب – شام کے بعد –…
ہمیں ایک درد رہے تو پھر بھی کہیں کہ ہاں
ہمیں ایک درد رہے تو پھر بھی کہیں کہ ہاں یہ جو صبر ہے یہ تو بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اسی عاشقی کی فضائے…
ہم ہیں کھیت، پہاڑ اور جھرنے ہم سر سبز نظارے
ہم ہیں کھیت، پہاڑ اور جھرنے ہم سر سبز نظارے آنگن آنگن چاند ہیں ہم سب آنگن آنگن تارے سندھ بلوچستان ہمارا سرحد اور پنجاب…
ہم نے اپنی ہمت کے تختے پر جیون پار کیے
ہم نے اپنی ہمت کے تختے پر جیون پار کیے ورنہ کیسی کیسی کشتی ڈوب گئی ہے دریا میں فرحت عباس شاہ (کتاب – سوال…
ہم سفر بند ہیں زمانے میں
ہم سفر بند ہیں زمانے میں ورنہ کوئی تو در کھلا ہوتا فرحت عباس شاہ (کتاب – سوال درد کا ہے)
ہم جو بے چین بہت ہیں یارو
ہم جو بے چین بہت ہیں یارو ہم کہاں جائیں گے اس دنیا میں فرحت عباس شاہ (کتاب – شام کے بعد – دوم)
ہم بہت گہری اداسی کے سوا
ہم بہت گہری اداسی کے سوا جس سے بھی ملتے ہیں کم ملتے ہیں فرحت عباس شاہ
ہزار رستہ بدل کے دیکھا
ہزار رستہ بدل کے دیکھا ہمیں پتہ ہے کہ ہم نے کتنا سنبھل کے دیکھا نئی اور انجانی رہگزاروں پہ چل کے دیکھا ہزار رستہ…
ہر ایک رات مری ہو گئی وصال کی رات
ہر ایک رات مری ہو گئی وصال کی رات تنی ہوئی ہے جبیں پر ترے خیال کی رات ہے اُس کے چہرے پہ پہلی کرن…
ہجر کو ڈھونڈ کے لانا ہے ابھی
ہجر کو ڈھونڈ کے لانا ہے ابھی اور اک حشر اٹھانا ہے ابھی یہ وہی دل ہے تمہارے والا یہ وہی شہر پرانا ہے ابھی…
نیو کیمپس
نیو کیمپس نہر کے کنارے پر شام سے ذرا پہلے تتلیاں بکھرتی ہیں خوشبوؤں کی لہروں میں ڈوبتی اُبھرتی ہیں آتے جاتے پھولوں کو چھیڑ…
نہ جانے کتنا جیون گھٹ گیا ہے
نہ جانے کتنا جیون گھٹ گیا ہے چلو کچھ راستہ تو کٹ گیا ہے تمہارے معاملے میں خود مرا دل مرے مدّ مقابل ڈٹ گیا…
نزع
نزع خوف برف سے زیادہ یخ بستہ ہوتا ہے محبت آگ سے زیادہ گرم میرا سینہ گرم ہے میرے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہیں مجھ سے…
میں وطن ہوں اور مری معصومیت
میں وطن ہوں اور مری معصومیت بے سر و سامان و در بے خدو خال میں کوئی بچہ مری آنکھوں میں ریت ماں مری مجھ…
میں نے دیکھا دیوانوں کو شام کے بعد
میں نے دیکھا دیوانوں کو شام کے بعد ڈھونڈ رہے تھے ویرانوں کو شام کے بعد تاریکی پھر سارے عیب چھپا لے گی لے آنا…
میں ڈرا نہیں
میں ڈرا نہیں میں ڈرا نہیں میں ڈرا نہیں کسی کھال میں کسی اور کھا ل کو دیکھ کر بھی ڈرا نہیں کسی جال میں…
میں تھا بے چین وہ برہم سمجھا
میں تھا بے چین وہ برہم سمجھا اس قدر اس نے مجھے کم سمجھا شہر والوں نے نہ جانے کیوں کر میری خاموشی کو ماتم…
میں بہت دور ہی سہی تجھ سے
میں بہت دور ہی سہی تجھ سے تو مرے آس پاس رہتا ہے کوئی بھی شور ادھر نہیں رہتا وہ مرے آس پاس رہتا ہے…
میرے مولا کا کرم ہے یارو
میرے مولا کا کرم ہے یارو میری بنیاد میں غم ہے یارو فرحت عباس شاہ
میرا اندوہ تھک گیا تو کیا
میرا اندوہ تھک گیا تو کیا ہجر کا پھل بھی پک گیا تو کیا منزلوں کو جھٹک گیا تو کیا دل ہی تھا نا، بھٹک…
موت گر اک ذرا غنی ہوتی
موت گر اک ذرا غنی ہوتی عمر بھر یوں نہ جاں کَنی ہوتی پھر تجھے رات کا پتہ چلتا گر تِری درد سے ٹھَنی ہوتی…
منتشر لوگ ہیں جھونکوں سے بھی ڈر جاتے ہیں
منتشر لوگ ہیں جھونکوں سے بھی ڈر جاتے ہیں اتنے ہم ہوتے نہیں جتنے بکھر جاتے ہیں فرحت عباس شاہ (کتاب – جم گیا صبر…