زین شکیل
دل نے رنج و ملال
دل نے رنج و ملال اپنائے ہم نے سارے زوال اپنائے دیکھ بیٹھا ہوا ہوں میں اب تک صرف تیرا خیال اپنائے کون دعویٰ کرے…
دیکھ رہا تھا ہنستی
دیکھ رہا تھا ہنستی کھیلتی آنکھوں کو جانے کیسے آنکھ اچانک بھر آئی زین شکیل
رنج ہو یا خوشی ہو اے
رنج ہو یا خوشی ہو اے سانول بس مجھے تُو دکھائی دیتا ہے آج اس بات کا جواب تو دے میری نیندیں اڑا کے کیا…
زخم سارے ہی بھر دیے میں
زخم سارے ہی بھر دیے میں نے سُکھ تری سمت کر دیے میں نے وہ مرے سنگ تھا اداس تو پھر رابطے ختم کر دیے…
سفر تمام ہوا راستے تمام
سفر تمام ہوا راستے تمام ہوئے سحر ہوئے نہ تری ہم، نا تیری شام ہوئے نہیں تھا تجھ میں ذرا سا بھی وصفِ شہنشہی سو…
شال یوں کاندھوں پہ
شال یوں کاندھوں پہ بکھرائی نہیں ہوتی تھی جب تری شہر میں رسوائی نہیں ہوتی تھی اس کی یہ صفت تھی، ملنے مجھے آ جاتی…
غرورِ ذات سے باہر تو آ
غرورِ ذات سے باہر تو آ، شہادت پا علیؑ کے نام پہ خود کو لُٹا، شہادت پا ہمیشگی ترے کاسے میں خود ہی آ گرے…
کبھی سامنے آ محجوب
کبھی سامنے آ محجوب پیا مجھے بس اک تُو محبوب پیا مری تجھ سے ہی پہچان بنے میں تجھ سے رہوں منسوب پیا تُو دل…
کس دنیا میں آن بسے ہو
“کس دنیا میں آن بسے ہو” دو، تِن دن ای لوکاں تینوں اپنے سینے لا کے چُوٹھی مُوٹھی تیرا بن جانا اے جھلیا تینوں، ایہہ…
کھو جانے کا کھو دینے
کھو جانے کا، کھو دینے کا مطلب جانتے ہو؟ پھر اس حال میں جی لینے کا مطلب جانتے ہو؟ “لا” کی منزل پا لینا آسان…
کیا آج مرا کیا کل
کیا آج مرا کیا کل سائیں اب سنگ مرے تُو چل سائیں اک چاہ میں تیری برسے تھے دو نین ہوئے اب تھل سائیں رکھ…
لوٹ کر چلے آؤلوٹ کر
لوٹ کر چلے آؤ لوٹ کر چلے آؤ بات ہی تو کرنی ہے بس تمہاری بانہوں میں رات ہی تو کرنی ہے تم تو کہہ…
مجھے لوگ محوِ ملال دیکھ
مجھے لوگ محوِ ملال دیکھ کے رو پڑے مری عمر بھر کا وبال دیکھ کے رو پڑے جو کسی کے آگے نہ لاجواب ہوئے کبھی…
مری بے گناہیوں پرہیں
مری بے گناہیوں پر ہیں ترے گنہ کے پردے یہاں سب کے سب ہیں منصف یہاں سب کے سب خدا ہیں تجھے کون پوچھتا ہے؟…
ملو مجھ سے اِسے چاہو
ملو مجھ سے اِسے چاہو تو میری آخری خواہش سمجھ لو پر ملو مجھ سے زین شکیل
میرے سارے موسم تم
میرے سارے موسم تم ہو آج کسی کی زلفیں بھی تو سلجھی سلجھی سی لگتی ہیں آج مزاجِ یار میں دیکھو پہلے سی تلخی بھی…
نہ مجھ سے اور کوئی بات
نہ مجھ سے اور کوئی بات مانی جائے گی خدا کی ذات بڑی ذات مانی جائے گی سو تُو نے دکھتی ہوئی رگ پہ ہاتھ…
ہم ایسے شب گزیدہ لکھ
ہم ایسے شب گزیدہ، لکھ رہے ہیں ترا حُسنِ حمیدہ لکھ رہے ہیں وہ جن باتوں پہ ہنستا تھا ہمیشہ انہیں ہم آبدیدہ لکھ رہے…
ہوکے رکھ کے کی
ہوکے رکھ کے کی کرنے ہاڑے رکھ کے کی کرنے پجیاں ہویاں اکھیاں وچ سفنے رکھ کے کی کرنے تھوڑے سکھ بتھیرے نیں بوھتے رکھ…
وہ بولی تم بھی کیا شے
وہ بولی تم بھی کیا شے ہو؟ میں بولا اک دیارِ غم وہ بولی جاذبیت ہے میں بولا ہے نکھارِ غم وہ بولی ہوش میں…
وہ جسے دیکھ کے منہ
وہ جسے دیکھ کے، منہ پھیر کے، ہنس دیتے ہو ہائے وہ شخص زمانے کا ستایا ہوا ہے میں تجھے پائے ہوئے خود کو تلاشوں…
وہ مانگتا ہے محبت کا اب
وہ مانگتا ہے محبت کا اب صلہ مجھ سے اسے رہا ہے سدا ہی کوئی گلہ مجھ سے میں آج ٹوٹ کے رویا کسی کی…
یہ تو لوگوں نے یونہی
یہ تو لوگوں نے یونہی بات بنائی ہوئی ہے کون کہتا ہے تری مجھ سے جدائی ہوئی ہے میں تو آنکھوں کو بھی پڑھنے کا…
اب صرف یہی معمول
اب صرف یہی معمول پیا تری فکر کو دینا طول پیا تری بات سکونِ قلب و جگر ترے ذکر میں ہم مشغول پیا کب حال…
اتنا سوچا اتنا سوچا
اتنا سوچا، اتنا سوچا، حیرت ہے! پھر بھی خط میں کچھ نہ لکھا، حیرت ہے! تم عرصہ پہلے کی باتیں کرتے ہو سچ مچ اتنا…
آزاد غزلبے خبری کا
آزاد غزل بے خبری کا موسم ہے باتیں یاد نہیں رہتیں تو میری خاموشی کو کتنا سندر لگتا ہے تنہائی یہ کہتی ہے بات کرو…
آزاد غزلمری زندگی کے
آزاد غزل مری زندگی کے حسین پل تری آرزو میں بکھر گئے مجھے تجھ سے کوئی گلہ نہیں مجھے درد سہنے کا شوق تھا مرے…
اُس کی ذات سُریلی اُس
اُس کی ذات سُریلی اُس کی بات سُریلی کیسے کر لیتے ہو؟ ہر اِک بات سُریلی کر دیتے ہو آ کر میری رات سُریلی دام…
اکثر دل کا حال سنا کر
اکثر دل کا حال سنا کر روئے ہیں اکثر کوئی بات چھپا کر روئے ہیں ایسے رونا کون گنے گا بولو ناں ہنسنے جیسی شکل…
آؤ ماتم کریں اُداسی
آؤ ماتم کریں اُداسی کا شہر، گلیاں، نگر، تمام اُداس چاند، تارے اُداس، شام اُداس صبح سے شام کا نظام اُداس تیرا وہ آخری سلام…
ایک شعراداس کرنے کی
ایک شعر اداس کرنے کی اُس نے بھی انتہا کر دی اداس ہونے کا میں نے بھی حق ادا کیا ہے زین شکیل
ایک شعریوں میرے لمحوں
ایک شعر یوں میرے لمحوں کو اپنے پاس سنبھال لیا ہے جیسے میرے حق پہ اُس نے ڈاکہ ڈال لیا ہے زین شکیل
بول پیا ذات کا
’’ بول پیا‘‘ ذات کا گنجل کھول پِیا ’’کچھ بول پِیا‘‘ اس رات کی کالی چادر کو یہ چاند ستارے اوڑھ چکے کچھ جان سے…
پنجابی ماہیاکوئی زلف
پنجابی ماہیا کوئی زلف دی چھاں ڈھولا لبھی تیری اکھیاں وچ اساں ڈُبن دی تھاں ڈھولا زین شکیل
تجھ سے بچھڑا رہوں گا
تجھ سے بچھڑا رہوں گا، کیا کروں گا خود سے روٹھا رہوں گا، کیا کروں گا تُو تو رو کر بھی سرخرو رہے گی میں…
تم اپنا حال سنا کر نہیں
تم اپنا حال سنا کر نہیں گئے تھے مجھے میں سو رہا تھا اٹھا کر نہیں گئے تھے مجھے تو کیا تمہیں میں بہت یاد…
تمہیں ڈھونڈتے ہیںاور
تمہیں ڈھونڈتے ہیں اور کیا عالمِ وارفتگی ہو ہم غمِ دنیا سے گھبرائے ہوئے جب بھی روتے ہیں تمہیں ڈھونڈتے ہیں زین شکیل
توسیعی غزلامیرِ شہر
توسیعی غزل امیرِ شہر کے دربار کا معاملہ ہے میں جھک نہ پاؤں گا دستار کا معاملہ ہے غریب جینے نہ پائے عجیب فیصلہ ہے…
جانے کیسا یہ مرحلہ
جانے کیسا یہ مرحلہ آیا وہ مجھے داستاں بنا آیا وہ ہنسا میری جاں میں جاں آئی اُس کے ہنسنے پہ پیار سا آیا اُس…
جن پر بے ثمری کی تہمت
جن پر بے ثمری کی تہمت لگ جائے ان پیڑوں کے چھاؤں کو دکھ ہوتے ہیں بیٹے کے چہرے پر زردی کیوں چھائی؟ کیسے کیسے…
جیسے تمہیں اپنا تو کوئی
جیسے تمہیں اپنا تو کوئی غم ہی نہیں ہے کیوں ہم سے اُداسی کی وجہ پوچھ رہے ہو؟ ہم کون ہیں، ہم کیا ہیں، ہمیں…
چلتا پھرتا ہوا وہ تم نے
چلتا پھرتا ہوا وہ تم نے جو غم دیکھا تھا کون کہتا ہے کہ تم نے مجھے کم دیکھا تھا آئینہ آج اٹھایا تو بہت…
خود ہنگامہ آرا ہے یا
خود ہنگامہ آرا ہے یا بد ہنگام محبت کیونکر ہے مدت سے یارو تشنہ کام محبت چاہ، خلوص، مروت، خدمت سارے روپ ہی تیرے دیکھو…
درد کی اپنی ریت
درد کی اپنی ریت وچھوڑا آج گیا پھر جیت وچھوڑا ساز پِیا کے سنگ گئے سب رہ گیا لب پر گیت وچھوڑا دے گئی مجھ…
دل و نگاہ میں جو اس کی
دل و نگاہ میں جو اس کی بال تھا تو کیا ہوا چلو اگر اسے کوئی ملال تھا تو کیا ہوا سخی تو جانتا تھا…
ذرا سی دیر مِرے ساتھ تم
ذرا سی دیر مِرے ساتھ تم چلے آؤ! ابھی تو شہر کو میں نے جواب دینا ہے یہ اپنا طرزِ کرم اب کی بار بدلو…
رہو نفرت سے محروم
رہو نفرت سے محروم پیا ہمیں لگتے ہو معصوم پیا مرے اندر دیپ جلاتے ہیں تری باتوں کے مفہوم پیا تو نے ہاتھ میں جب…
ساڈی اکھیں اتھرو
ساڈی اکھیں اتھرو ،لال ساڈے سینے دکھ دے ،جال اسیں لبھدے پھرئیے سُکھ سانوں تھاں تھاں لبھے دُکھ ساڈے سفنے وی کنگال ساڈی اکھیں اتھرو،…
سمندرِ غم کے پار ہو کر
سمندرِ غم کے پار ہو کر، اُداس ہو کر ملا بھی کیا ہے قرار کھو کر، اُداس ہو کر ابھی میں کیسے غمِ زمانہ کے…