افتخار راغب
کتنے دن اور کئی
غزل کتنے دن اور کئی برس یوں ہی کیا تڑپتے رہیں گے بس یوں ہی ان کی رُسوائیوں پہ حیرت کیا منھ کی کھاتے ہیں…
کھڑکیاں گم صُم ہیں
غزل کھڑکیاں گم صُم ہیں بام و در اُداس تیرے جانے سے ہے سارا گھر اُداس کس کو ہے احساس میرے درد کا کون ہوتا…
کیسے کہیے دل میں
غزل کیسے کہیے دل میں بس کر دل کا جو اُس نے حال کیا جب دل چاہا دل کو سنوارا جب چاہا پامال کیا میں…
مجھ کو رکھتی ہے
غزل مجھ کو رکھتی ہے پریشان مِری خوش فہمی جان لے لے گی مِری جان مِری خوش فہمی میری خوش فہمی مِرے جذبۂ الفت کی…
منحرف بھی ہو کبھی
غزل منحرف بھی ہو کبھی معمول سے روز استقبال مت کر پھول سے ہر طرف عریانیت عریانیت بھر گئیں آنکھیں ہماری دھول سے پِل پڑے…
نفرت کے تاجروں کو
غزل نفرت کے تاجروں کو محبت کی آرزو دوزخ کے باسیوں کو ہے جنت کی آرزو حکمت کی آرزو ہے نہ حیرت کی آرزو اہلِ…
ہو چراغِ علم روشن
غزل ہو چراغِ علم روشن ٹھیک سے لوگ واقف ہوں نئی تکنیک سے علم سے روشن تو ہے اُن کا دماغ دل کے گوشے ہیں…
یک طرفہ اعتبار
غزل یک طرفہ اعتبار ملانے کو خاک میں موقع پرست لوگ تھے موقع کی تاک میں دونوں کے درمیان لگا فاصلہ بہت آیا نظر کبھی…
اِک اِک لمحہ گِن
غزل اِک اِک لمحہ گِن کر کاٹ رہا ہوں ہجر کے دن یا پتھّر کاٹ رہا ہوں کاٹ رہا ہوں جیون اِک صحرا میں میں…
ان کے وعدوں کا جام
غزل ان کے وعدوں کا جام اپنی جگہ تشنگی صبح و شام اپنی جگہ عشق اپنی جگہ تمام ہوا خواہشِ ناتمام اپنی جگہ چھوڑ دو…
بن تِرے ہے کٹھن
غزل بن تِرے ہے کٹھن گزارا بھی ہے کہاں اور کوئی چارا بھی کیا کیا جائے تم ہی بتلاؤ دل تو لگتا نہیں ہمارا بھی…
تجھے کیا پتا تجھے
غزل تجھے کیا پتا تجھے کیا خبر مِرے بے خبر تجھے چاہتا ہوں میں کس قدر مِرے بے خبر مِرے دل کی دیکھنا تشنگی مِری…
تھے صورتِ سوال
غزل تھے صورتِ سوال سبھی اُس کے گھر کے پاس گویا ہر اِک جواب تھا دیوار و در کے پاس کیا جانے کیا ہو ردِّ…
جدائی کا موسم یہاں
غزل جدائی کا موسم یہاں سے وہاں تک برستا ہوا غم یہاں سے وہاں تک وہاں سے یہاں تک ہے جو بے قراری وہی کچھ…
چشمِ تر کو زبان کر
غزل چشمِ تر کو زبان کر بیٹھے حال دل کا بیان کر بیٹھے تم نے رسماً مجھے سلام کیا لوگ کیا کیا گمان کر بیٹھے…
ختم دل کا نصاب ہو
غزل ختم دل کا نصاب ہو گیا نا کربِ جاں کامیاب ہو گیا نا میں سراپا سوال اُن کے حضور اور اُن کا جواب ’’ہو…
درونِ چشم ہے روشن
غزل درونِ چشم ہے روشن کوئی جھلک اُس کی کہ محوِ رقص نگاہوں میں ہے چمک اُس کی یہ بات آئی سمجھ میں نہ آج…
دو گھڑی بیٹھ کے دو
غزل دو گھڑی بیٹھ کے دو بات نہیں ہو سکتی کیا کبھی تجھ سے ملاقات نہیں ہو سکتی اے محبّت نہ برا مان کہ اب…
زخم پر زخم دے رہا
غزل زخم پر زخم دے رہا ہے وہ وہ نہیں چارہ گر تو کیا ہے وہ درد سے پہلے لگ رہا تھا مجھے دردِ دل…
ضرورتوں کی بیڑیاں
غزل ضرورتوں کی بیڑیاں پڑی ہوئی ہیں پاؤں میں تمھیں بتاؤ کس طرح میں لوٹ آؤں گاؤں میں اکیلے پن کی دھوپ میں تڑپ رہا…
کس جگہ کس وقت اور
غزل کس جگہ کس وقت اور کس بات پر کتنا چپ رہنا ہے اُن کو علم ہے میری شرحِ خواہش و جذبات پر کتنا چپ…
کہہ تو دیا ہے
غزل کہہ تو دیا ہے ’’اچھّا دیکھا جائے گا‘‘ کیسے تیرا بچھڑنا دیکھا جائے گا کِن آنکھوں سے ہجر کی صورت دیکھیں گے کس منھ…
گجرات کی طرح ہوں
غزل گجرات کی طرح ہوں میں، مجھ کو بھی غم گسار دو کس کو بتاؤں کس طرح گزرا تھا دو ہزار دو کر دوں گا…
ماضی کے ورق پلٹ کے
غزل ماضی کے ورق پلٹ کے روئے یادوں سے تِری لپٹ کے روئے روئے خوب ٹوٹ کر کبھی ہم خود میں بھی کبھی سمٹ کے…
میرے خامے کو وہ
غزل میرے خامے کو وہ سیاہی دے ذہن و دل کو جو خوش نگاہی دے اب کوئی فیصلہ سنا ہی دے مت جزا دے مجھے…
نگہ میں انتہاے
غزل نگہ میں انتہاے شوق، عشقِ بے کراں دل میں بلا کی حکمت و حیرت ہے پنہاں پیکرِ گِل میں تجھے پانے کی خواہش ختم…
ہو گئی ہے فدا موت
غزل ہو گئی ہے فدا موت پر زندگی خوف و دہشت سے ہے بے خبر زندگی ہے تِری راہ میں کوئی تیرا عدو اس سے…
یاس من کو اُداس
غزل یاس من کو اُداس رکھتی ہے تازہ دم دل کو آس رکھتی ہے اپنی اردو سبھی زبانوں میں اِک الگ ہی مٹھاس رکھتی ہے…
ابتدا مجھ سے انتہا
غزل ابتدا مجھ سے انتہا مجھ پر ختم ہو تیری ہر جفا مجھ پر کام آتی ہے تجربہ کاری ظلم کرتا ہے تجربہ مجھ پر…
آسماں ہلنے لگیں
غزل آسماں ہلنے لگیں گے یہ زمیں پھٹ جائے گی تیرے کانوں تک نہ پاے دل کی آہٹ جائے گی چاہ کر بھی شمع پروانے…
اندھیرے میں چلا کر
غزل اندھیرے میں چلا کر تیر یوں ہی بیاں مت کیجیے تفسیر یوں ہی اُنھیں بنیاد کی حاجت کہاں ہے محل ہو جائے گا تعمیر…
بہت ہے فرق ہماری
غزل بہت ہے فرق ہماری تمھاری سوچوں میں خدا کرے کہ نہ ہو اختلاف دونوں میں وہ بس گیا ہے کچھ اِس طرح میری آنکھوں…
تحمّل کوچ کر جائے
غزل تحمّل کوچ کر جائے تمھیں کیا فرق پڑتا ہے تڑپ کر کوئی مر جائے تمھیں کیا فرق پڑتا ہے تمھیں کیا فرق پڑتا ہے…
توجّہ میں تری
غزل توجّہ میں تری تبدیلیاں معلوم ہوتی ہیں مجھے گھٹتی ہوئی اب دوریاں معلوم ہوتی ہیں درختوں پر کچھ ایسا آندھیوں نے قہر ڈھایا ہے…
جلاؤ شوق سے تم
غزل جلاؤ شوق سے تم علم و آگہی کے چراغ نہ بجھنے پائیں مگر امن و آشتی کے چراغ تمام قوّتِ باطل کی متّحد پھونکیں…
چشمِ حیرت کی تڑپ
غزل چشمِ حیرت کی تڑپ دُور کریں خود کو اب اور نہ مستور کریں فرطِ جذبات میں کیا کہہ بیٹھوں لب کشائی پہ نہ مجبور…
خاکی کے دل میں
غزل خاکی کے دل میں ہوگی ہی الفت زمین کی لیکن بنا دے وحشی نہ چاہت زمین کی مٹّی کے اِس بدن پہ میں اِتراؤں…
دشتِ فرقت میں
غزل دشتِ فرقت میں زندگانی کی حد نہیں میری بے مکانی کی زندگی بھر سزائیں کاٹی ہیں ایک چھوٹی سی خوش گمانی کی موسمِ ہجر…
دیکھی ہے اتنی راہ
غزل دیکھی ہے اتنی راہ تِری ہر پڑاو پر اے دوست لگ گئی مِری منزل بھی داو پر ہے مسئلوں کے زخم کا پیکر ہر…
سامنے آگئی اِک روز
غزل سامنے آگئی اِک روز یہ سچّائی بھی دشمنِ جاں یہ سماعت بھی ہے بینائی بھی پیکرِ شعر میں ہر جذبہ نہیں ڈھل پاتا کچھ…
ظلمت کے غضب سے
غزل ظلمت کے غضب سے نہیں ڈرتا کوئی سورج تاریکی بڑھی حد سے کہ ابھرا کوئی سورج کیا بھول گئے سارے اماوس کے پرستار کرتا…
کس درجہ ہے باکمال
غزل کس درجہ ہے باکمال چہرہ کہہ دیتا ہے دل کا حال چہرہ ہے مشکل بہت ہی مسکرانا ہو غم سے اگر نڈھال چہرہ بے…
کوئی اُس سے نہ وہ
غزل کوئی اُس سے نہ وہ کسی سے ملے روشنی کیسے تیرگی سے ملے دور ہی سے سلام ہے اُس کو پاس آکر جو بے…
کیوں دل مرا مغموم
غزل کیوں دل مرا مغموم ہے میں کیا کہوں تجھ کو تو سب معلوم ہے میں کیا کہوں جس کے ستم کی زد میں ہوں…
محبت آگئی کس مرحلے
غزل محبت آگئی کس مرحلے میں دماغ و دل نہیں ہیں رابطے میں ضروری تو نہیں پھولے پھلے بھی شجر اچھا لگے جو دیکھنے میں…
میرے دل کو بھی
غزل میرے دل کو بھی تیرے جی کو بھی چین اِک پل نہیں کسی کو بھی جی رہا ہوں تِرے بغیر بھی میں اور ترستا…
نمی سے آنکھوں کی
غزل نمی سے آنکھوں کی سرسبز اپنا حال تو کر شکستہ حال اُمیدوں کی دیکھ بھال تو کر تڑپ رہے ہوں کہیں تجھ سے بھی…
ہَوا ہونے کی کوشش
غزل ہَوا ہونے کی کوشش کر رہا ہوں رِہا ہونے کی کوشش کر رہا ہوں سرِ صحرا برسنا چاہتا ہوں گھٹا ہونے کی کوشش کر…
یادوں کی نرم رضائی
غزل یادوں کی نرم رضائی ہے مِرے حصّے میں میں تنہا ہوں تنہائی ہے مِرے حصّے میں مِرے حصّے میں ارمانوں کا اِک صحرا ہے…
آپ سے رہ کر الگ
غزل آپ سے رہ کر الگ ممکن گزارا ہے کہاں گھُٹ کے مرنے کے سوا اب کوئی چارا ہے کہاں ہاتھ رکھّا تھا ہمارے دل…