چار سو میرے اجالا ہی اجالا کر دیا
کون کہتا ہے محبت نام ہے رسوائی کا
کب سنا ہے پھول کو شبنم نے میلا کر دیا
ڈھونڈتا پھرتا ہے اب وہ دوستوں کو ہر طرف
دوستی کے شوق نے اُس کو اکیلا کر دیا
چیخ سن کر بھی کسی نے مڑ کے دیکھا ہی نہیں
بے حسی نے شہر کے لوگوں کو بہرہ کر دیا
بارشوں میں بھیگ کر سب پیڑ اُجلے ہو گئے
رات بھر رونے نے کچھ مجھ کو بھی ہلکا کر دیا
روز ملتا تھا میں تم سے روز ہوتا تھا جدا
اس طرح کے حادثوں نے زخم گہرا کر دیا